غضب کا پہیہ
آپ چین چلے جائیں۔ بیجنگ سے شنگھائی تک انتہائی تیز رفتار ٹرینیں چلتیں ہیں۔ بلکہ اب تو بلٹ ٹرین بھی موجود ہے۔۔۔
تمام ممالک کے بنیادی فرائض میں آتا ہے کہ اس کے عام لوگ احسن طریقے سے آرام دہ اور محفوظ سفر کریں۔ اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھا جائے تو دراصل یہ کسی بھی ملک کی ترقی ناپنے کا ایک آسان سا پیمانہ ہے۔ حکومتیں بھر پور کوشش کرتیں ہیں کہ عوام کو ایک سستا، پائیدار اورقابل بھروسہ نظام سفر مل سکے۔ آپ چین، ملائیشیا، سنگاپور، لندن اور انڈیا پر نظر دوڑائیں تو حیران رہ جائینگے کہ ان ممالک نے سفر کی سہولتوں میں کس قدر اضافہ کیا ہے۔ لندن میں زیر زمین ٹرین کا ایک جال ہے جس کی بدولت آپ تمام جگہوں پر انتہائی سستے اور تیز رفتار طریقے سے پہنچ سکتے ہیں۔ ٹیوب ٹرین کے اسٹیشن، سینٹرل لندن میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لیے ہر اسٹیشن پر کائونٹر بنے ہوئے ہیں جہاں اسٹاف ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر جگہ مفت نقشے مہیا کیے جاتے ہیں۔ لندن میں ایک دن میں لاکھوں لوگ اس ٹیوب ٹرین پر سفر کرتے ہیں۔
آپ چین چلے جائیں۔ بیجنگ سے شنگھائی تک انتہائی تیز رفتار ٹرینیں چلتیں ہیں۔ بلکہ اب تو بلٹ ٹرین بھی موجود ہے جو کئی سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ہے۔ تمام ٹرینوں میں کھانے پینے کی سہولتیں موجود ہیں۔ آپ چھ گھنٹے میں بیجنگ سے شنگھائی پہنچ سکتے ہیں۔ میرا ایک دوست پڑھنے کے لیے جاپان گیا۔ وہاں اسے ٹرین پر سفر کرنا تھا۔ اُس نے اپنی برتھ محفوظ کروائی اور ٹکٹ لے کر ٹرین میں بیٹھ گیا۔ جب وہ اپنی سیٹ پر پہنچا تو وہاں ایک جاپانی شخص براجمان تھا اور وہ انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔ اُس جاپانی کے پاس بھی اُس سیٹ کا ٹکٹ تھا۔ یعنی ایک سیٹ کے دو ٹکٹ! گارڈ کو بلایا گیا، وہ بھی حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ اس کی بیس سالہ ٹرین کی ملازمت میں یہ پہلی بار ہوا ہے۔ گارڈ کو بہت معمولی سی انگلش آتی تھی۔ وہاں ایک مسافر مکمل انگریزی زبان بول سکتا تھا۔ اُس نے ایک غیر ملکی پاکستانی کو مشکل میں دیکھا تو وہاں آ گیا۔ اُس نے غور سے گارڈ کو دونوں ٹکٹ دکھائے۔ معلوم ہوا کہ میرے دوست کے پاس پانچ بج کر ایک منٹ والی ٹرین کا ٹکٹ تھا جب کہ یہ ٹرین پانچ بجے والی تھی۔ یعنی میرا دوست صرف ایک منٹ پہلے والی ٹرین میں غلطی سے سوار ہو گیا تھا۔ کیا ہم یہاں وقت کی اس قدر پابندی کے متعلق سوچ بھی سکتے ہیں؟ پوری دنیا میں ٹرین کے سفر کو ہر دوسرے سفر پر ترجیح دی جاتی ہے۔
1857ء سے پہلے عملی طور پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی والے اس حقیقت کو جانتے تھے کہ کراچی شہر ایک بہت اہم بندر گاہ بن سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بھی نکتہ تھا کہ پنجاب اور دیگر علاقوں سے خام مال کراچی اور پھر بین الاقوامی منڈیوں میں لے جانے کے لیے اُس وقت کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد نظام کی ضرورت ہے۔1851ء میں ہنری ایڈورڈ فریری سندھ کا کمشنر مقرر کیا گیا۔ اُس نے وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی سے اجازت طلب کی کہ کراچی میں ایک سمندری بندرگاہ کے لیے سروے کیا جانا چاہیے۔1858ء میں اُس نے ریلوے لائن اور ریلوے کے نظام کے لیے ایک تفصیلی جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ابتدائی طور پر ریلوے کا نظام کراچی اور کوٹری کے درمیان مختص تھا۔ سکنڈ (سندھ) ریلوے1855ء میں معرض وجود میں آ چکی تھی۔ صرف تین سے چار سال کے عرصے میں کراچی کو کوٹری سے بذریعہ ریل ملا دیا گیا۔ ریلوے کی چار کمپنیاں، (سندھ)، سکنڈ، انڈس فلوٹیلا، پنجاب اور دہلی ریلویز کو ایک ریلوے کمپنی میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس نئی کمپنی کا نام سکنڈ، پنجاب اور دہلی ریلوے کمپنی رکھا گیا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے تاج برطانیہ کی اجازت سے1886ء میں اس کمپنی کو خرید لیا۔ اس کا نام تبدیل کر کے نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے رکھا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد اسٹیٹ کا لفظ نکال کر یہ نام صرف نارتھ ویسٹرن ریلوے رہ گیا۔ ایک طرز سے، یہ نجی ملکیت سے حکومتی ملکیت کی طرف ایک قدم تھا۔ 1889ء میں کراچی شہر اور کیماڑی کے درمیان لائن بچھا دی گئی۔1897ء میں کیماڑی سے کوٹری تک لائن کو دو رویہ کر دیا گیا۔ اگر آپ پشاور سے کراچی تک کی ریلوے لائن کا جائزہ لیں تو اس کی ترتیب تقریباً وہی ہے جو سکندر اعظم نے صدیوں پہلے ہندوستان پر حملے کے دوران رکھی تھی۔ یہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے سے بحیرہ عرب تک تقریباً سفر کی وہی لکیر ہے جو سکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اختیار کی تھی۔ 1889ء میں دریائے سندھ پر لینز ڈائون پُل تعمیر کیا گیا۔ یہ پُل انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس پُل کی بدولت کراچی اور پشاور کو بذریعہ ریل آپس میں ملا دیا گیا۔
کوئٹہ کی فوجی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ اُس وقت بھی برطانیہ کو یہ خوف تھا کہ روس کہیں افغانستان سے کوئٹہ پر حملہ نہ کر دے اور اس طرح اپنے اثر اور حکومت کو اس خطہ میں لانے میں کامیاب نہ ہو جائے۔1857ء میں ولیم اینڈریو سکنڈ پنجاب اور دہلی ریلوے کا چیئرمین تھا۔ اس نے حکومت کو مشورہ دیا کہ کوئٹہ تک ریل کا ایک نظام ہونا چاہیے تا کہ اسے جنگ کی صورت میں ترسیل کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں رکھ سے سبی تک 1880ء میں 215 کلومیٹر کی لائن بچھا دی گئی۔ اس کے آگے پہاڑوں کا انتہائی مشکل پھیلائو تھا۔ پُل اور دشوار گزار سرنگیں بنانے میں تقریباً سات سال کا عرصہ لگا۔ 1887ء میں سبی کو کوئٹہ سے ملایا جا چکا تھا۔
1947ء میں نارتھ ویسٹرن ریلویز کو تقسیم کر دیا گیا۔ ہندوستان کو31330 کلومیٹر جب کہ پاکستان کو8124 کلو میٹر ریلوے ٹریک منتقل ہوا۔ شروع میں اس شعبہ میں پاکستان نے کافی محنت کی۔ مردان سے چارسدہ، جیکب آباد سے کشمور اور کوٹ ادو سے کشمور تک ٹریک کو بڑھایا گیا۔1961ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کا نام تبدیل کر کے اسے پاکستان ریلوے کا نام دے دیا گیا۔ ہماری ٹرین کی حد رفتار 120 کلو میٹر فی گھنٹہ تک تھی اور ہے۔ پاکستان ریلوے تقریباً 6 سے سات کروڑ مسافروں کو سالانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے پاس 200 مال برداری کے تجارتی مرکز تھے۔ ہماری ریلوے میں تقریباً 82000 ملازمین ہیں۔ ہمارا سالانہ اوسط ریونیو تقریباً انیس ہزار ملین روپے ہے۔
