سیاحت میں ہلاکتی ترقی
سندھ حکومت نے ضلع دادو کے تفریحی مقام کھیر تھر کی ترقی پر توجہ دی نہ پنجاب حکومت ملکہ کوہسار مری سے باہر نکلی
اللہ پاک نے اسلام کے نام پر وجود میں لائے گئے پاکستان کو چاروں موسموں اور قدرتی مناظر کے خوب صورت علاقے عطا کر رکھے ہیں جو اندرون ملک ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں اور ماضی میں دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں قدرتی ماحول اور مناظر سے لطف اندوز ہونے یہاں آتے تھے جس سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آتی تھی مگر افغانستان کے باعث گزشتہ 3 عشروں سے پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان آنا اور پاکستانیوں نے اپنے ملک کے سیاحتی مقامات پر جانا محدود کردیا تھا۔
کراچی اور بلوچستان میں سمندر کی وجہ سے ملک کے لوگ آیا کرتے تھے جن کی بڑی تعداد کراچی کے سمندری سیاحتی مقامات کلفٹن، منوڑا، ہاکس بے تفریح کے لیے جایا کرتی تھی مگر کراچی میں آئے دن کی دہشت گردی نے اپنے ہم وطنوں کو ہی کراچی سے ڈرا دیا تھا اور وہ کراچی کسی مجبوری ہی میں آتے تھے اور سمندر پر جائے بغیر واپس لوٹ جاتے تھے۔ بلوچستان کے سمندری علاقوں میں نہ سیاحتی سہولتیں ہیں نہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس طرف توجہ دی۔ کوئٹہ اور قلات قدرتی مناظر اور سرد موسم کے لیے مشہور ہیں۔
سندھ حکومت نے ضلع دادو کے تفریحی مقام کھیر تھر کی ترقی پر توجہ دی نہ پنجاب حکومت ملکہ کوہسار مری سے باہر نکلی اور ڈیرہ غازی خان کے تفریحی علاقے فورٹ منروے جو ٹھنڈا رہنے کے لیے مشہور ہے کو ہی کوئی اچھا تفریحی مقام نہ بنا سکی۔ کوہ مری میں جو نئی سڑکیں بنیں یا ان میں توسیع اور بہتری آئی اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے مری پر خصوصی توجہ دی ہی نہیں۔ کے پی اور گلگت بلتستان کو قدرت نے بے شمار تفریحی علاقوں سے نواز رکھا ہے مگر ماضی میں یہ علاقے بھی دہشت گردی کا نشانہ رہے اور سوات جیسے علاقوں سے بھی سیاح دور ہو گئے تھے۔
کے پی میں سب سے زیادہ قدرتی تفریحی مقامات ہیں جہاں سوا 8سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا پسندیدہ تفریحی علاقہ نتھیا گلی کا گورنر ہاؤس ہے جہاں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد سوا 8 سال سے عمران خان اکثر خود اور فیملی کے ہمراہ وقت گزارتے ہیں ۔ کے پی حکومت نے جتنی توجہ نتھیا گلی کی ترقی پر دی اتنی کے پی کے کسی اور تفریحی مقام پر نہیں دی ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پسندیدہ تفریحی علاقہ مری ہے وہ مری کے گورنر ہاؤس میں دن گزارنا پسند کرتے تھے اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں مری میں سڑکوں اور مری کے علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی اور چوہدری پرویز الٰہی حکومت میں بھی مری پر توجہ دی گئی تھی مگر موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے مری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی حالانکہ شاہد خاقان عباسی کے حلقے مری سے انھیں شکستہوئی اور مری سے پی ٹی آئی کے صداقت عباسی جیتے تھے جو مری پر توجہ دینے کے بجائے میڈیا ٹاک شوز میں حکومت کی وکالت کرتے رہتے ہیں اور اپنی حکومت پر تنقید برداشت نہیں کرتے۔
وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کا تعلق سوات سے ہے مگر انھوں نے بھی سوات کی ترقی کو ترجیح نہیں دی۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار ملنے کے بعد اور پہلے بھی سابق حکومتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں کہ ملک میں دنیا کے بہترین پہاڑی تفریحی مقامات ہیں جہاں آنے کے لیے دنیا بھر کے سیاحوں کو متوجہ کیا جاسکتا تھا مگر ماضی میں پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات کو نظر انداز کیا گیا اور وہاں سیاحتی سہولتوں اور ترقی پر توجہ نہیں دی گئی ورنہ وہاں غیر ملکی سیاحوں کو ترغیبات دے کر سیاحتی ترقی دلائی جاسکتی تھی اور بڑی آمدن حاصل کی جاسکتی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے سیاحت کے فروغ اور ترقی کے لیے زلفی بخاری کو باہر سے بلا کر سرکاری ذمے داری سونپی تھی جو ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر انھوں نے دعوے زیادہ اور کام کم کیا۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے رہائشی منصوبوں میں انھوں نے جتنی دل چسپی لی اتنی توجہ انھوں نے ملک میں سیاحتی فروغ و ترقی پر نہیں دی گئی کہ غیر ملکی سیاح پاکستان کے سیاحتی مقامات پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی اس سلسلے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جس کا عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ ہو سکتا تھا۔
8 جنوری کو مری میں سیاحوں پر حکومتی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے جو قیامت گزری اس کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاحت کی نہیں بلکہ سیاحت میں ہلاکتوں کی ترقی بلکہ مری میں پہلی بار سیاحوں کی ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جس کے بعد توقع تو نہیں کہ غیر ملکی سیاح خود کو مری میں محفوظ سمجھیں گے اور مری آنا چاہیں گے کیونکہ مری میں پھر حکومت وقت جو ان 23 افراد کی جانیں نہ بچا سکی اس سے غیر ملکی سیاح کیا اچھائی کی توقع کریں گے کیونکہ حکومت نے ٹول ٹیکس کے ذریعے مری کو اپنی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ٹول ٹیکس کی کروڑوں روپے کی آمدنی اگر مری میں سیاحوں کی سہولیات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی تو مری میں اتنی زیادہ ہلاکتوں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔
کراچی اور بلوچستان میں سمندر کی وجہ سے ملک کے لوگ آیا کرتے تھے جن کی بڑی تعداد کراچی کے سمندری سیاحتی مقامات کلفٹن، منوڑا، ہاکس بے تفریح کے لیے جایا کرتی تھی مگر کراچی میں آئے دن کی دہشت گردی نے اپنے ہم وطنوں کو ہی کراچی سے ڈرا دیا تھا اور وہ کراچی کسی مجبوری ہی میں آتے تھے اور سمندر پر جائے بغیر واپس لوٹ جاتے تھے۔ بلوچستان کے سمندری علاقوں میں نہ سیاحتی سہولتیں ہیں نہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس طرف توجہ دی۔ کوئٹہ اور قلات قدرتی مناظر اور سرد موسم کے لیے مشہور ہیں۔
سندھ حکومت نے ضلع دادو کے تفریحی مقام کھیر تھر کی ترقی پر توجہ دی نہ پنجاب حکومت ملکہ کوہسار مری سے باہر نکلی اور ڈیرہ غازی خان کے تفریحی علاقے فورٹ منروے جو ٹھنڈا رہنے کے لیے مشہور ہے کو ہی کوئی اچھا تفریحی مقام نہ بنا سکی۔ کوہ مری میں جو نئی سڑکیں بنیں یا ان میں توسیع اور بہتری آئی اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے مری پر خصوصی توجہ دی ہی نہیں۔ کے پی اور گلگت بلتستان کو قدرت نے بے شمار تفریحی علاقوں سے نواز رکھا ہے مگر ماضی میں یہ علاقے بھی دہشت گردی کا نشانہ رہے اور سوات جیسے علاقوں سے بھی سیاح دور ہو گئے تھے۔
کے پی میں سب سے زیادہ قدرتی تفریحی مقامات ہیں جہاں سوا 8سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا پسندیدہ تفریحی علاقہ نتھیا گلی کا گورنر ہاؤس ہے جہاں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد سوا 8 سال سے عمران خان اکثر خود اور فیملی کے ہمراہ وقت گزارتے ہیں ۔ کے پی حکومت نے جتنی توجہ نتھیا گلی کی ترقی پر دی اتنی کے پی کے کسی اور تفریحی مقام پر نہیں دی ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پسندیدہ تفریحی علاقہ مری ہے وہ مری کے گورنر ہاؤس میں دن گزارنا پسند کرتے تھے اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں مری میں سڑکوں اور مری کے علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی اور چوہدری پرویز الٰہی حکومت میں بھی مری پر توجہ دی گئی تھی مگر موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے مری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی حالانکہ شاہد خاقان عباسی کے حلقے مری سے انھیں شکستہوئی اور مری سے پی ٹی آئی کے صداقت عباسی جیتے تھے جو مری پر توجہ دینے کے بجائے میڈیا ٹاک شوز میں حکومت کی وکالت کرتے رہتے ہیں اور اپنی حکومت پر تنقید برداشت نہیں کرتے۔
وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کا تعلق سوات سے ہے مگر انھوں نے بھی سوات کی ترقی کو ترجیح نہیں دی۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار ملنے کے بعد اور پہلے بھی سابق حکومتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں کہ ملک میں دنیا کے بہترین پہاڑی تفریحی مقامات ہیں جہاں آنے کے لیے دنیا بھر کے سیاحوں کو متوجہ کیا جاسکتا تھا مگر ماضی میں پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات کو نظر انداز کیا گیا اور وہاں سیاحتی سہولتوں اور ترقی پر توجہ نہیں دی گئی ورنہ وہاں غیر ملکی سیاحوں کو ترغیبات دے کر سیاحتی ترقی دلائی جاسکتی تھی اور بڑی آمدن حاصل کی جاسکتی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے سیاحت کے فروغ اور ترقی کے لیے زلفی بخاری کو باہر سے بلا کر سرکاری ذمے داری سونپی تھی جو ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر انھوں نے دعوے زیادہ اور کام کم کیا۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے رہائشی منصوبوں میں انھوں نے جتنی دل چسپی لی اتنی توجہ انھوں نے ملک میں سیاحتی فروغ و ترقی پر نہیں دی گئی کہ غیر ملکی سیاح پاکستان کے سیاحتی مقامات پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی اس سلسلے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جس کا عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ ہو سکتا تھا۔
8 جنوری کو مری میں سیاحوں پر حکومتی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے جو قیامت گزری اس کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاحت کی نہیں بلکہ سیاحت میں ہلاکتوں کی ترقی بلکہ مری میں پہلی بار سیاحوں کی ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے جس کے بعد توقع تو نہیں کہ غیر ملکی سیاح خود کو مری میں محفوظ سمجھیں گے اور مری آنا چاہیں گے کیونکہ مری میں پھر حکومت وقت جو ان 23 افراد کی جانیں نہ بچا سکی اس سے غیر ملکی سیاح کیا اچھائی کی توقع کریں گے کیونکہ حکومت نے ٹول ٹیکس کے ذریعے مری کو اپنی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ٹول ٹیکس کی کروڑوں روپے کی آمدنی اگر مری میں سیاحوں کی سہولیات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی تو مری میں اتنی زیادہ ہلاکتوں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