بلاول بھٹو کے نام

بلاول جن ایشوز پر سیاست کر رہے ہیں وہ نان ایشوز ہیں۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

لاہور:
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی عوام میں مقبولیت کی کئی وجوہات تھیں، ان میں ایک بڑی وجہ ''مزدور کسان راج'' کا نعرہ بھی تھی۔ بھٹو نے جس وقت مزدور کسان راج کا نعرہ لگایا اس وقت مزدور ایوبی آمریت میں بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ امریکا نے پسماندہ ملکوںکے عوام میں سوشلزم کی مقبولیت کو روکنے کے لیے ان ملکوں کو ''کولمبو پلان'' کے تحت جو بھاری اقتصادی امداد دینی شروع کی ایوب خان نے اس امداد سے ملک میں صنعتیں لگانا شروع کیں لیکن اس امداد کی ایک غیر اعلانیہ شرط یہ تھی کہ ٹریڈ یونین کو کچلا جائے۔ سو ایوب خان نے ٹریڈ یونین کو بے رحمی سے کچلنا شروع کیا۔ ان مظالم سے لیبر ڈپارٹمنٹ قطعی لاتعلق رہتا تھا ۔ اس ظلم و جبر کے ماحول میں جب بھٹو نے مزدور کسان راج کی بات کی تو مزدوروں میں ایک نیا جوش، نیا ولولہ پیدا ہوا اور مزدور، کسان بھٹو کے گرویدہ ہوتے گئے۔

ایوب خان کے دور میں ٹریڈ یونین کی سرپرستی ترقی پسند جماعتوں کے کارکن کر رہے تھے، یہ دور سامراجی ملکوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے لیے بہت کٹھن تھا۔ سرمایہ دارانہ استحصال سے تنگ آئے ہوئے عوام تیزی سے سوشلزم کی طرف راغب ہو رہے تھے، دنیا کا 1/3 حصہ سوشلسٹ نظام کے زیر اثر آ گیا تھا، مزدور منظم ہو رہے تھے اور سامراجی ملکوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر مزدوروں کی قیادت مزدور طبقے کی طاقت کو منظم کر کے ایک مرکز پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ صورت حال سامراجی ملکوں کے لیے بڑی نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے سامراجی ملکوں نے مزدور قیادت پر لادینیت کے جو الزامات لگانے کا منظم سلسلہ شروع کیا اس کا مقصد مزدوروں کو قیادت سے بدظن کرنا تھا۔ اس مقصد کی خاطر امریکا نے ایسی ٹریڈ یونین قیادت کی سرپرستی شروع کی جو ترقی پسندی کے حوالے سے سامراجی فلسفے اور سازش سے متفق تھی، عوام میں ترقی پسند طاقتوں کے خلاف پروپیگنڈے میں لفظ کمیونسٹ ایک بڑے اور موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

اگر کسی مغربی ملک کا کوئی حکمران پاکستان کے دورے پر آتا تو اس کے دورے سے پہلے زندگی کے ہر شعبے میں موجود ''کمیونسٹوں'' کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا۔ سیفٹی ایکٹ کے ظالمانہ قانون کے تحت ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا، لفظ کمیونسٹ کو ایک گالی بنادیا گیا تھا۔ اس حوالے سے مرحوم ابراہیم جلیس ایک دلچسپ واقعہ سناتے تھے، وہ ان دنوں لاہور میں تھے اور کمیونسٹوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ پولیس کے سپاہی ابراہیم جلیس کو تلاش کرتے ہوئے ان تک پہنچ گئے اور انھیں گرفتار کرنے لگے۔ ابراہیم جلیس نے گرفتاری کی وجہ پوچھی تو پولیس کے سپاہیوں نے جواب دیا ''تم کمیونسٹ ہو اس لیے ہم تم کو پکڑ رہے ہیں''۔ ابراہیم جلیس پر مزاح شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے پولیس کے سپاہیوں سے کہا ''یار! میں تو اینٹی کمیونسٹ ہوں'' پولیس کے سپاہیوں نے کہا ''اینٹی کمیونسٹ ہو یا پینٹی کمیونسٹ، ہو تو کمیونسٹ ہی ناں''۔ ابراہیم جلیس یہ واقعہ دہراتے اور مزے لیتے تھے۔


بات چلی تھی ایوب خان کے دور میں مزدوروں اور ٹریڈ یونین پر ریاستی اور غیر ریاستی مظالم کی، مزدور ان مظالم سے اس قدر مشتعل تھے کہ وہ اس کا حساب چکتا کرنا چاہتے تھے، بھٹو کے مزدور کسان راج کے نعرے نے مزدوروں کو اور زیادہ توانائی فراہم کی، ایوب خان کے خلاف 1968ء میں جب عوامی تحریک چلی تو مزدور اس تحریک کا اہم حصہ بن گئے، بلکہ ایوب خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔ جب ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی اور یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو اس نے بھی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا۔ ہزاروں کی تعداد سیاسی کارکنوں مزدوروں طلبا کو گرفتار کر کے سرسری سماعت کی ملٹری کورٹس سے سزائیں دلوائی گئیں۔ جب 71ء کے سانحے کے بعد بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو عشروں سے مزدوروں کے ذہنوں میں پکنے والا لاوا پھٹ پڑا اور مزدور یونین اس قدر طاقتور ہو گئیں کہ مالکان یونینوں کی مرضی کے بغیر مِلوں اور کارخانوں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

