شناختی کارڈ اور ووٹ سے محروم خواتین کی رجسٹریشن کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے
1کروڑ20لاکھ خواتین تاحال شناختی کارڈنہ ہونے سے اپنے بنیادی حقوق سمیت دیگرحکومتی اقدامات کے فوائدحاصل کرنے سے محروم ہیں
شناختی کارڈ کسی بھی شہری کیلئے نہ صرف اس کی شناخت کی تصدیق ہوتا ہے بلکہ آئین پاکستان میں دیئے گئے حقوق اور مختلف سرکاری اور نجی منصوبوں، سکیموں سے فائدہ حاصل کرنے کا سبب بھی ہوتا ہے۔
سب سے اہم یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں رجسٹرڈ شہری کو ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے کسی بہترین شخص کو اپنا نمائندہ چن سکتا ہے۔ پاکستان میں آبادی اور شناختی کارڈ ہولڈرز کی تعداد میں بہت بڑا گیپ ہے۔
خواتین کی بات کی جائے تو ملک میں تقریباََ ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین ابھی تک شناختی کارڈ سے محروم ہیں جس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت بلدیاتی انتخابات کا دور چل رہا ہے، کہیں مرحلہ وار انتخابات ہورہے ہیں، کہیں قانون سازی ہورہی ہے اور کہیں اس کی تیاری کی جا رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے اور اس میں نچلی سطح تک شہریوں کی شمولیت ہوتی ہے لہٰذا شہریوں کی ایک بڑی تعداد خصوصاََ خواتین کا انتخابی عمل سے باہر ہونا تشویشناک ہے۔
اس معاملے کو دیکھتے ہوئے ''خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ (چیئر پرسن قائمہ کمیٹی برائے داخلہ ،پنجاب اسمبلی )
2018ء میں 4 کروڑ 65 لاکھ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز تھی مگر صرف 2 کروڑ 16 لاکھ خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا، اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ووٹ نہ ڈالنا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کو ووٹنگ کے حوالے سے کتنے سنگین مسائل کا سامنا ہے، گراس روٹ لیول پر بھی انہیں مسائل درپیش ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے میکنزم بنانا ہوگا۔
خواتین کو شناختی کارڈ کا اجراء اور ووٹر رجسٹریشن انہتائی اہم ہے، اس کیلئے نادرا اور الیکشن کمیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اس کے بغیر فائدہ نہیں ہوسکتا، اس طرح وسائل بھی بچیں گے اور کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا۔ دنیا تو اب شناختی کارڈ کے بعد پاسپورٹ و دیگر دستاویز تک چلی گئی ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک شناختی کارڈز ہی نہیں بن سکے اور نہ ہی ووٹ رجسٹریشن ہوئی ہے۔
جن کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں انہیں بھی انتخابی فہرستوں میں خرابیوں کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض جگہ ووٹ کسی اور حلقے، علاقے یا پولنگ سٹیشن میں منتقل ہوجاتا ہے، ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ووٹرز کی رہنمائی کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنی 'ایپ' اپ گریڈ کرنی چاہیے، 8300 پر 'ایس ایم ایس' کرنے پر ووٹ کی معلومات کے ساتھ 'این اے 'اور 'پی پی' کے حلقہ نمبر بھی دینے چاہیے،اس سے ووٹرز کو آسانی ہوگی اور ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
حکومت، الیکشن کمیشن کو ووٹر رجسٹریشن کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور اپ گریڈیشن کیلئے فنڈز دینے کیلئے تیار ہے۔ ملک کی 1 کروڑ 20 لاکھ خواتین شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بنیادی انسانی حقوق، ہیلتھ کارڈ، قرضہ سکیم اور احساس پروگرام سمیت متعددحکومتی اقدامات کے فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
سنگین مسائل کو سمجھتے ہوئے خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن کیلئے بڑے پیمانے پر مہم چلانے جا رہے ہیں، یونین کونسل کی سطح پر لوگوں کو موبلائز کیا جائے گا، مساجد میں اعلانات کے ذریعے آگاہی پیغامات دیے جائیں گے، جن علاقوں میں زیادہ ضرورت ہوگی وہاں موبائل رجسٹریشن وین بھی بھجی جائے گی ۔ اس حوالے سے علاقے کے سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے گا۔
