رشادمحمود تاریخ کی راہداریوں میں آخری حصہ
ڈاکٹر جعفر احمد نے رشاد صاحب کی یادداشتوں کو ریکارڈ کرکے اسے ایک کتابی شکل میں یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے
ATHENS/RIYADH:
رشاد صاحب برصغیر کی تقسیم اور اس کے بعد پاکستانی سماج کے ارتقا پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کھل کر کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے انگریزوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور بمبئی میں ہندوستانی نیوی کی بغاوت کی تفصیل بتاتے ہیں اور یہ بھی کہ گورا فوج نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے بمبئی میں عوام کا بے دریغ قتل عام کیا۔
ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان بدترین مناقشت کی آبیاری کی ۔ اسی کے ساتھ وہ ہمیں تفصیل بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے کس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور 1956 کے نوزائیدہ آئین سے بھی چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ ملک پہلے ہی سیٹو اور سینٹو جیسے استعماری معاہدوں میں شریک ہوکر مغربی طاقتوں کا مہرہ بن چکا تھا۔ اس کے بعد ملک پر فوج کا قبضہ مکمل ہوگیا، اس کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد مٹھی بھر سرپھروں کے خون سے تحریر ہوئی۔
مغربی پاکستان میں لسانی کشاکش کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ نفرت اور مغائرت کے وہ بیچ تھے جو پاکستان کے پہلے چند مہینوں میں بوئے گئے تھے اور جن کی لہلہاتی فصل 1970 میں قتل اور خون خرابے کی شکل میں کاٹی گئی۔ وہ دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
جمہوریت کے حصول کی خاطر مغربی اور مشرقی پاکستان کے تمام سیاسی عناصر میدان میں اترتے ہیں اور محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں ایک ایسی جمہوری جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں جس میں ملٹری اور سول اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے جیتی ہوئی فاطمہ جناح ہرادی جاتی ہیں۔ مشرقی پاکستان اور کراچی کے دل سے یہ داغ نہیں جاتا کہ ان کی حقیقی نمایندہ کو کس بے حیائی سے ہرادیا گیا اور عوام کے حقوق سلب کرلیے گئے۔ وہ انقلاب اور رد انقلاب کے نازک معاملات پر گفتگو کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ انگریز اپنے استعماری مفادات کے لیے آزادی کی عوامی جدوجہد کو کس طرح مذہبی بنیادوں پر تقسیم کررہے تھے۔
ہندوستان میں پھیلی ہوئی ریاستیں جو انگریزوں کے مفادات کو مستحکم کرنے میں پیش پیش تھیں۔ پاکستان بن گیا تو بیوروکریسی نے جہاں آئین بننے میں رکاوٹ ڈالی وہیں مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو پیرٹی کی بیڑیاںپہنا کر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا خاتمہ بالخیر کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام جمہوریت اور آئین کی بالادستی میں یقین رکھتے تھے، ان کے اندر غصے کا لاوا پکنے لگا۔ یہ آتش فشاں جب پھٹا تو پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو بہالے گیا، بنگلہ دیش وجود میں آیا اور ایک بار پھر لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور حرمتوں کا بلیدان ہوا۔
یہ مضامین کبھی پرانے شمار نہیں ہوں گے کیونکہ ان میں محض واقعات بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ مخصوص نظریاتی کلیوں کے ذریعے ان کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ جب تک کوئی بھی تجزیہ معروضی اور سائنسی بنیادوں پر کیا جائے گا وہ کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ وقت کے ایک مخصوص تناظر کے حوالے سے اس کی اہمیت اور افادیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔
