جائیں تو جائیں کہاں

ہمارے ہاں جو نظام حکومت رائج ہے اس کے اور طالبان کے مجوزہ نظام حکومت کے درمیان واضح تضاد ہے


Abdul Qadir Hassan February 15, 2014
[email protected]

اس وقت میں کسی دھماکے سے پہلے یا کسی دھماکے کے بعد یہ سطریں لکھ رہا ہوں کیونکہ ایک دھماکا تو کراچی میں پولیس پر ہو چکا ہے اور دوسرا کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔ دھماکوں کا جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اس میں اب تو ایک دن کا وقفہ بھی نہیں آ رہا۔ میرے ایک ملازم نے جو زیادہ تر میری ذاتی نگہداشت یا نگرانی کرتا ہے اور میرے قریب رہنے کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ باخبر ہے ابھی ابھی کہہ رہا تھا کہ سر میں تو گھبرا گیا ہوں، یہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا مجھے بھی کچھ تو بتائیے۔ یہ ملازم جنوبی پنجاب کا رہنے والا ہے جہاں دھماکے نہیں ہو رہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم گھر جانا چاہو تو چلے جائو لیکن جواب میں اس نے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں بھاگ کر کہاں جائوں گا۔ دھماکا ایک جگہ ہوتا ہے تو جیسے پاکستان کی ہر جگہ ہوتا ہے۔ مجھے اس نیم خواندہ گھریلو ملازم کے اس سیاسی قسم کے بیان پر تعجب ہوا اور میں نے سوچا کہ حالات کس طرح ذہنوں کو بدل دیتے ہیں اور ماحول کی پریشانیاں بلکہ دھماکے کس طرح ذہنوں میں گھر کر لیتے ہیں۔

دنیا امید پر قائم ہے اور ہم اسی امید کے سہارے چلے جا رہے ہیں۔ اخباری رپورٹر بتاتے ہیں کہ ملک میں اور ملک سے باہر تین درجن سے بھی زیادہ گروہ طالبان بنے ہوئے ہیں یعنی بھارت کے تخریب کار بھی طالبان ہیں۔ ہماری حکومت یا تو گھبرا گئی ہے یا اسے صحیح اطلاعات نہیں مل رہیں۔ کچھ بھی ہے حکومت ان تخریب کاروں کی سرکوبی کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے بلکہ کسی کارروائی کے برعکس چار پانچ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے اور اس طرح امن کا کوئی راستہ نکالے۔ اس وقت تک راستہ یہ نکلا ہے کہ کوئی پاکستان کا امیر المومنین نامزد کیا گیا ہے اور کوئی خلیفہ یعنی وزیر اعظم آپ پاکستان میں کوئی ایسا نظام حکومت قائم کر لیں جس میں کوئی امیرالمومنین بھی ہو اور کوئی خلیفہ بھی اور اس طرح طالبان کے ایک اہم گروہ کو پرامن کر لیں۔ ہمارے علماء کرام کو جو تعلیم دی گئی ہے اور جس نظام حکومت کا نقشہ بتایا اور دکھایا گیا ہے وہ صرف اسی کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی جو صورت بھی ہے وہ غیر اسلامی ہے اور انھیں غیر اسلامی حکومت قابل قبول نہیں ہے۔

ہمارے ہاں جو نظام حکومت رائج ہے اس کے اور طالبان کے مجوزہ نظام حکومت کے درمیان واضح تضاد ہے اور یہ تضاد ایک لحاظ سے بالکل عارضی ہے کیونکہ اسلامی نظام حکومت عوام کی فلاح کا نظام ہے ایک ایسی قومی فلاح کا نظام جو اپنی نوعیت کا پہلا نظام حکومت تھا۔ کوئی بھی جدید ویلفیئر ریاست اسی کی بنیادوں پر استوار کی گئی ہے بلکہ یورپ کے بعض ملکوں میں تو اس کے نام کے لیے عمر کا نام لیا جاتا ہے اور عمر کا لفظ اس کے نام کا حصہ ہے۔ ہمارے دینی مدرسوں میں اگر تعلیم جامد نہ ہوتی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ترقی ہوتی رہتی نئے نظریات راہ پاتے رہتے اور جدید نظریات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جاتا تو آج کسی ریاست کے سربراہ کو صدر یا امیر المومنین کہنے کی نوبت ہی نہ آتی۔

ہمارے کئی پاکستانی جو برطانیہ اور یورپ کے بعض دوسرے ملکوں میں آباد ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اصلی اسلامی حکومت تو یہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان حکومت نہیں ہے یعنی اس کے حکمران مسلمان نہیں ہیں۔ اسے لطیفے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی اپنے عزیزوں کے ہاں برطانیہ چلا گیا۔ وہ صبح اٹھا تو دروازے کے باہر اسے دودھ کی بوتل پڑی ہوئی ملی گھر سے باہر نکلا تو میمیں دیکھیں اس نے اعلان کیا کہ میں جنت میں آ گیا ہوں جنت میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں اور ہر طرف حوریں پھرتی ہیں تو یہ سب میں یہاں دیکھ رہا ہوں اور اس جنت میں زندہ ہوں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ برطانیہ جیسے ملکوں میں لوگ جھوٹ نہیں بولتے، عام دکاندار بے ایمانی نہیں کرتے۔کوئی چیز ناپسند ہو تو مقررہ وقت میں واپس کی جا سکتی ہے اور عام زندگی میں انصاف ملتا ہے۔

ایک عالمی جنگ کے موقع پر چرچل کی یہ بات مشہور ہے کہ جب ایک بار وزیر اعظم سے جنگ میں فتح و شکست کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہے جب جواب ملا کہ جی ہاں تو اس مشہور برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ پھر ہمیں شکست نہیں ہو سکتی۔ گویا اس برطانوی سیاستدان حکمران کے خیال میں انصاف کسی قوم کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ زلزلہ آیا تو زمین پر بیٹھے ہوئے مسلمان خلیفہ نے زمین پر کوڑا مار کر کہا کہ کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا جو تم اس قدر برہم ہو رہی ہو۔ ایک بار حضورؐ پاک سے کسی نے کہا کہ آپ انصاف نہیں کر رہے تو آپ نے فرمایا اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اگر میں طالبان سے خوفزدہ نہ ہوتا تو ان کے انصاف کے بھی نمونے پیش کرتا۔

جو لوگ حالات کے پس منظر کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ بات کسی نظام حکومت کی نہیں بات ایک نئی ریاست کی ہے جس کے قیام کے لیے بدامنی کا راستہ اور ذریعہ اختیار کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کو جھکا کر اس سے ایک علاقے کا کنٹرول چھین لینا ہے۔ فی الحال ایک علاقے کی بات ہے جو آگے چل کر پورے ملک کی بھی ہو گی۔ بدامنی اور خونریزی پشاور سے کراچی تک پھیل چکی ہے اور زندگی کی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔ بازار جانا مشکل ہے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈر لگتا ہے، ملازم دفتر جانے سے گھبراتے ہیں۔ شام کو جو واپس گھر پہنچتا ہے اس کو مبارک دی جاتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی میدان جنگ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بچے نوجوان بزرگ عورتیں کیا یہ سب مسلسل ایسی ہنگامی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ حکومت کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ سوائے فوج کے حکومت اپنا ہر ذریعہ استعمال کر رہی ہے اور امن قائم کرنے میں مصروف پولیس بذات خود حملے کی شکار ہے اور اس کے اہلکار نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اندریں حالات اگر کوئی ملازم کہتا ہے کہ میں کہاں جائوں۔ میں تو گھبرا گیا ہوں وہ غلط نہیں کہتا۔ معلوم نہیں کیا گناہ کیا ہے کہ ہمارا ملک اپنے بیٹوں کے لیے امن کی جگہ نہیں رہا اگر یہ گناہ کی سزا ہے تو خدا اسے معاف کرے اور اگر یہ کسی نااہلی کی سزا ہے تو خدا ذمے دار لوگوں میں اہلیت پیدا کرے اور کیا عرض کیا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں