گڈ گورننس کی تلاش جاری ہے
مری میں مقیم افراد جو سیاحوں کو لوٹنے میں بے دردی سے مصروف رہے ان میں سے بیشتر مذہبی عبادات کے پابند ہیں
ISLAMABAD:
ایک سانحہ نے حکومت کی گڈ گورننس کی ہنڈیا مری کے چوراہے میں پھوڑ دی۔ حکمرانوں اور ان کے وزیروں کے تبصروں پر حیرت ہوئی۔ ارباب حکومت کی طرف سے ایسے بیانات پہلی مرتبہ نہیں آئے۔
ماضی میں ہزارہ برادری انتہائی سخت سردی میں درجنوں افراد کی لاشیں لیے بیٹھے رہی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم خود آ کر ان کو تسلی دیں۔ جب کہ حکمرانوں کی جانب سے ٹی وی پر آ کر یہ کہا گیا کہ ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں ۔ ذرا اندازہ کریں۔
ایک پہاڑی شہر میں جہاں چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے وہاں بقول حکومت کے ایک لاکھ 63 ہزار گاڑیاں داخل ہو جائیں تو کیا حشر ہو گا۔ ایک گاڑی میں اگر چار سے پانچ افراد ہوں تو یہ تعداد 8لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ جنھوں نے چند گھنٹوں میں ایک دم مری پر ہلہ بول دیا۔
گڈ گورننس کس طرح ناکام ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ محکمہ موسمیات نے 31دسمبر سے 5 جنوری تک شدید برفباری کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کر دیا تھا اور یہ تک بتا دیا تھا کہ 6سے 9جنوری تک مری اور گلیات کی سڑکیں بند ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
ابتداء میں یہ تاثر تھا کہ 22افراد برفانی طوفان اور سردی کی شدت سے مرے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ کاربن مونو آکسائیڈ سے مرے کہ انھوں نے سردی کی شدت سے بچنے کے لیے کاروں کے شیشے بند کر کے ہیٹر چلا لیے۔ کیوں کہ سائلنسر پر برف جم گئی اور زہریلی گیس باہر نکلنے کا راستہ نہ پا کر کار کے اندر پھیل گئی۔ یہ گیس بے بو اور بے ذائقہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے اثر سے نیند سے گہری نیند میں جا کر موت کی وادی میں جا پہنچے۔
کاربن مونو آکسائیڈ کس قدر خطرناک ہے اس بارے میں آگاہی ہمارے ہاں پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی حاصل نہیں۔ مغرب میں یہ باتیں اسکولوں کی سطح پر ابتداء میں ہی بتا دی جاتی ہیں۔ اور تو اور شروع میں ہمارا میڈیا بھی اس بارے میں بے خبر تھا۔
ہمارے حکمران ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ امریکا ، یورپ اور دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک صرف سیاحت کے شعبے سے ہی اربوں ، کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ صرف اس ایک شعبے سے ہی 70کروڑ ڈالر کما رہا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں سیاحت کے فروغ کے لیے جو سہولیات مہیا کی گئی ہیں اس کا عشرے عشیر بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔
مری میں مقیم افراد جو سیاحوں کو لوٹنے میں بے دردی سے مصروف رہے ان میں سے بیشتر مذہبی عبادات کے پابند ہیں۔ کیا ان کا لوٹ مار کا یہ عمل درست تھا۔عبادات مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یعنی اعلیٰ اور بہترین مسلمان بننا جو دنیا کے لیے نمونہ ہو۔ نہ صرف یہ کہ اس کے ہاتھ ، زبان عمل سے کسی دوسرے مسلمان کو نقصان نہ پہنچے بلکہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے باعث خیر ہو۔ اصل میں ہم وہ قوم ہیں جو اخلاقی تربیت سے مکمل طور پر محروم ہے۔
ہمارے حکمران سانحہ مری پر سیاحوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ چند منٹ کے فاصلے پر مری ہو آتے۔ اسی طرح اپوزیشن رہنماؤں سے بھی کوئی اس سانحہ پر مری نہیں پہنچا۔ بس اپنے آرام دہ گرم کمروں سے تنقیدی بیانات جاری کرتے رہے۔ خود نہ جاتے کم از کم اپنے پارٹی کارکنوں کو ہی متحرک کرتے ۔ وہ بھی نہیں کر سکے۔ تمام اپوزیشن اور حکمران پارٹی کی مری میں عالیشان رہائش گاہیں ہیں۔ وہی ان بد قسمت لوگوں کے لیے کھول دی جاتیں تو بھی ان کی جانیں بچ جاتیں۔ ایک سابق وزیر اعظم مری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی اس سانحے پر مری نہ پہنچ سکے۔ یہ تمام لوگ سوائے تنقید کے کچھ نہ کر سکے۔ کیونکہ یہی تو سب سے آسان کام ہے۔
مری والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں۔ ویسے تو اسلام آباد سمیت پورا پاکستان زلزلے کی پٹی پر ہے۔ اگر خدانخواستہ خوفناک زلزلہ آیا تو مری ایسا قبرستان بنے گا جہاں امداد بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ زلزلے کے ساتھ ماحولیات ایک دوسری خوفناک آفت ہے۔ جیسے جیسے ماحولیاتی تباہی بڑھے گی ویسے ویسے مری اور دوسرے پہاڑی علاقوں میں تباہ کن برف باری اب ہر سال بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
