ایک نہ ہونے والے مشیراطلاعات کا شکوہ
ہم اپنے خیالات کا اظہارنہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک بیروزگار صحافی کی شکایت پربات کررہے ہیں
ضروری تھا اوربہت ہی ضروری تھا بلکہ لازمی تھا جب ''اطلاعات''کی بھرمار ہو رہی ہو،دنیاگل وگلزار ہو رہی ہو، ہرطرف وژن کی ہاہاکارہو رہی ہو تو ایک دو وزیروں، مشیروں اور خصوصیوں سے کام کیسے چل سکتا ہے، کم سے کم صفربرابرصفرسو منصوبے لانچ ہورہے ہوں، ایک ہزار ایک سو ایک قسم کے ہشاش بشاش اورکارڈ اندرکارڈ پروگرام چل رہے ہو تو ان دس لاکھ دس ہزار دس سو دس ''اطلاعات ''کے لیے صرف ایک وزیراعلیٰ اوروغیرہ وغیرہ کہاں کافی ہوسکتے ہیں جب کہ وہ اپنے ''کھیتوں''کوپانی دینے کے کاموں میں بھی مصروف ہوں، اپنے مٹکے، گھڑے، بالٹی، کوزے بھرنے کی مصروفیت بھی درپیش ہو، خوان نعیما کے نوالوں کے لیے منہ ڈھونڈنے کا بہت ساراکام بھی ہو تو ان بے پناہ ''اطلاعات'' کو لانچ کرنے کے لیے بھی کوئی ماہرہونا چاہیے تھا اور وہ صوبائی حکومت کومل گیا اوراس کمال کی بھی داد دینا پڑے گی کہ اطلاعات سے متعلق لوگوں کا صوبے میں سخت کال بلکہ قحط الرجال بھی پڑا ہوا ہے، لیکن ہماری گوہرشناس، جوہرشناس بلکہ سب کچھ ستیاناس نے ایک اور''کان'' میں ایک دریکتا اورگوہریک دانہ تلاش کرکے اس منصب پر بٹھادیا۔
ٹھیک ہے اس کا اطلاعات سے کوئی تعلق نہیں لیکن ''لوہا''اچھا ہوتو اس سے ہرقسم کااوزاربنایاجاسکتاہے اورصوبے کے ماہر لوہاروں نے بنادیااورجوگوہرآبداراورجوہر نامدار تلاش کیاگیا ہے، اس نے بھی اس اعلیٰ انتخاب کو درست ثابت کرنے میں ''ایڑی چوٹی''کا زورلگا دیا، ہرصبح اطلاع، ہردوپہراطلاع اور ہرشام اطلاع کہ حکومت کی صحت کا ہے پیغام اطلاع۔چنانچہ ہرصبح جب ہم اخبار اٹھاتے ہیں توکوئی نہ کوئی دھماکا خیز اطلاع ضرور ہوتی ہے مثلاً آج سورج مغرب سے نکلا کل بھی نکلے گا اورپرسوں بھی اورپھر یہی سورج اسی دن شام کو ڈوبے گا بھی اور یہ سب کچھ وژن کاکمال اورصوبائی حکومت کاکارنامہ ہے۔
یا وہی قوالی ۔تھوڑی دیر اورمیری جان فقط تھوڑی ہی دیرتھوڑی دیرسانس کو روکے رکھو،عراق سے تریاق روانہ ہوچکا ہے وہ دیکھو پرندے اڑتے دکھائی دے رہے ہیں وہاں پرتالاب ہے اورفردوس گم گشتہ۔
لیلائے آب ورنگ کا ڈیرا قریب ہے
تارے لرز رہے ہیں سویرا قریب ہے
اور ریکارڈڈ ماسٹر کاپی سے۔ چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔اگرپکڑ لیا،اپوزیشن والے چورہیں، پٹائی والے مورہیں۔لیکن ایک بات ہے ہم توخدا لگتی کہیں گے کیوں کہ سخن فہم ہیں اورغالب کے طرف داربھی۔یہ لوگ کتنے ہی اطلاعات والے ڈھونڈ نکالیں، وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، ٹھیکیداروں بلکہ گلی چوباروں میں بھی تلاش کریں، وہ بات پیدا نہیں کر پائیںگے جو ایک محترمہ نے اطلاعات میں پیدا کی تھی،جو اطلاعات بروقت اور ریپڈ فراہم کرتی تھیں جیسے مشین گن چل رہی ہو۔
جناب شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگروہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
وہ چوں کہ کچھ خوش گفتار بھی تھیں اس لیے اطلاعات میں خوش گفتاری بھی غضب کی ہوتی تھی بلکہ بعد میں تو وہ مکالمات کے ساتھ نکالات پر بھی اترآئی تھی اورشاید اسی مکالات اورہاتھاپائی ہی سے تاثر لے کر ہماری صوبائی حکومت نے سوچا ہوکہ ''اطلاعات'' کے ساتھ ساتھ بات مکالات سے بھی بڑھا کر تیز دھارآلات تک پہنچائی جائے تورنگ اورچوکاآئے گا چنانچہ ''قلم'' کے کام میںقلم کی ضد یعنی تلواراور شمشیروسنان کو بھی شامل کردیاگیا کہ اگرکوئی سیدھا سیدھا ''اطلاع '' پر یقین نہ کرے تو ''تلوار''کام کرجائے گی جیسے کسی فلمی منظر میں ولن اپنے میز پر پستول رکھ کرکسی سے بات کرے۔
دراصل یہ ہم اپنے خیالات کا اظہارنہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک بیروزگار صحافی کی شکایت پربات کررہے ہیں جس نے ساری عمرحکومتوں کی ''خدمت'' کی ہے، کہنے لگا یہ بڑا ظلم ہے کہ ہم صحافی پہلے کیا کم نظراندازتھے کہ اب ہمارے آنگن میں دوسرے آنگنوں کے لوگ بھی آنے لگے،آخر میرے انگنا میں تمہارا کیاکام ہے، ملک میں خدا کے فضل سے آئی ایم ایف کی سرپرستی اورحکومت کی کوشش سے جرائم کی کمی ہے نہ مجرموں کی، نہ مقدموں کی تو پھر آخر ہم مسکینوں پر یہ اتیا چار کیوں۔ مدتوں بعد کوئی مرغن نوالہ نکلاتھا وہ بھی ہمارے منہ سے چھین کردوسروں کو دے دیاگیا۔
پھر اس نے اپنی لیاقت اوراس پوسٹ کے لیے اپنی موزونیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آخر مجھ سے زیادہ لائق وفائق اطلاع دہندہ بلکہ اطلاعات میں ماہراورکون ہوسکتاہے کہ یہ لوگ توصرف اطلاعات فراہم کرسکتے ہیں کہ اے لوگوں تم جنت نشین ہونے والے ہو جب کہ میںیہ ثابت بھی کرسکتاہوں کہ جنت میں پہنچ چکے ہو،جنت ٹریول کیا،ٹھیکہ مہنگائی کودیاجاچکاہے اور بکنگ ٹریولنگ شروع ہوچکی ہے۔