گورنر راج خواہش پر نہیں لگتا آئینی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں وزیراعلیٰ سندھ
پی ٹی آئی حکومت نے 3سال مخالفین پر الزام تراشی میں صرف کیے،ملک میں سماجی،سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہونے کے برابر
KARACHI/LAHORE:
وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہا کہ گورنر راج کسی کی خواہش پر نہیں لگتا اس کے لیے بہت زیادہ آئینی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر ڈیزرٹ جیپ ریلی کے تیسرے دن پروفیشنلز کے درمیان ریس کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے بات چیت اور ڈی سی آفس میں مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے دن سے ہی یہ گورنرراج کے متعلق باتیں کر رہے ہیں، اس کے علاوہ بھی یہ بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ان کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنر راج کسی کی خواہش پر نہیں لگتا بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ آئینی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں، میں کسی صوبے سے موازنہ نہیں کرونگا لیکن اسلام آباد سے پچیس تیس کلومیٹرفاصلے پر کچھ ہو جاتا ہے لیکن وفاقی حکومت کچھ نہیں کرپاتی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پچھلے سال وفاق نے کہا کہ گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے، اس کے بعدان کے وفاقی وزیرقومی اسمبلی کے فلور پرکہتے ہیں کہ چھیاسٹھ لاکھ ٹن گندم پتہ نہیں کہاں چلی گئی، ریکارڈ پر ہے کہ نومبر میں وفاقی وزیر نے کہا کہ فرٹیلائزر میں ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور یوریا میں ہم خودکفیل ہیں اورہم یوریا نہیں ڈی اے پی امپورٹ کرتے ہیں، گزرنے والے سال بتایاگیا کہ یوریا کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لیکن ماہ دسمبر کے درمیان میں پتہ چلتا ہے کہ یوریا تو پتہ نہیں کہاں چلی گئی.
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ اسمگل کردیتے ہیں اور ہرچیز کاالزام سندھ پر ڈال دیتے ہیں،ابھی ان لوگوں نے بجلی کی قیمت میں چار روپے تیس پیسے فیول ایڈجسٹمنٹ کے چارج کیے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ انھوں نے وقت پر ایل این جی امپورٹ نہیں کی توانہیں کروڈ آئل لینا پڑا جوکہ زیادہ مہنگا ہوتاہے، وفاقی وزیرخزانہ کی باتیں اپنی موجودہ قیادت کے خلاف خود چارج شیٹ ہے کہ سال دوہزارنواور دس میں مجھے بڑی آسانی ہوئی تھی لیکن سال دوہزاراکیس اور بائیس میں میرے لیے آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا دررسربنا ہوا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے تھر کے حوالے سے سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی میں چون فیصد سرمایہ کاری کی ہے اورہم نے اسے کابینہ سے منظور کرایاہے کہ اسکا جو منافع ہے وہ تھر فاونڈیشن کو دیا جائے گامیں نے ہیلی کاپٹر سے دیکھا ہے سارے تھر کے گاوں پکے ہوئے ہیں اوریہاں کی اکنامی بڑھی ہے، اگرہم کہتے ہیں کہ تھر بدلے کا پاکستان تواس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
بعدازاں وزیر اعلی سندھ، مٹھی میں ایم این اے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کے گھر گیے اور ان کے بھائی کے انتقال پر ان سے تعزیت کا اظہار کیا جس کے بعد وہ ڈپٹی کمشنر آفس پہنچ گیے جہاں انھوں نے تھر ترقیاتی پورٹ پولیو کے اجلاس کی صدارت کی اور مختلف ڈپارٹمنس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس کا جائزہ لیا۔
وزیر اعلیٰ نے محکمہ توانائی اور لوکل گورنمنٹ کو ہدایت کی کہ تھرپارکر میں تمام غیر فعال آر او پلانٹس کو تمام بقایا مسائل کو حل کرکے فعال کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے تھر کے ترقیاتی پورٹ فولیو کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے 5653.298 ملین روپے کی 111 اسکیمیں شروع کی ہیں جس کے لیے 59 فیصد فنڈز جاری کیے گئے ہیں جن میں سے 2280.807 ملین روپے یا 69 فیصد فنڈز استعمال ہو چکے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر آفس ہی میں کاشتکاروں اور تاجروں کے وفود نے بھی وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی جس کے دوران انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ مراد شاہ نے کہا کہ تھر میں نامیاتی سبزیاں، پھل اگانے کی بڑی صلاحیت ہے اور نامیاتی گائے، اونٹ اور بکری کا دودھ جس کی ایک وسیع اور بھرپور بین الاقوامی مارکیٹ ہے۔