ایک سانحہ نے حکومت کی گڈ گورننس کی ہنڈیا مری کے چوراہے میں پھوڑ دی۔ حکمرانوں اور ان کے وزیروں کے تبصروں پر حیرت ہوئی۔ ارباب حکومت کی طرف سے ایسے بیانات پہلی مرتبہ نہیں آئے۔
ماضی میں ہزارہ برادری انتہائی سخت سردی میں درجنوں افراد کی لاشیں لیے بیٹھے رہی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم خود آ کر ان کو تسلی دیں۔ جب کہ حکمرانوں کی جانب سے ٹی وی پر آ کر یہ کہا گیا کہ ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں ۔ ذرا اندازہ کریں۔
ایک پہاڑی شہر میں جہاں چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے وہاں بقول حکومت کے ایک لاکھ 63 ہزار گاڑیاں داخل ہو جائیں تو کیا حشر ہو گا۔ ایک گاڑی میں اگر چار سے پانچ افراد ہوں تو یہ تعداد 8لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ جنھوں نے چند گھنٹوں میں ایک دم مری پر ہلہ بول دیا۔
گڈ گورننس کس طرح ناکام ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ محکمہ موسمیات نے 31دسمبر سے 5 جنوری تک شدید برفباری کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کر دیا تھا اور یہ تک بتا دیا تھا کہ 6سے 9جنوری تک مری اور گلیات کی سڑکیں بند ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
ابتداء میں یہ تاثر تھا کہ 22افراد برفانی طوفان اور سردی کی شدت سے مرے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ کاربن مونو آکسائیڈ سے مرے کہ انھوں نے سردی کی شدت سے بچنے کے لیے کاروں کے شیشے بند کر کے ہیٹر چلا لیے۔ کیوں کہ سائلنسر پر برف جم گئی اور زہریلی گیس باہر نکلنے کا راستہ نہ پا کر کار کے اندر پھیل گئی۔ یہ گیس بے بو اور بے ذائقہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے اثر سے نیند سے گہری نیند میں جا کر موت کی وادی میں جا پہنچے۔
کاربن مونو آکسائیڈ کس قدر خطرناک ہے اس بارے میں آگاہی ہمارے ہاں پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی حاصل نہیں۔ مغرب میں یہ باتیں اسکولوں کی سطح پر ابتداء میں ہی بتا دی جاتی ہیں۔ اور تو اور شروع میں ہمارا میڈیا بھی اس بارے میں بے خبر تھا۔
ہمارے حکمران ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ امریکا ، یورپ اور دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک صرف سیاحت کے شعبے سے ہی اربوں ، کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ صرف اس ایک شعبے سے ہی 70کروڑ ڈالر کما رہا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں سیاحت کے فروغ کے لیے جو سہولیات مہیا کی گئی ہیں اس کا عشرے عشیر بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔
مری میں مقیم افراد جو سیاحوں کو لوٹنے میں بے دردی سے مصروف رہے ان میں سے بیشتر مذہبی عبادات کے پابند ہیں۔ کیا ان کا لوٹ مار کا یہ عمل درست تھا۔عبادات مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یعنی اعلیٰ اور بہترین مسلمان بننا جو دنیا کے لیے نمونہ ہو۔ نہ صرف یہ کہ اس کے ہاتھ ، زبان عمل سے کسی دوسرے مسلمان کو نقصان نہ پہنچے بلکہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے باعث خیر ہو۔ اصل میں ہم وہ قوم ہیں جو اخلاقی تربیت سے مکمل طور پر محروم ہے۔
ہمارے حکمران سانحہ مری پر سیاحوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ چند منٹ کے فاصلے پر مری ہو آتے۔ اسی طرح اپوزیشن رہنماؤں سے بھی کوئی اس سانحہ پر مری نہیں پہنچا۔ بس اپنے آرام دہ گرم کمروں سے تنقیدی بیانات جاری کرتے رہے۔ خود نہ جاتے کم از کم اپنے پارٹی کارکنوں کو ہی متحرک کرتے ۔ وہ بھی نہیں کر سکے۔ تمام اپوزیشن اور حکمران پارٹی کی مری میں عالیشان رہائش گاہیں ہیں۔ وہی ان بد قسمت لوگوں کے لیے کھول دی جاتیں تو بھی ان کی جانیں بچ جاتیں۔ ایک سابق وزیر اعظم مری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی اس سانحے پر مری نہ پہنچ سکے۔ یہ تمام لوگ سوائے تنقید کے کچھ نہ کر سکے۔ کیونکہ یہی تو سب سے آسان کام ہے۔
مری والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں۔ ویسے تو اسلام آباد سمیت پورا پاکستان زلزلے کی پٹی پر ہے۔ اگر خدانخواستہ خوفناک زلزلہ آیا تو مری ایسا قبرستان بنے گا جہاں امداد بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ زلزلے کے ساتھ ماحولیات ایک دوسری خوفناک آفت ہے۔ جیسے جیسے ماحولیاتی تباہی بڑھے گی ویسے ویسے مری اور دوسرے پہاڑی علاقوں میں تباہ کن برف باری اب ہر سال بڑھتی ہی چلی جائے گی۔