ضلعی سطح پر نادرا کے کم از کم ایک سینٹر کو 24/7 کھلا رکھنے کی تجویز بہترین ہے ، یہ وفاقی سطح کا کام ہے لہٰذا اس حوالے سے وزیراعظم کو سفارش دوں گی، جلداس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ شناختی کارڈ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی مہم کو ہیلتھ کارڈ سے منسلک کرنے جا رہے ہیں، ہمارے ہر اشتہار میں ہیلتھ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ کی اہمیت کو بھی شامل کیا جائے گا، اس سے لوگوں کو آگاہی ملے گی اور رجسٹریشن بھی زیادہ ہوگی۔
اس کے علاوہ کرونا کی طرح شناختی کارڈ کے حوالے سے ہر فون کال پر آگاہی پیغام چلانے کی تجویز پر بھی غور جاری ہے۔ حکومت ہر معاملے میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے، یہی وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے اور سب اس پر تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
ہدیٰ علی گوہر (سینئر پبلک ریلیشنز آفیسر الیکشن کمیشن پنجاب )
انتخابی عمل میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے الیکشن کمیشن متحرک ہے اور اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے اس حوالے سے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیںاور ہمیں اس کا ادراک ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو انتخابی عمل میں لانا اور جینڈر گیپ ختم کرنا ملکی تعمیر و ترقی میں کتنا اہم ہے۔
ہمارے ادارے میں جینڈر افیئرز ونگ ، ریسرچ ونگ موجودہے جو سول سوسائٹی کی سفارشات لے کر پالیسی سازوں کو دیتا ہے اورپھر اسے عملی شکل دی جاتی ہے۔اس طرح سے خواتین کیلئے بہتر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہے جن کا عملی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور ہم نے ان سے اچھے نتائج بھی حاصل کیے ہیں۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں37.62 ملین مرد اور 31.42 ملین خواتین رجسٹرڈ ووٹرزہیں، اس تعداد میں بہت بڑاگیپ ہے جسے دور کرنے کیلئے کام جاری ہے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن ، نادرا شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن مہم 2017ء سے جاری ہے، اس کے 3 فیز مکمل ہوچکے ہیں ،کرونا کی وجہ سے تقریباََ ڈیڑھ برس کا گیپ آیا، گزشتہ برس سے اس کا چوتھا مرحلہ چل رہا ہے اور 15 اضلاع میں کام ہو رہا ہے، اس مہم سے جینڈر گیپ کے خاتمے میں بڑی مدد مل رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے اداروں نے اس مہم میں بہت ساتھ دیا اور موثر کام کیاہے۔
رجسٹریشن کیلئے کسی شہری کو گھر سے لے کر نادرا رجسٹریشن سینٹر تک لانا مشکل کام ہے، اس میں سول سوسائٹی نے بہترین کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ موبائل رجسٹریشن وینز بھی مختلف علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں ، لوگوں کو موبلائز کرنے میں سول سوسائٹی کا کردار قابل تعریف ہے۔ اس مہم کے ابتدائی تین مراحل میں 10 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کیے گئے جو بہت بڑی اور قابل تعریف تعداد ہے۔ اس مہم کو کسی بھی طور روکا نہیں جائے گا، اس سے فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
رجسٹریشن مہم کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف آگاہی مہم، تربیتی سیشن، ورکشاپ، ریلیاں، واک وغیرہ منعقد کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے۔ ہمارے ضلعی سینٹرز میں کمیٹیاں موجود ہیں جہاں سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہے اور ان کے ساتھ ملکر مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن خصوصی افراد، خواجہ سرا، اقلیتوں و دیگر مارجنلائزڈ گروپس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کام کر رہا ہے۔