اب آپ اپنے ہمسایہ ملک کے نظام کی طرف نظر دوڑائیے۔ اس کے سترہ جغرافیہ زون ہیں۔ اس میں تیرہ لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ اس کا سالانہ اوسط ریونیو 20 بلین ڈالر ہے۔ اس کا سالانہ منافع تقریباً 2 بلین ڈالر ہے۔ ریلوے ٹریک کی لمبائی 65000 کلو میٹر ہے۔23000 کلو میٹر پر بجلی کی ٹرین چلتی ہے۔ ریلوے کی وزارت کے پاس14 پبلک سیکٹر ادارے ہیں۔ ان میں ویگن بنانے سے لے کر سیاحت اور کھانا بنانے تک کی کمپنیاں موجود ہیں۔ انڈیا کی ریلوے اپنے انجن بھی خود بناتی ہے۔ اب ریلوے کا سرکاری محکمہ بھوٹان، نیپال، ویت نام، اور برما تک توسیع کر رہا ہے۔ راجستھان کی سیاحت کے لیے خصوصی آرام دہ ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ ان میں مہاراجہ ایکسپریس، رائل راجستھان اور کئی اور ٹرینیں شامل ہیں۔ ان تمام ٹرینوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے انتہائی آرام دہ نظام بنایا گیا ہے۔ یہ دراصل پہیے پر چلتے ہوئے محل ہیں۔ ان میں لاکھوں سیاح کئی کئی دن اور رات سفر کرتے ہیں۔
ہندوستان کی ریلوے اب بایو ٹوائلٹ نصب کر رہی ہے۔ تمام نئی ویگنوں میں یہ ٹوائلٹ نصب کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے بھی ایک الگ محکمہ بنایا گیا ہے۔ آ پ حیران ہوں گے کہ ابتدائی 55 برس میں کسی ٹرین میں کوئی ٹوائلٹ نہیں تھا۔ بلکہ یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کسی ٹرین میں یہ سہولت میسر ہو گی۔1909ء میں بابو ادکھل چندرا سین نے اس سہولت کے نہ ہونے کی صاحب گنج کے ریلوے افسر کو شکایت کی۔ چنانچہ 50 میل سے زیادہ سفر کرنے والی تمام ٹرینوں کی لوئر کلاس میں یہ سہولت مہیا کی گئی۔ انڈین ریلوے نے صفائی کے لیے ایک خصوصی مہم شروع کی ہے۔ جیسے ہی ٹرین کسی مختص ریلوے اسٹیشن پر رکتی ہے، خصوصی طور پر تربیت یافتہ 20-25 افراد ٹرین کی مکمل صفائی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ شیشوں سے لے کر کچرہ کے ڈبوں تک ہر چیز کو چمکا دیتے ہیں۔ ریلوے کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تمام بڑے ریلوے اسٹیشنز پر کھانے پینے کے فوڈ کورٹ بنائے گئے ہیں اور اس میں نجی شعبے کو ترجیح دی گئی ہے۔
آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں چلے جائیں۔ آپ کو ریلوے اسٹیشن اور ائیر پورٹ میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو گا۔ آپ یورپ کو چھوڑ دیجیے۔ آپ چین کو لے لیجیے۔ بیجنگ کے مین ریلوے اسٹیشن پر چلے جائیں۔ آپ کو انتہائی قابل بھروسہ اور صاف ماحول ملے گا۔ ہر قسم کی معلومات آپ کو ائیر پورٹ کی طرح بڑی بڑی ٹی وی اسکرینوں پر نظر آئیں گی۔ آپ کو چائے گرم یا ٹھیلہ چلنے کی کوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔ آپ کو کسی قسم کی کوئی بدتمیزی یا غیر مہذب رویہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ لوگ انتظار گاہ میں ایک دوسرے سے دست و گریبان نہیں ہو رہے ہونگے۔
آزادی کے وقت ہمیں دنیا کا بہترین ریلوے کا نظام ملا تھا۔ آپ ٹرین کی صفائی کی بات تو رہنے دیں، ہمارے ریلوے کے ملازمین کی وردیاں تک قابل رشک تھیں۔ ٹرین کا گارڈ نیلی یونیفارم میں شاہی شہزادہ نظر آتا تھا۔ آج مجھے اپنی ملکی ریلوے کے متعلق بات کرتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے۔ ہم نے اس ادارہ کو بے دردی سے قتل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ لالچ اور اس حد کا لالچ! ذکر کرتے ہوئے وحشت ہوتی ہے۔ دھوکے کی ٹرین کو لالچ کے پہیے لگا کر ہم ایک اسٹیشن پر مدتوں سے منجمد ہیں اور بے بس مسافروں کو یقین دلا رہے ہیں کہ یہ ٹرین برق رفتاری سے منزل پر چند گھنٹوں میں پہنچ جائے گی! ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر لوگوں کے غصہ کی ٹرین چل پڑی تو ان کے غضب کا پہیہ کس کس کی گردن لے سکتا ہے؟