عشروں حکومتوں اورمالکان کے مظالم سہنے والے محنت کشوں کا یہ ردعمل فطری اور منطقی تھا۔ صنعتکار پیپلز پارٹی کی ایلیٹ اور بیوروکریسی کے ذریعے بھٹو اور ان کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر بے لگام مزدوروں کو ایک سخت آپریشن کے ذریعے لگام نہ دے گی تو ملک میں صنعتی ترقی رک جائے گی۔ یہ لابنگ زوروں پر تھی ایک دن میں اس وقت کے وزیر محنت عبدالستار گبول کے پاس بیٹھا مزدور مسائل پر گفتگو کر رہا تھا اس گفتگو میں اس وقت کا کمشنر بھی شامل تھا (جو اب ٹی وی چینلوں پر ایک دانشور کی حیثیت سے جمہوریت کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے) عبدالستار گبول کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مزدوروں کے خلاف ایک سخت آپریشن کے بغیر مزدوروں کو قابو نہیں کیا جاسکتا، مجھ سمیت کئی مزدور رہنما حکومت کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مزدوروں کا ردعمل فطری ہے آہستہ آہستہ مزدور نارمل ہو جائیں گے۔ لیکن اینٹی لیبر لابی کامیاب ہو گئی اور مزدوروں کے خلاف ریاستی جبر کے جو مظاہرے کیے گئے بھٹو کے مزدور کسان راج کے نعرے اس ریاستی جبر کے پیروں تلے کچلے گئے۔ مزدور بھٹو حکومت سے بدظن ہو گئے۔ اور یہ بدظنی بھٹو حکومت کا بہت بڑا نقصان ثابت ہوئی۔

بلاول بھٹو اپنے نانا کی وراثت کا دعویدار ہے، بھٹو نے وراثت میں مزدور طبقے کی زبوں حالی اور ٹریڈ یونین کی تباہی چھوڑی ہے۔ آج کا مزدور شکاگو تحریک 1886ء کے مزدور طبقے سے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔ ملوں، کارخانوں میں ٹریڈ یونین کا نام لینا ایسا گناہ ہے جس کی سزا برطرفی ہے، کسی مل یا کارخانے میں سرے سے کوئی ٹریڈ یونین موجود نہیں، اگر کہیں کوئی یونین ہے تو وہ پاکٹ یونین ہے ۔ ٹھیکیداری نظام نے مزدوروں کو غلاموں سے بدتر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان مزدوروں کے سرے سے کوئی حقوق ہی نہیں۔ حتیٰ کہ ان کی اجرتیں بھی ٹھیکیدار وصول کرتا ہے اور اپنی مرضی سے کچھ حصہ مزدوروں کے خاندانوں کو بھیج دیتا ہے، باقی خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ ٹھیکیداری مزدوروں کے حقوق کا ذکر تو چھوڑیے صورت حال یہ ہے کہ انھیں ملوں سے باہر ہی نکلنے نہیں دیا جاتا، ان کی بنیادی ضرورتیں ملوں کے اندر ہی پوری کر دی جاتی ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے وہ صنعتی غلام ہیں جو ملوں، کارخانوں کی جیلوں میں بند ہیں ان کے کوئی اوقات کار نہیں جب ضرورت ہوتی ہے انھیں نیند سے جگا کر مشینوں پر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو نانا کے سیاسی وارث ہیں، چونکہ ہمارے ملک میں سیاست اور اقتدار موروثی ملکیت بن گیا ہے اس لیے ہم بلاول کو اس نظام سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے لیکن اس موروثی سیاست دان کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ بھٹو نے جہاں وراثت میں بلاول، بختاور، آصفہ وغیرہ کو چھوڑا ہے وہیں بھٹو نے مزدور طبقے کی زبوں حالی ٹریڈ یونین کی تباہی اور مزدور کسان راج کا نعرہ بھی وراثت میں چھوڑا ہے۔ بلاول جن ایشوز پر سیاست کر رہے ہیں وہ نان ایشوز ہیں، ثقافتی میلوں کی اہمیت سے انکار نہیں کہ نظریاتی محاذ پر شدت پسندی کے خلاف ثقافتی محاذ پر سرگرمی ایک مثبت اقدام ہے لیکن اگر بلاول عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے تو بلاول کو نانا کے اس ورثے کی طرف آنا ہو گا جو مزدور طبقے کی زبوں حالی، ٹریڈ یونین کی تباہی اور مزدور کسان راج کی شکل میں بھٹو نے چھوڑا ہے۔ مزدور کسان راج تو بہت دور کی بات ہے اگر بلاول اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو کم ازکم مزدوروں کے حقوق کی اور ٹریڈ یونین کی بحالی اور زرعی اصلاحات سے بلاول بھٹو کو شروعات کرنا پڑے گی۔ بلاول نے اگر ایسا کیا تو وہ بھٹو کی کوتاہیوں کا ازالہ بھی ہو گا اور سیاست میں اپنی درست جگہ بنانے کا ذریعہ بھی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تیونس، لیبیا اور مصر کی تاریخ دہرائی جائے گی اور کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں رہے گا۔
Load Next Story