آبادی اور رجسٹرڈ ووٹرز میں کافی زیادہ فرق ہے، اس حوالے سے 5 سالہ سٹرٹیجک پلان ہے، جس پر کام جاری ہے۔ انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ ایکٹ میں تبدیلی کے بعد اب صرف شناختی کارڈ والے ایڈریس پر ہی ووٹ رجسٹرڈ ہوگا، اس حوالے سے شہریوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ شہری 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بذریعہ ایس ایم ایس بھیج کر ووٹ کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ووٹ کی تصدیق کریں اور تبدیلی کی صورت میں اپنے قریبی سینٹر سے رجوع کریں۔
اس کے علاوہ ہماری ٹیموں نے گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کی ہے، رواں ماہ ووٹرز کی ڈیٹا انٹری کا کام مکمل ہوجائے گا۔ فروری میں ووٹرز کی فہرستیں سکولوں میں ڈسپلے سینٹرز قائم کرکے آویزاں کر دی جائیں گی، شہری اپنا ووٹ چیک کر سکتے ہیں۔ مئی تک حتمی ووٹر لسٹیں تیار ہوجائیں گی، جن میں کم سے کم غلطی کا امکان ہوگا، اس میں جینڈر گیپ میں بھی خاطر خواہ کمی نظر آئے گی۔
اگر نئی ووٹر لسٹیں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مکمل ہوگئی تو انتخابات ان کے مطابق ہونگے ، اگر نہ ہوئی تو اکتوبر 2021ء والی فہرستوں پر ہی ووٹنگ ہونگی۔ امید ہے کہ بلدیاتی انتخابات نئی فہرستوں کے مطابق ہوں گے۔
شاہد اقبال (نمائندہ سول سوسائٹی )
ملک میں 1 کروڑ 20 لاکھ جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے یہ سیاسی عمل سے دور ہیں، انہیں ووٹ کاحق حاصل نہیں ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ محض شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ حکومت کی مختلف سکیموں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ہیلتھ کارڈ سکیم کا تعلق بھی شناختی کارڈ سے ہے۔ اسی طرح انہیں انتقال جائیداد ، بنک اکاؤنٹ، قرض و دیگر امور کیلئے بھی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے اہم تو یہ ہے کہ ان کی شناخت ہی نہیں کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ یہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ بھی ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی گزشتہ برس شائع ہونے والی جینڈر پیریٹی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں صرف 43 خواجہ سرا کے شناختی کارڈ بنے۔ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، خواجہ سرا بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں لہٰذا انہیں سسٹم میں لانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں 26 ہزار 821 خصوصی افراد کے شناختی کارڈ بنائے گئے، جن میں سے 76 فیصد مرد تھے۔ معذوری کی حامل خواتین کی تعداد بہت کم ہے، یہ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں، ان پر کسی بھی سکیم کا اطلاق نہیں ہوتا لہٰذا ان خواتین کے شناختی کارڈ بنا کر اس گیپ کو ختم کرنا ہوگا۔
2017ء میں الیکشن کمیشن کی جانب خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن مہم کا آغاز ہوا تھا جو بہت اچھی ، متحرک اور سود مند ثابت ہوئی۔ اس مہم کے تین مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ ان مراحل میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن میں کافی بہتری آئی ہے۔ کرونا کی وجہ سے اس مہم میں رکاوٹ پیدا ہوئی تاہم اب بھی بعض اضلاع میں یہ کام جاری ہے۔ سول سوسائٹی نے اس مہم میں بڑا اہم ، متحرک اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔
اگر صرف سول سوسائٹی کی کاوش کی بات کی جائے تو اس کی محنتوں سے 8 لاکھ سے زائد خواتین کے شناختی کارڈ بنے اور ابھی بھی اس پر کام جاری ہے۔ ہم نے ننکانہ صاحب جیسے چھوٹے ضلعے میں 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو شناختی کارڈ اور اس کے فوائد کا علم ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ اس کیلئے پرنٹ ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر تشہیر کی جائے۔
