سفاکانہ حد تک مجرمانہ خاموشی

ایک بات مگر طے ہے اور وہ یہ کہ اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہہ دینے والا کپتان ایک سچا آدمی ہے


Nusrat Javeed February 15, 2014
[email protected]

MUZAFFARGARH: یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں میڈیا بہت پھیل گیا ہے۔ 24/7 چینلوں کی بہتات کے سبب شور و غوغا بھی ضرورت سے کچھ زیادہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان مگر وہ واحد ملک نہیں جہاں میڈیا کے فروغ کی وجہ سے لوگ کسی ایک خبر یا موضوع پر توجہ مبذول کیے رکھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ Global Village کے تمام گوشوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مگر ہمہ وقت بدلتے اس فوکس کے باوجود ہر ملک کے میڈیا میں چند بنیادی سوالات ضرور اٹھائے جاتے ہیں اور وہاں کے صحافی ان کے واضح جوابات پا لینے تک چین سے نہیں بیٹھتے۔

دوسرے کئی ملکوں میں ان دنوں وہاں کے میڈیا میں چند موضوعات پر ہونے والی مسلسل تکرار کی تفصیلات میں الجھے بغیر پاکستان کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس ملک میں دیرپا امن کے قیام کے راستے ڈھونڈنے کی خاطر وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں تشریف لائے اور اپنی دانست میں بدامنی کے ذمے دار سمجھے جانے والوں سے مذاکرات کی خاطر ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے اپنے نمایندگان نامزد کر دیے تو دوسرے فریق نے بھی اپنے رابطہ کاروں کے نام دے دیے۔ دونوں جانب کے لوگ اب ایک دوسرے سے کافی ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ اس سے قبل کہ وہ باہمی ملاقاتوں کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچتے، ہمارے 24/7 والوں نے دونوں اطراف کے رابطہ کاروں کو اپنی اسکرینوں پر مدعو کرتے ہوئے گویا ایک متوازی مذاکراتی عمل کا آغاز کر دیا۔

اسکرینوں پر ہونے والے ان مذاکرات کے ذریعے دیرپا امن تک پہنچنے کا ابھی تک کوئی راستہ تو نہیں ملا۔ مگر ایک بات قطعی طور پر طے ہو گئی اور وہ یہ کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا کہ اس ملک میں حقیقی اسلام نافذ ہو سکے۔ یہ بات طے کر دینے کے بعد اب ہمارے ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھے فکری رہنما جاننا یہ چاہ رہے ہیں کہ 1973ء میں نافذ ہوا اور مختلف ترامیم کے ذریعے مزید اُجلا ہوا پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا نہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کی پہلی مرکزی مسجد کے سرکاری طور پر بنائے اور مانے ہوئے خطیب مولانا عبدالعزیز اس ضمن میں ہماری سب سے زیادہ رہنمائی فرما رہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی کوششوں کے سبب ہمارے ذہن بہت جلد صاف ہو جائیں گے۔ میں حقیقی معنوں میں ذاتی طور پر پریشان ایک اور وجہ سے ہو رہا ہوں۔

عمران خان صاحب سے آپ سو اختلاف کر لیں۔ ایک بات مگر طے ہے اور وہ یہ کہ اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہہ دینے والا کپتان ایک سچا آدمی ہے۔ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ محض ایک فرد نہیں ایک بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کے رہنما بھی ہیں۔ ان کے سیاسی حوالوں سے بہت زیادہ موثر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے جب دیر پا امن قائم کرنے کی خاطر ایک کل جماعتی کانفرنس سے مدد چاہی تو تحریک انصاف نے اس کانفرنس میں شمولیت کے لیے یہ شرط عائد کر دی کہ پہلے ان کی چیف آف آرمی اسٹاف سے اکیلے میں ملاقات کرائی جائے۔ وزیر اعظم نے ان کی اس شرط کو تسلیم کیا اور عمران خان صاحب کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کے ساتھ بٹھا دیا۔ اب عمران خان تواتر سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے جنرل کیانی کی موجودگی میں انھیں بتایا تھا کہ اگر شمالی وزیرستان میں کوئی فوجی آپریشن وغیرہ ہوا تو اس کی کامیابی کے امکانات جنرل کیانی کی نظر میں صرف 40فیصد ہیں۔ اتنے دن گزر جانے کے باوجود میرے اس کالم کے لکھنے تک نواز شریف یا جنرل کیانی کی طرف سے عمران خان کے اس دعوے کو جھٹلایا نہیں گیا ہے۔

مجھے بہت افسوس ہے کہ مولانا عبدالعزیز کو بار بار زحمت دے کر حقیقی اسلام سمجھنے کے خواہش مند صحافی اور اینکر حضرات نے بھی نواز شریف یا جنرل کیانی کو عمران خان کے 40 فیصد والے دعویٰ پر کوئی تبصرہ کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ میں ایسی خاموشی کو سفاکانہ حد تک مجرمانہ سمجھتا ہوں۔ خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے اور بس یاد کر لیں کہ ہمارے ہمسایے میں پاکستان سے پانچ گنا بڑا ایک ملک ہے۔ وہ ہمارا ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے اور ہماری طرح ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ میں اس ملک کے حوالے سے اپنے وطن کے لیے موجود خدشات و خطرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے چین کی نیند کیسے سو سکتا ہوں اگر 6 سال تک ہماری مسلح افواج کی کمانڈ کرنے والا جنرل اپنے وزیر اعظم کو عمران خان کی موجودگی میں یہ کہہ دے کہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک نسبتاََ چھوٹے حصے میں کسی فوجی آپریشن کی کامیابی کی یقین دہانی نہیں دلا سکتا۔

مان لیتا ہوں کہ شاید میں ضرورت سے زیادہ خوف کا اظہار کر رہا ہوں۔ فوج درحقیقت غیر ملکی دشمن سے لڑنے کے لیے تیار کی جاتی ہے اور ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمارے ازلی دشمن کا بھرپور مقابلہ کر سکتی ہیں۔ یہ اعتراف کرنے کے باوجود میں آپ کو یہ بات یاد دلانے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ہماری افواج کے لیے Counter Insurgency Operations بھی کوئی نئی بات نہیں۔

بلوچستان میں 1948ء سے پے در پے ایسے آپریشن کرنا پڑے۔ 1970ء کی دہائی کے پہلے دو سال مرحوم مشرقی پاکستان میں بھی تو Counter Insurgency کی جنگ لڑی گئی تھی۔ 2009ء میں سوات آپریشن ہوا۔ دعویٰ تو یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سری لنکا کی حکومت نے تامل علیحدگی پسندوں پر قطعی فتح حاصل کرنے کے لیے ہماری افواج کےCounter Insurgency Wizards سے رجوع کیا تھا۔ ایسے بھرپور تجربات کے ہوتے ہوئے بھی اگر جنرل کیانی نے شمالی وزیرستان کے ضمن میں ہاتھ کھڑے کر دیے تھے تو عمران خان کو ''طالبان خان'' ہونے کے طعنے کیوں دیے جائیں اور نواز شریف صاحب مولانا سمیع الحق کی منت سماجت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ایسے میں ان میڈیا والوں کو دوش بھی کیوں دینا جو بیچارے بڑے خلوص سے مولانا عبدالعزیز صاحب کو اپنے پروگراموں میں بلا کر حقیقی اسلام سمجھنا چاہ رہے ہیں؟!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں