شکستہ کشتی اور ساحل کی تمنا…
کسی نے کیا خوب کہا کہ تڑپے نہ اگر موج تو گوہر نہیں بنتے، ترشے نہ اگر سنگ تو پیکر نہیں بنتے
ہم نے ریوڑیوں کا ذکر بچپن میں اردو کی کتاب میں پڑھا، لکھا اور دیکھا تھا، اور ان ہی ایام طفلی میں تلاش بسیار کے بعد منکشف ہوا، ریوڑی کھانے کی کوئی میٹھی چیز ہوتی ہے جیسے اردو محاورے کے لحاظ سے اندھے بانٹتے ہیں اور گھوم پھر کر صرف ''اپنوں'' کو ہی دیتے ہیں۔ اول تو چیں بہ جبیں ہم اس بات پر ہوتے تھے کہ بھلا اندھے کیونکر بانٹتے ہیں؟ اور اگر بالفرض بانٹتے ہیں بھی تو اقربا پروری کا جذبہ آخر ان میں اس درجہ بہ اتم کیوں موجود ہے؟ تحقیق کے متقاضی، اس مسئلے کے بار کو ہم اہل مغرب کے کاندھوں پر لاد دیتے ہیں، جو بلامبالغہ اس میدان کے شہ سوار ہیں۔ رہی بات ہماری تو اس ہنگامہ پرور دنیا میں اور بھی غم ہیں تحقیق کے سوا۔ ہماری سہل پسندی کہ اس قدر دقیق علمی کام سے پنجہ آزمائی سے گریز کرنے پر مجبور ہیں، اپنے اس گریز کو شرم پر محمول کرتے ہوئے اور جھینپ مٹانے کی غرض سے وزرا و سفرا میں تحقیقی ڈگریاں یعنی پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری بلاامتیاز تقسیم کرنے کی بدعت کا آغاز کرچکے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ بالکل ریوڑیوں کی طرح!
بات ڈگری اور ریوڑی کی ہے تو سوائے اس کے کہ دونوں صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی اور مماثلت نہیں۔ لیکن ان دونوں کی کنڈلیاں ملانے میں اگر کسی کو ملکہ حاصل ہے تو وہ ہے ہمارا انتظامی ڈھانچہ!
سال گزشتہ یا اس سے بھی گزشتہ کسی سال میں ہمیں یاد ہے نیم کا جھونکا تو ہرگز نہ تھا، کوئی شہاب ثاقب ہی تھا تو دندناتا ہوا اس وقت ہمارے سر پر گرا جب ایک سابق وزیر کو ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری سے نوازا گیا۔ اگر ڈگری صرف ڈاکٹریٹ کی ہوتی تو سوال سد راہ ہوتا کہ بھلا کس قسم کے ڈاکٹر؟ انسانوں کے یا۔۔۔؟ لیکن ڈگری دیتے ہاتھوں میں جب شہر کراچی کی ایک مستند درسگاہ کے وائس چانسلر کے دست اقدس کو پایا تو صدمے کی زیادتی سے گنگ ہوگئے۔ حسن یوسف کو دیکھ کر اگر مصر میں انگشت زنان کٹی تھیں تو یہاں اس دلخراش منظر پر ہم سراپا ''انگشت بدنداں'' تھے۔ ڈگری دینے کی کسوٹی کیا تھی؟ ہنوز دلی دور است کی طرح اس کے جواب سے محروم ہیں اور شاید محروم ہی رہیںگے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام، سالہا سال سے بس سلگ ہی رہا ہے، کچھ عجب ہواؤں کا سامنا ہے کہ شعلے سے زیادہ دھواں اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مرد قلندر اصلاح کی غرض سے آگے بڑھتا بھی ہے تو ''تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا'' کہہ کر یا تو خود پیچھے ہٹ جاتا ہے یا پھر اسے رفو چکر کردیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ڈگریوں کی صورت میں یہ التفات؟ انحطاط کا کون سا مقام ہے؟ فکر و عمل میں کجی پیدا کردی گئی ہے۔
اکثر احباب شکوہ کناں رہتے ہیں کہ پاکستان کے سند یافتہ طالب علموں کی بیرونی دنیا میں کوئی خاص قدر نہیں۔ ہم سے پوچھیے تو اس قسم کے ڈاکٹروں کی ہونی بھی نہیں چاہیے۔ وہ کیا ہے کہ ساری رات قصہ لیلیٰ و مجنوں سنا مگر صبح کمال معصومیت سے پوچھ بیٹھے بھلا لیلیٰ مرد تھی یا عورت؟ بالکل ایسے ہی جنھیں بار بار دہرانے پر بھی سورۃ اخلاص یاد نہ آکر دی، انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تھمادی گئی؟ آ۔۔۔ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں!