لوگوں کو آگاہی دینے میں نادرا، سول سوسائٹی، سیاسی قیادت سمیت معاشرے کے دیگرطبقات کو مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے شناختی کارڈ کی مہم یہ محسوس کیا کہ بعض علاقوں میں عملے کی تربیت یا رویے کا مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے متعلقہ اداروں کے ورکرز کو صنفی حساسیت کی تربیت دینی چاہیے، اس سے لازمی طور پر بہتری آئے گی۔
بلدیاتی انتخابات قریب ہیں لہٰذا صنفی امتیاز کی کمی کیلئے خواتین کے شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میری سفارشات ہیں کہ جس طرح ماضی میں ہنگامی اقدامات کیے گئے تھے، اسی طرز پر نادرا دفاتر کو ہفتہ کے روز بھی کھلا رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعہ اور ہفتہ، دو دن صرف خواتین کے لیے مختص کیے جائیں،ان دنوں میں انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔
اس کے علاوہ ہر ضلع میں کم از کم ایک نادرا سینٹر 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن کھولا جائے، اس سے کافی بہتری آئے گی۔ موبائل رجسٹریشن وین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ہراس خاتون تک پہنچا جائے جس کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ شناختی کارڈ کے حوالے سے ایک اور معاملہ یہ ہے کہ خواتین شادی کے بعد کسی اور علاقے ، ضلع یا صوبے میں چلی جاتی ہیں، ان کی بائیومیٹرک کو آن لائن کیا جائے۔
خاتون اپنے قریبی سینٹر سے یا نادرا ایپ کے ذریعے آن لائن بائیومیٹرک کرائے اور پھر اس کے متعلقہ سینٹر سے اس کی آن لائن ہی تصدیق کر لی جائے، اس سے کافی آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات قریب ہیں، عام انتخابات کی طرح سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ جنرل نشستوں پر5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ پولنگ بوتھ ویمن اور ڈس ایبل فرینڈلی بنائے تاکہ کسی کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ سول سوسائٹی خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن میں حکومت کے ساتھ ہے، ہم جینڈر گیپ کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے کام کر رہے ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں رجسٹرڈ شہری کو ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے کسی بہترین شخص کو اپنا نمائندہ چن سکتا ہے۔ پاکستان میں آبادی اور شناختی کارڈ ہولڈرز کی تعداد میں بہت بڑا گیپ ہے۔
خواتین کی بات کی جائے تو ملک میں تقریباََ ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین ابھی تک شناختی کارڈ سے محروم ہیں جس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت بلدیاتی انتخابات کا دور چل رہا ہے، کہیں مرحلہ وار انتخابات ہورہے ہیں، کہیں قانون سازی ہورہی ہے اور کہیں اس کی تیاری کی جا رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے اور اس میں نچلی سطح تک شہریوں کی شمولیت ہوتی ہے لہٰذا شہریوں کی ایک بڑی تعداد خصوصاََ خواتین کا انتخابی عمل سے باہر ہونا تشویشناک ہے۔
اس معاملے کو دیکھتے ہوئے ''خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ (چیئر پرسن قائمہ کمیٹی برائے داخلہ ،پنجاب اسمبلی )
2018ء میں 4 کروڑ 65 لاکھ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز تھی مگر صرف 2 کروڑ 16 لاکھ خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا، اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ووٹ نہ ڈالنا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کو ووٹنگ کے حوالے سے کتنے سنگین مسائل کا سامنا ہے، گراس روٹ لیول پر بھی انہیں مسائل درپیش ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے میکنزم بنانا ہوگا۔
خواتین کو شناختی کارڈ کا اجراء اور ووٹر رجسٹریشن انہتائی اہم ہے، اس کیلئے نادرا اور الیکشن کمیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اس کے بغیر فائدہ نہیں ہوسکتا، اس طرح وسائل بھی بچیں گے اور کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا۔ دنیا تو اب شناختی کارڈ کے بعد پاسپورٹ و دیگر دستاویز تک چلی گئی ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک شناختی کارڈز ہی نہیں بن سکے اور نہ ہی ووٹ رجسٹریشن ہوئی ہے۔
جن کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں انہیں بھی انتخابی فہرستوں میں خرابیوں کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض جگہ ووٹ کسی اور حلقے، علاقے یا پولنگ سٹیشن میں منتقل ہوجاتا ہے، ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ووٹرز کی رہنمائی کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنی 'ایپ' اپ گریڈ کرنی چاہیے، 8300 پر 'ایس ایم ایس' کرنے پر ووٹ کی معلومات کے ساتھ 'این اے 'اور 'پی پی' کے حلقہ نمبر بھی دینے چاہیے،اس سے ووٹرز کو آسانی ہوگی اور ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
حکومت، الیکشن کمیشن کو ووٹر رجسٹریشن کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور اپ گریڈیشن کیلئے فنڈز دینے کیلئے تیار ہے۔ ملک کی 1 کروڑ 20 لاکھ خواتین شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بنیادی انسانی حقوق، ہیلتھ کارڈ، قرضہ سکیم اور احساس پروگرام سمیت متعددحکومتی اقدامات کے فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
سنگین مسائل کو سمجھتے ہوئے خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن کیلئے بڑے پیمانے پر مہم چلانے جا رہے ہیں، یونین کونسل کی سطح پر لوگوں کو موبلائز کیا جائے گا، مساجد میں اعلانات کے ذریعے آگاہی پیغامات دیے جائیں گے، جن علاقوں میں زیادہ ضرورت ہوگی وہاں موبائل رجسٹریشن وین بھی بھجی جائے گی ۔ اس حوالے سے علاقے کے سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے گا۔
ضلعی سطح پر نادرا کے کم از کم ایک سینٹر کو 24/7 کھلا رکھنے کی تجویز بہترین ہے ، یہ وفاقی سطح کا کام ہے لہٰذا اس حوالے سے وزیراعظم کو سفارش دوں گی، جلداس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ شناختی کارڈ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی مہم کو ہیلتھ کارڈ سے منسلک کرنے جا رہے ہیں، ہمارے ہر اشتہار میں ہیلتھ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ کی اہمیت کو بھی شامل کیا جائے گا، اس سے لوگوں کو آگاہی ملے گی اور رجسٹریشن بھی زیادہ ہوگی۔
اس کے علاوہ کرونا کی طرح شناختی کارڈ کے حوالے سے ہر فون کال پر آگاہی پیغام چلانے کی تجویز پر بھی غور جاری ہے۔ حکومت ہر معاملے میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے، یہی وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے اور سب اس پر تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
ہدیٰ علی گوہر (سینئر پبلک ریلیشنز آفیسر الیکشن کمیشن پنجاب )
انتخابی عمل میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے الیکشن کمیشن متحرک ہے اور اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے اس حوالے سے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیںاور ہمیں اس کا ادراک ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو انتخابی عمل میں لانا اور جینڈر گیپ ختم کرنا ملکی تعمیر و ترقی میں کتنا اہم ہے۔
ہمارے ادارے میں جینڈر افیئرز ونگ ، ریسرچ ونگ موجودہے جو سول سوسائٹی کی سفارشات لے کر پالیسی سازوں کو دیتا ہے اورپھر اسے عملی شکل دی جاتی ہے۔اس طرح سے خواتین کیلئے بہتر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہے جن کا عملی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور ہم نے ان سے اچھے نتائج بھی حاصل کیے ہیں۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں37.62 ملین مرد اور 31.42 ملین خواتین رجسٹرڈ ووٹرزہیں، اس تعداد میں بہت بڑاگیپ ہے جسے دور کرنے کیلئے کام جاری ہے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن ، نادرا شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن مہم 2017ء سے جاری ہے، اس کے 3 فیز مکمل ہوچکے ہیں ،کرونا کی وجہ سے تقریباََ ڈیڑھ برس کا گیپ آیا، گزشتہ برس سے اس کا چوتھا مرحلہ چل رہا ہے اور 15 اضلاع میں کام ہو رہا ہے، اس مہم سے جینڈر گیپ کے خاتمے میں بڑی مدد مل رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے اداروں نے اس مہم میں بہت ساتھ دیا اور موثر کام کیاہے۔