رشاد صاحب زندگی کی نو دہائیاں شاندار انداز سے گزار چکے ہیں۔ ان کی عمر دراز ہو، وہ تادیر ہمارے درمیان موجود رہیں اور ہمیں توفیق ملے کہ ان کے پاس علم کا جو خزانہ ہے۔ اس میں سے ہم اپنے ظرف کے مطابق جتنا ہوسکے حاصل کرسکیں۔ان سے بات کریں تو یقین نہیں آتا کہ ان کی یادداشت اس عمر میں بھی کس قدر غیر معمولی اور شاندار ہے۔ ہر موقع کی مناسبت سے وہ کوئی ایسا کمال کا شعر سناتے ہیں کہ گفتگو کا معیار اور رنگ دونوں دوبالا ہوجاتے ہیں۔
معروف دانش ور ناظر محمود نے اپنے والد رشاد محمود صاحب کو ان کی سالگرہ پر ایک کھلا خط لکھا تھا جس کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ ناظر نے لکھا ''سب سے اہم با ت جو میں نے آ پ سے سیکھی وہ شا ید یہ ہے کہ زند گی کو ایک کھلی کتا ب کی طرح ہو نا چا ہیے جس میں بناوٹ اور تصنع کا گزر نہ ہو ۔اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ عمر بڑ ھنے کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے ماضی کی زند گی کے با رے میں مبا لغہ آ رائی سے کا م لیتے ہیں مگر میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی زند گی کے ہر پہلو کے بارے میں صا ف گو ئی سے کا م لیتے ہوئے پا یا۔ چاہے وہ آپ کی بمبئی میں گزاری ہوئی، بچپن کی ز ند گی کی جد و جہد ہو یا اسکو ل چھوڑنے کی مجبو ری ۔جوا نی کی حد بند ی ہو یا اس کے بعد کی نسبتاًآ سودگی ۔آپ نے اپنے ماضی کو کبھی بڑھا چڑھا کر بیا ن کر نے کی کو شش نہیں کی ۔یہ وہ سبق ہے جو میں نے آ پ سے سیکھا اور سراہا۔
ہم نے جب سے ہو ش سنبھا لا کبھی آ پ کو سستی یا کا ہلی کا شکا ر نہیں دیکھا ۔ بمبئی میں ایک نسبتاً خوش حال گھرانے میں آ نکھ کھو لنے کے با وجو د آ پ کو حالات کی ستم ظریفی نے بچپن میںعسر ت کے د ن دکھا ئے، اس سے آ پ ما یو س یا نا امید ہو نے کے بجائے ایک با ہمت اور محنتی شخص کے طو ر پر پروا ن چڑھے ۔ آپ کی شخصیت کے یہ دوپہلو ہم نے ہمیشہ بڑ ے واضح طور پر محسو س کیے ہیں ۔ہم نے کبھی بھی آپ کو زیا دہ عرصے کے لیے ما یو س نہیں دیکھا۔گو کہ پچھلے چند سال میں کبھی کبھی دبائو یا تنا ئو کی کیفیت سے آپ دو چا ر ضرور ہو ئے ہیں لیکن کسی انسا ن سے اس کی تو قع نہ کر نا نا انصا فی ہوگی۔ عارضی اتار چڑ ھا ئوکو اگر نظر اندا ز کر دیا جا ئے توآ پ ایک بھر پو ر اور پر اُمید شخص نظر آتے ہیں، جو ذا تی اور سما جی طور پر مسائل کا ادراک رکھنے کے با و جو د نا اُمید نہیں ہو تا اور روشن خیا لی کادامن ہا تھ سے نہیں چھوڑ تا ۔''
ایک خوش آیند بات یہ بھی معلوم ہوئی ہے کہ ڈاکٹر جعفر احمد نے رشاد صاحب کی یادداشتوں کو ریکارڈ کرکے اسے ایک کتابی شکل میں یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اسے اپنے ادارے( انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ) سے شایع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرجعفر احمد میںمشکل کام، کامیابی سے کر گزرنے کی کمال صلاحیت موجود ہے۔ امید ہے کہ سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ اس منصوبے کو بھی عملی شکل دینے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے ہم جیسوں پر یہ ان کا بڑا احسان ہوگا،ہم جو سوچتے زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں۔کتاب کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لیے بدلتی دنیا کے ایوب ملک، ڈاکٹر توصیف احمد اور ڈاکٹر ناظر محمود داد کے مستحق ہیں۔
ناظر محمود نے اپنے خط کے آخرمیں ان سے گزارش کی تھی کہ ''آپ اپنے پون صدی کے تجربات کو ضبط تحریر میں ضرور لائیں تاکہ دنیا کو آپ نے جس طرح بدلتے دیکھا ہے اس کے بہت سے گوشے لوگوں کے سامنے آسکیں۔'' بڑی خوشی کی بات ہے کہ رشاد صاحب نے یہ کتاب لکھ کر اپنے دوستوں اور بیٹے کی خواہش پوری کردی۔