ہمیں صاحب اختیار افراد سے کوئی ایسا حسن ظن تو نہیں تھا مگرحیرت اس وقت ہوئی جب صاحب اختیار کا محترم چہرہ ایک عدد مخصوص ٹوپی کے نیچے ملاحظہ فرمایا۔ غور کرنے پر پوری خبر نظر آئی کہ جہاں سیوہ اپنی طالب علمی کے بعد فارغ التحصیل ہوئے تھے، وہیں سے انھیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دے کر سرفراز فرمایا گیا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید ہضم بھی ہوجاتی لیکن یہ سلسلہ تو ڈرون حملوں کی طرح جاری رہا۔ مانا کہ ملک کا لٹریسی ریٹ کچھ حوصلہ افزا نہیں مگر ایسا بھی کیا کہ یکے بعد دیگرے پارلیمانی وزرا بھی اس فہرست میں شامل ہونے لگے۔ داغ دل پوری طرح دھلے بھی نہ تھے کہ 2 فروری کے اخبار میں سعودی فرمانروا کی تصویر اور ساتھ جڑی خبر گویا بریکنگ نیوز ثابت ہوئی۔ تفصیلات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان کی گوناگوں خدمات کے صلے میں انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ مانا کہ رموز مملکت خویش خسرواں دانند مگر ان تمام نامی گرامی شخصیات کو یہ اعزاز آخر کس سلسلے میں دیا گیا ہے؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ ملک میں تاحال ایسی نابغہ روزگار شخصیات موجود ہیں جو حقیقتاً اس اعزاز کی نہ صرف مستحق ہیں بلکہ ان کی اس طرح عزت افزائی خود طالب علموں کے لیے مشعل راہ ہوگی۔
جہاں تک بات طالب علموں کی ہے تو ہم نے سنا تھا کہ اس دشت کی سیاحی میں رنگنے کے لیے امیدواروں کا جم غفیر انٹری ٹیسٹ کے لیے حاضر ہوتا ہے مگر اکثریت کو سند قبولیت شاید اس لیے نہیں بخشی جاتی کہ اگر ان کو ڈگری دے دی جائے گی تو سرکاری وزرا کو دینے کے لیے ڈگری کہاں سے لائیں گے؟ غالب گمان ہے کہ خود ڈگریوں کی قلت کا سامنا پڑجائے گا کہ کاغذ بھی خاصا مہنگا ہے۔ علاوہ ازیں، ان نوجوانوں کو تو اعلیٰ یا ادنیٰ دونوں ڈگریاں لے کر بھی لور لور ہی پھرنا ہے۔ بہت بہت ہوا تو کسی سفارشی کے ذریعے یا بہ اذن خدا کسی اچھی پوسٹ پر متمکن ہوجائیں گے ورنہ تو ہیروئن کے نشے میں چور کسی سڑک کے کنارے گرے ہوئے پائے جائیں گے یا کسی جوئے خانے میں ساری جمع پونجی لٹا کر خودکشی کرلیں گے۔ اگر یہ بھی نہ ہوا تو غم جاناں میں الجھ کر دس بارہ شادیاں بھگتا لیں گے۔ بہرحال یہ بات تو حیطہ امکان میں ہے کہ نوازے جانے کا یہ فیشن خاص جان لیوا ہے اور تعلیم کی اساس کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا اور اگر باقاعدگی سے یہ بے قاعدگیاں جاری رہیں تو علم کے پیاسے مجبور ہوجائیں گے کہ ڈگری چھوڑ کر بیلچے اٹھالیں۔ شاید اس لیے بھی کہ مفکر پاکستان نے اشارہ فرمایا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ نہیں تو یہ سہی!
وہ کسی نے کیا خوب کہا کہ تڑپے نہ اگر موج تو گوہر نہیں بنتے، ترشے نہ اگر سنگ تو پیکر نہیں بنتے، بالکل ایسے ہی پی ایچ ڈی صرف چار پانچ سال کی جہد مسلسل کا نام نہیں، ہر سال سیکڑوں ہی مسافر طلب علم کے لیے رخت سفر باندھتے ہوں گے مگر ان میں سے چند ایک ہی ہوتے ہیں جو سال ہا سال کی عرق ریزی کے بعد اس مقام تک پہنچتے ہیں کہ ''ڈاکٹر'' یا ''اسکالر'' کہلائے جائیں۔ اس سے عہدہ برآ ہونا اس قدر آسان بھی نہیں۔ وزرا میں سے اکثر کہ جن کی گریجویشن کی ڈگری جعلی نکلے یا جن کی نااہلی ان کی تعیناتی کے قلیل عرصے میں ہی عیاں ہوجائے، انھیں اس اعلیٰ تعلیمی ڈگری سے نوازے جانا، اس ڈگری کی توہین اور اس کی حرمت کے منافی تو ہے ہی، ساتھ ہی طالب علموں کے ساتھ بدترین ناانصافی بھی ہے۔
تحقیق کرنا اور محقق بننا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی سرمایہ دار اپنی تمام تر جمع پونجی، اپنا سارا سرمایہ صرف کردے۔ اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کے اس شعبے کو اب بھی تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو بہت ممکن ہے آیندہ آنے والے وقتوں میں یہ مساعی یکلخت مفقود ہوجائے اور سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ لگانا ہی چھوڑدیں کہ سایوں کے پیچھے بھاگنا بھی کوئی نادانی سی نادانی ہی ہے۔
آپ ہی بتائیں، اب ایسی شکستہ کشتی میں ساحل کی تمنا کون کرے؟