انقرہ سہ فریقی اعلامیہ خوش آیند پیشرفت

پاکستان اور ترکی آیندہ دو سال میں تجارت کا حجم 2 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں

پاکستان اور ترکی آیندہ دو سال میں تجارت کا حجم 2 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں. فوٹو/فائل

انقرہ میں ہونے والے سہ فریقی سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور ترکی نے افغان امن عمل میں موثر کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ 2014ء میں اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا' کیا وہ ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس صورت حال نے جہاں پاکستان میں تشویش کو جنم دیا ہے وہاں خطے کے دیگر ممالک بھی اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی افواج کا مکمل انخلا نہیں ہو گا بلکہ اس کے فوجیوں کی ایک خاص تعداد وہاں قیام پذیر رہے گی۔ ترکی کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں موجود ہے۔

انقرہ میں ہونے والی سہ فریقی سربراہ کانفرنس کا مقصد بھی افغانستان کے مستقبل کے بارے میں متفقہ فارمولا طے کرنا ہے تاکہ اس خطے کو جائے امن بنایا اور اسے ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ مشترکہ کانفرنس میں بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے حوالے سے عالمی برادری سے کہا ہے کہ اس سلسلے میں خطے کی سلامتی اور استحکام کا خیال رکھا جائے' پاکستان پرامن' خود مختار اور مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے ، خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے افغان عوام کا فارمولا قبول ہے۔ افغانستان میں امن و امان کے حوالے سے پیدا ہونے والے اثرات سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو کرزئی انتظامیہ کا پاکستان کے بارے میں رویہ قابل رشک نہیں رہا۔ حامد کرزئی کے دور صدارت میں پاک افغان سرحدوں پر متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔

پاکستان کے بعض ناپسندیدہ عناصر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے اور وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان سے معاونت کر رہی ہیں۔ اس صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک افغان حکومت نے ان ناپسندیدہ عناصر کو روکنے یا ان کی سرکوبی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اب انقرہ میں حامد کرزئی نے میاں محمد نواز شریف کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان ناپسندیدہ عناصر کی پناہ گاہیں ختم کر دی جائیں گی۔ پاکستان اور ترکی افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے اور اب ایک بار پھروہ دونوں افغان امن عمل کو موثر بنانے کے لیے آگے بڑھے ہیں۔ 2014ء میں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان تاریخ کے نئے دور میں داخل ہو گا اس موقع پر پاکستان کو افغانستان سے بہتر تعلقات بنانے اور وہاں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کے لیے جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔


طالبان رہنما جو اس وقت حکومت یا سیاسی عمل میں شریک ہیں' ضروری ہے کہ پاکستان ان کا تعاون بھی حاصل کرے اور ان سے اپنے تعلقات مضبوط بنائے، ان رہنمائوں میں عبدالرب رسول سیاف بھی ہیں جو آیندہ ہونے والے الیکشن میں صدارتی امیدوار کے طور پر آنے کے خواہاں ہیں' اس کے علاوہ کئی سابق طالبان رہنما بھی کابل میں موجود ہیں جن میں سابق طالبان حکومت کے اسلام آباد میں سفیر ملا ضعیف بھی شامل ہیں۔ ملا ضعیف جیسے طالبان رہنمائوں کے پاکستان سے گہرے مراسم رہے ہیں،بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات میں ان مراسم کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ انقرہ مشترکہ اعلامیہ میں بھی امید ظاہر کی گئی کہ افغانستان امن عمل میں افغان طالبان شریک ہوں گے۔ پاکستان کو افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنا مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔

افغان صدارتی امید وار اشرف غنی' سیاست میں سرگرم طالبان اور شمالی اتحاد جس کے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ ہیں، سے بھی پاکستان کو اپنے تعلقات بڑھانے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں آباد افغان مہاجرین کی ان کی وطن واپسی پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ افغان انتظامیہ نے بھی اب تک ان مہاجرین کی واپسی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں اور نہ کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق بہت سے افغان مہاجرین نے پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنا رکھے اور ملک کے دیگر شہروں میں کھلے عام کاروبار کر رہے ہیں۔ ان مہاجرین کے باعث امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں امن قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے علاوہ ان افغان مہاجرین کو بھی واپس ان کے وطن بھیجا جائے جنہوں نے پاکستانی شناخت حاصل کر رکھی ہے۔

مستقبل کے افغان حکومتی منظرنامے میں حامد کرزئی کا مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے اب پاکستان پر لازم ہے کہ وہ مستقبل کے ابھرنے والے افغان سیٹ اپ میں اپنا عمل دخل بڑھائے تاکہ افغانستان میں ناپسندیدہ عناصر کی پناہ گاہیں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو سکے۔ انقرہ کانفرنس میں پاکستان' ترکی اور افغانستان کے درمیان مال بردار ٹرین کا ٹریک بچھانے پر غور خوش آیند ہے اس سے پورے خطے میں تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنے سے ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔ ترکی اور پاکستان میں تجارتی تعلقات پہلے ہی بہتر انداز میں چل رہے ہیں ابھی ان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے ان کے درمیان باہمی دوستانہ تعلقات بھی اتنے ہی گہرے ہوں گے۔

پاکستان اور ترکی آیندہ دو سال میں تجارت کا حجم 2 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں' دونوں ممالک کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدے کو رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک حتمی شکل دی جائے گی۔ ترکی اور پاکستان دفاع اور دیگر شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر غور کریں گے۔ پاکستان' ترکی اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کی صورت میں ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آ چکا ہے۔ تینوں ممالک خطے میں جنم لینے والے مسائل کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔سہ فریقی مذاکراتی پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں اور خدشات بھی دور کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ مستقبل میں پاکستان' ترکی اور افغانستان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر خطے میں قیام امن کے ساتھ ساتھ خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔
Load Next Story