رشاد صاحب برصغیر کی تقسیم اور اس کے بعد پاکستانی سماج کے ارتقا پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کھل کر کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے انگریزوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور بمبئی میں ہندوستانی نیوی کی بغاوت کی تفصیل بتاتے ہیں اور یہ بھی کہ گورا فوج نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے بمبئی میں عوام کا بے دریغ قتل عام کیا۔
ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان بدترین مناقشت کی آبیاری کی ۔ اسی کے ساتھ وہ ہمیں تفصیل بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے کس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور 1956 کے نوزائیدہ آئین سے بھی چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ ملک پہلے ہی سیٹو اور سینٹو جیسے استعماری معاہدوں میں شریک ہوکر مغربی طاقتوں کا مہرہ بن چکا تھا۔ اس کے بعد ملک پر فوج کا قبضہ مکمل ہوگیا، اس کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد مٹھی بھر سرپھروں کے خون سے تحریر ہوئی۔
مغربی پاکستان میں لسانی کشاکش کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ نفرت اور مغائرت کے وہ بیچ تھے جو پاکستان کے پہلے چند مہینوں میں بوئے گئے تھے اور جن کی لہلہاتی فصل 1970 میں قتل اور خون خرابے کی شکل میں کاٹی گئی۔ وہ دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
جمہوریت کے حصول کی خاطر مغربی اور مشرقی پاکستان کے تمام سیاسی عناصر میدان میں اترتے ہیں اور محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں ایک ایسی جمہوری جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں جس میں ملٹری اور سول اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے جیتی ہوئی فاطمہ جناح ہرادی جاتی ہیں۔ مشرقی پاکستان اور کراچی کے دل سے یہ داغ نہیں جاتا کہ ان کی حقیقی نمایندہ کو کس بے حیائی سے ہرادیا گیا اور عوام کے حقوق سلب کرلیے گئے۔ وہ انقلاب اور رد انقلاب کے نازک معاملات پر گفتگو کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ انگریز اپنے استعماری مفادات کے لیے آزادی کی عوامی جدوجہد کو کس طرح مذہبی بنیادوں پر تقسیم کررہے تھے۔
ہندوستان میں پھیلی ہوئی ریاستیں جو انگریزوں کے مفادات کو مستحکم کرنے میں پیش پیش تھیں۔ پاکستان بن گیا تو بیوروکریسی نے جہاں آئین بننے میں رکاوٹ ڈالی وہیں مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو پیرٹی کی بیڑیاںپہنا کر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا خاتمہ بالخیر کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام جمہوریت اور آئین کی بالادستی میں یقین رکھتے تھے، ان کے اندر غصے کا لاوا پکنے لگا۔ یہ آتش فشاں جب پھٹا تو پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو بہالے گیا، بنگلہ دیش وجود میں آیا اور ایک بار پھر لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور حرمتوں کا بلیدان ہوا۔
یہ مضامین کبھی پرانے شمار نہیں ہوں گے کیونکہ ان میں محض واقعات بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ مخصوص نظریاتی کلیوں کے ذریعے ان کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ جب تک کوئی بھی تجزیہ معروضی اور سائنسی بنیادوں پر کیا جائے گا وہ کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ وقت کے ایک مخصوص تناظر کے حوالے سے اس کی اہمیت اور افادیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔
رشاد صاحب زندگی کی نو دہائیاں شاندار انداز سے گزار چکے ہیں۔ ان کی عمر دراز ہو، وہ تادیر ہمارے درمیان موجود رہیں اور ہمیں توفیق ملے کہ ان کے پاس علم کا جو خزانہ ہے۔ اس میں سے ہم اپنے ظرف کے مطابق جتنا ہوسکے حاصل کرسکیں۔ان سے بات کریں تو یقین نہیں آتا کہ ان کی یادداشت اس عمر میں بھی کس قدر غیر معمولی اور شاندار ہے۔ ہر موقع کی مناسبت سے وہ کوئی ایسا کمال کا شعر سناتے ہیں کہ گفتگو کا معیار اور رنگ دونوں دوبالا ہوجاتے ہیں۔
معروف دانش ور ناظر محمود نے اپنے والد رشاد محمود صاحب کو ان کی سالگرہ پر ایک کھلا خط لکھا تھا جس کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ ناظر نے لکھا ''سب سے اہم با ت جو میں نے آ پ سے سیکھی وہ شا ید یہ ہے کہ زند گی کو ایک کھلی کتا ب کی طرح ہو نا چا ہیے جس میں بناوٹ اور تصنع کا گزر نہ ہو ۔اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ عمر بڑ ھنے کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے ماضی کی زند گی کے با رے میں مبا لغہ آ رائی سے کا م لیتے ہیں مگر میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی زند گی کے ہر پہلو کے بارے میں صا ف گو ئی سے کا م لیتے ہوئے پا یا۔ چاہے وہ آپ کی بمبئی میں گزاری ہوئی، بچپن کی ز ند گی کی جد و جہد ہو یا اسکو ل چھوڑنے کی مجبو ری ۔جوا نی کی حد بند ی ہو یا اس کے بعد کی نسبتاًآ سودگی ۔آپ نے اپنے ماضی کو کبھی بڑھا چڑھا کر بیا ن کر نے کی کو شش نہیں کی ۔یہ وہ سبق ہے جو میں نے آ پ سے سیکھا اور سراہا۔
ہم نے جب سے ہو ش سنبھا لا کبھی آ پ کو سستی یا کا ہلی کا شکا ر نہیں دیکھا ۔ بمبئی میں ایک نسبتاً خوش حال گھرانے میں آ نکھ کھو لنے کے با وجو د آ پ کو حالات کی ستم ظریفی نے بچپن میںعسر ت کے د ن دکھا ئے، اس سے آ پ ما یو س یا نا امید ہو نے کے بجائے ایک با ہمت اور محنتی شخص کے طو ر پر پروا ن چڑھے ۔ آپ کی شخصیت کے یہ دوپہلو ہم نے ہمیشہ بڑ ے واضح طور پر محسو س کیے ہیں ۔ہم نے کبھی بھی آپ کو زیا دہ عرصے کے لیے ما یو س نہیں دیکھا۔گو کہ پچھلے چند سال میں کبھی کبھی دبائو یا تنا ئو کی کیفیت سے آپ دو چا ر ضرور ہو ئے ہیں لیکن کسی انسا ن سے اس کی تو قع نہ کر نا نا انصا فی ہوگی۔ عارضی اتار چڑ ھا ئوکو اگر نظر اندا ز کر دیا جا ئے توآ پ ایک بھر پو ر اور پر اُمید شخص نظر آتے ہیں، جو ذا تی اور سما جی طور پر مسائل کا ادراک رکھنے کے با و جو د نا اُمید نہیں ہو تا اور روشن خیا لی کادامن ہا تھ سے نہیں چھوڑ تا ۔''
ایک خوش آیند بات یہ بھی معلوم ہوئی ہے کہ ڈاکٹر جعفر احمد نے رشاد صاحب کی یادداشتوں کو ریکارڈ کرکے اسے ایک کتابی شکل میں یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اسے اپنے ادارے( انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ) سے شایع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرجعفر احمد میںمشکل کام، کامیابی سے کر گزرنے کی کمال صلاحیت موجود ہے۔ امید ہے کہ سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ اس منصوبے کو بھی عملی شکل دینے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے ہم جیسوں پر یہ ان کا بڑا احسان ہوگا،ہم جو سوچتے زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں۔کتاب کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لیے بدلتی دنیا کے ایوب ملک، ڈاکٹر توصیف احمد اور ڈاکٹر ناظر محمود داد کے مستحق ہیں۔
ناظر محمود نے اپنے خط کے آخرمیں ان سے گزارش کی تھی کہ ''آپ اپنے پون صدی کے تجربات کو ضبط تحریر میں ضرور لائیں تاکہ دنیا کو آپ نے جس طرح بدلتے دیکھا ہے اس کے بہت سے گوشے لوگوں کے سامنے آسکیں۔'' بڑی خوشی کی بات ہے کہ رشاد صاحب نے یہ کتاب لکھ کر اپنے دوستوں اور بیٹے کی خواہش پوری کردی۔