رجسٹریشن کیلئے کسی شہری کو گھر سے لے کر نادرا رجسٹریشن سینٹر تک لانا مشکل کام ہے، اس میں سول سوسائٹی نے بہترین کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ موبائل رجسٹریشن وینز بھی مختلف علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں ، لوگوں کو موبلائز کرنے میں سول سوسائٹی کا کردار قابل تعریف ہے۔ اس مہم کے ابتدائی تین مراحل میں 10 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کیے گئے جو بہت بڑی اور قابل تعریف تعداد ہے۔ اس مہم کو کسی بھی طور روکا نہیں جائے گا، اس سے فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
رجسٹریشن مہم کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف آگاہی مہم، تربیتی سیشن، ورکشاپ، ریلیاں، واک وغیرہ منعقد کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے۔ ہمارے ضلعی سینٹرز میں کمیٹیاں موجود ہیں جہاں سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہے اور ان کے ساتھ ملکر مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن خصوصی افراد، خواجہ سرا، اقلیتوں و دیگر مارجنلائزڈ گروپس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کام کر رہا ہے۔
آبادی اور رجسٹرڈ ووٹرز میں کافی زیادہ فرق ہے، اس حوالے سے 5 سالہ سٹرٹیجک پلان ہے، جس پر کام جاری ہے۔ انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ ایکٹ میں تبدیلی کے بعد اب صرف شناختی کارڈ والے ایڈریس پر ہی ووٹ رجسٹرڈ ہوگا، اس حوالے سے شہریوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ شہری 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بذریعہ ایس ایم ایس بھیج کر ووٹ کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ووٹ کی تصدیق کریں اور تبدیلی کی صورت میں اپنے قریبی سینٹر سے رجوع کریں۔
اس کے علاوہ ہماری ٹیموں نے گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کی ہے، رواں ماہ ووٹرز کی ڈیٹا انٹری کا کام مکمل ہوجائے گا۔ فروری میں ووٹرز کی فہرستیں سکولوں میں ڈسپلے سینٹرز قائم کرکے آویزاں کر دی جائیں گی، شہری اپنا ووٹ چیک کر سکتے ہیں۔ مئی تک حتمی ووٹر لسٹیں تیار ہوجائیں گی، جن میں کم سے کم غلطی کا امکان ہوگا، اس میں جینڈر گیپ میں بھی خاطر خواہ کمی نظر آئے گی۔
اگر نئی ووٹر لسٹیں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مکمل ہوگئی تو انتخابات ان کے مطابق ہونگے ، اگر نہ ہوئی تو اکتوبر 2021ء والی فہرستوں پر ہی ووٹنگ ہونگی۔ امید ہے کہ بلدیاتی انتخابات نئی فہرستوں کے مطابق ہوں گے۔
شاہد اقبال (نمائندہ سول سوسائٹی )
ملک میں 1 کروڑ 20 لاکھ جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے یہ سیاسی عمل سے دور ہیں، انہیں ووٹ کاحق حاصل نہیں ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ محض شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ حکومت کی مختلف سکیموں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ہیلتھ کارڈ سکیم کا تعلق بھی شناختی کارڈ سے ہے۔ اسی طرح انہیں انتقال جائیداد ، بنک اکاؤنٹ، قرض و دیگر امور کیلئے بھی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے اہم تو یہ ہے کہ ان کی شناخت ہی نہیں کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ یہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ بھی ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی گزشتہ برس شائع ہونے والی جینڈر پیریٹی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں صرف 43 خواجہ سرا کے شناختی کارڈ بنے۔ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، خواجہ سرا بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں لہٰذا انہیں سسٹم میں لانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں 26 ہزار 821 خصوصی افراد کے شناختی کارڈ بنائے گئے، جن میں سے 76 فیصد مرد تھے۔ معذوری کی حامل خواتین کی تعداد بہت کم ہے، یہ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں، ان پر کسی بھی سکیم کا اطلاق نہیں ہوتا لہٰذا ان خواتین کے شناختی کارڈ بنا کر اس گیپ کو ختم کرنا ہوگا۔
2017ء میں الیکشن کمیشن کی جانب خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن مہم کا آغاز ہوا تھا جو بہت اچھی ، متحرک اور سود مند ثابت ہوئی۔ اس مہم کے تین مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ ان مراحل میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن میں کافی بہتری آئی ہے۔ کرونا کی وجہ سے اس مہم میں رکاوٹ پیدا ہوئی تاہم اب بھی بعض اضلاع میں یہ کام جاری ہے۔ سول سوسائٹی نے اس مہم میں بڑا اہم ، متحرک اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔
اگر صرف سول سوسائٹی کی کاوش کی بات کی جائے تو اس کی محنتوں سے 8 لاکھ سے زائد خواتین کے شناختی کارڈ بنے اور ابھی بھی اس پر کام جاری ہے۔ ہم نے ننکانہ صاحب جیسے چھوٹے ضلعے میں 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو شناختی کارڈ اور اس کے فوائد کا علم ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ اس کیلئے پرنٹ ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر تشہیر کی جائے۔
لوگوں کو آگاہی دینے میں نادرا، سول سوسائٹی، سیاسی قیادت سمیت معاشرے کے دیگرطبقات کو مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے شناختی کارڈ کی مہم یہ محسوس کیا کہ بعض علاقوں میں عملے کی تربیت یا رویے کا مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے متعلقہ اداروں کے ورکرز کو صنفی حساسیت کی تربیت دینی چاہیے، اس سے لازمی طور پر بہتری آئے گی۔
بلدیاتی انتخابات قریب ہیں لہٰذا صنفی امتیاز کی کمی کیلئے خواتین کے شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میری سفارشات ہیں کہ جس طرح ماضی میں ہنگامی اقدامات کیے گئے تھے، اسی طرز پر نادرا دفاتر کو ہفتہ کے روز بھی کھلا رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعہ اور ہفتہ، دو دن صرف خواتین کے لیے مختص کیے جائیں،ان دنوں میں انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔
اس کے علاوہ ہر ضلع میں کم از کم ایک نادرا سینٹر 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن کھولا جائے، اس سے کافی بہتری آئے گی۔ موبائل رجسٹریشن وین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ہراس خاتون تک پہنچا جائے جس کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ شناختی کارڈ کے حوالے سے ایک اور معاملہ یہ ہے کہ خواتین شادی کے بعد کسی اور علاقے ، ضلع یا صوبے میں چلی جاتی ہیں، ان کی بائیومیٹرک کو آن لائن کیا جائے۔
خاتون اپنے قریبی سینٹر سے یا نادرا ایپ کے ذریعے آن لائن بائیومیٹرک کرائے اور پھر اس کے متعلقہ سینٹر سے اس کی آن لائن ہی تصدیق کر لی جائے، اس سے کافی آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات قریب ہیں، عام انتخابات کی طرح سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ جنرل نشستوں پر5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ پولنگ بوتھ ویمن اور ڈس ایبل فرینڈلی بنائے تاکہ کسی کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ سول سوسائٹی خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن میں حکومت کے ساتھ ہے، ہم جینڈر گیپ کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے کام کر رہے ہیں۔