مراد علی شاہ نے مشیر زراعت منظور وسان کی سربراہی میں ٹنڈو جام زرعی یونیورسٹی کے ماہرین اور مقامی ماہرین زراعت پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو تھر میں زرعی شعبے کو فروغ دینے کے طریقوں اور ذرائع کا مطالعہ کرے گی۔
وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہا کہ گورنر راج کسی کی خواہش پر نہیں لگتا اس کے لیے بہت زیادہ آئینی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر ڈیزرٹ جیپ ریلی کے تیسرے دن پروفیشنلز کے درمیان ریس کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے بات چیت اور ڈی سی آفس میں مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے دن سے ہی یہ گورنرراج کے متعلق باتیں کر رہے ہیں، اس کے علاوہ بھی یہ بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ان کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنر راج کسی کی خواہش پر نہیں لگتا بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ آئینی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں، میں کسی صوبے سے موازنہ نہیں کرونگا لیکن اسلام آباد سے پچیس تیس کلومیٹرفاصلے پر کچھ ہو جاتا ہے لیکن وفاقی حکومت کچھ نہیں کرپاتی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پچھلے سال وفاق نے کہا کہ گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے، اس کے بعدان کے وفاقی وزیرقومی اسمبلی کے فلور پرکہتے ہیں کہ چھیاسٹھ لاکھ ٹن گندم پتہ نہیں کہاں چلی گئی، ریکارڈ پر ہے کہ نومبر میں وفاقی وزیر نے کہا کہ فرٹیلائزر میں ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور یوریا میں ہم خودکفیل ہیں اورہم یوریا نہیں ڈی اے پی امپورٹ کرتے ہیں، گزرنے والے سال بتایاگیا کہ یوریا کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لیکن ماہ دسمبر کے درمیان میں پتہ چلتا ہے کہ یوریا تو پتہ نہیں کہاں چلی گئی.
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ اسمگل کردیتے ہیں اور ہرچیز کاالزام سندھ پر ڈال دیتے ہیں،ابھی ان لوگوں نے بجلی کی قیمت میں چار روپے تیس پیسے فیول ایڈجسٹمنٹ کے چارج کیے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ انھوں نے وقت پر ایل این جی امپورٹ نہیں کی توانہیں کروڈ آئل لینا پڑا جوکہ زیادہ مہنگا ہوتاہے، وفاقی وزیرخزانہ کی باتیں اپنی موجودہ قیادت کے خلاف خود چارج شیٹ ہے کہ سال دوہزارنواور دس میں مجھے بڑی آسانی ہوئی تھی لیکن سال دوہزاراکیس اور بائیس میں میرے لیے آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا دررسربنا ہوا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے تھر کے حوالے سے سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی میں چون فیصد سرمایہ کاری کی ہے اورہم نے اسے کابینہ سے منظور کرایاہے کہ اسکا جو منافع ہے وہ تھر فاونڈیشن کو دیا جائے گامیں نے ہیلی کاپٹر سے دیکھا ہے سارے تھر کے گاوں پکے ہوئے ہیں اوریہاں کی اکنامی بڑھی ہے، اگرہم کہتے ہیں کہ تھر بدلے کا پاکستان تواس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
بعدازاں وزیر اعلی سندھ، مٹھی میں ایم این اے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کے گھر گیے اور ان کے بھائی کے انتقال پر ان سے تعزیت کا اظہار کیا جس کے بعد وہ ڈپٹی کمشنر آفس پہنچ گیے جہاں انھوں نے تھر ترقیاتی پورٹ پولیو کے اجلاس کی صدارت کی اور مختلف ڈپارٹمنس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس کا جائزہ لیا۔
وزیر اعلیٰ نے محکمہ توانائی اور لوکل گورنمنٹ کو ہدایت کی کہ تھرپارکر میں تمام غیر فعال آر او پلانٹس کو تمام بقایا مسائل کو حل کرکے فعال کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے تھر کے ترقیاتی پورٹ فولیو کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے 5653.298 ملین روپے کی 111 اسکیمیں شروع کی ہیں جس کے لیے 59 فیصد فنڈز جاری کیے گئے ہیں جن میں سے 2280.807 ملین روپے یا 69 فیصد فنڈز استعمال ہو چکے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر آفس ہی میں کاشتکاروں اور تاجروں کے وفود نے بھی وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی جس کے دوران انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ مراد شاہ نے کہا کہ تھر میں نامیاتی سبزیاں، پھل اگانے کی بڑی صلاحیت ہے اور نامیاتی گائے، اونٹ اور بکری کا دودھ جس کی ایک وسیع اور بھرپور بین الاقوامی مارکیٹ ہے۔
مراد علی شاہ نے مشیر زراعت منظور وسان کی سربراہی میں ٹنڈو جام زرعی یونیورسٹی کے ماہرین اور مقامی ماہرین زراعت پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو تھر میں زرعی شعبے کو فروغ دینے کے طریقوں اور ذرائع کا مطالعہ کرے گی۔