انصاف کا راستہ مشکل
اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کا معاملہ آزادی کے بعد سے ہی ایک کشمکش کا شکار رہا ہے
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کا معاملہ آزادی کے بعد سے ہی ایک کشمکش کا شکار رہا ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس طیب علی تھے، مگر اس وقت سینئر ترین جج لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالرشید تھے لہٰذا انھیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔
عوامی مورخ اختر بلوچ کی تحقیق کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس طیب علی کو بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح سے حلف لینے کا عندیہ دیا گیا تھا، مگر حلف لینے کا اعزاز جسٹس عبدالرشید کو حاصل ہوا۔ جسٹس عبد الرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشین کی تقرری کا مرحلہ آیا۔اس وقت مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے، وہ کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔
سینارٹی کے اصول کے مطابق انھیں پاکستان کا نیا چیف جسٹس ہونا چاہیے تھا مگر گورنر جنرل غلام محمد نے ان کا راستہ روکنے کے لیے انوکھی ترکیب نکالی ، موصوف نے ملکہ برطانیہ کو بذریعہ خط درخواست کی کہ کسی انگریز جج کو پاکستان بھیجا جائے تاکہ اسے نئی ریاست پاکستان کا چیف جسٹس مقررکیا جائے۔ جسٹس اکرم کو معلوم ہوا تو انھوں نے بہتر جانا کہ انگریز جج کے پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ رضا کارانہ طور پر اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں ، یوں گورنر جنرل غلام محمد نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج جسٹس منیر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
یوں سینارٹی کا اصول نظر انداز کردیا گیا۔ جسٹس منیر کا دور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد نہیں کیا جاتا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے سینئر رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اور ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیا مگر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے اس حکم کو درست قرار دے دیا ، یوں مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے سائے گہرے ہونے لگے۔
1958 میں صدر اسکندر مرزا نے 1956کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا ء نافذ کیا تو فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا ۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو زبردستی برطانیہ بھیجوا دیا اور خود صدر کے عہدے پر بھی فائز ہو گئے۔ جسٹس منیر نے جنرل ایوب کے مارشل لاء کو بھی قانونی جواز مہیا کیا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے منظور نظر قانون دان قادر خان کی خواہش پر انھیں ڈھاکا ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔کچھ عرصے پر اس عہدے پر قائم رہے پھر ان کا دل نہیں لگا اور وہ مستعفیٰ ہوگئے۔
ایوب خان نے جسٹس اے آر کیانی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جو طویل عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سینیارٹی کے اصول کو نظر اند از کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان یعقوب خان کے عہدے کی میعاد بڑھا دی۔ بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مولوی مشتاق کو چیف جسٹس نہیں بنایا۔
جنرل ضیاء الحق نے پی سی اوکے تحت حلف نہ اٹھانے والے جسٹس دراب پٹیل اور فخرالدین جی ابراہیم ، بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس خدا بخش مری سمیت کئی درجن ججوں کو برطرف کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف انوار الحق نے پہلے مارشل لاء کو قانونی جواز دیا اور اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے حکومت کے دباؤ کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق وزیر اعظم بھٹو کو موت کی سزا دی تھی۔
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اپنے انتقال سے پہلے اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ فوجی حکومت کے دباؤ پر بھٹوکی سزا موت کے خلا ف نظر ثانی کی اپیل مسترد کی گئی تھی ، جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کو جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا ۔ ملک کے نامورجج جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا کر وفاقی شریعت کورٹ کا جج مقررکیا گیا۔ بقول ناصر اسلم زاہد مہینوں ان کے پاس کوئی کام نہ تھا۔
بے نظیرکے دوسرے دور میں سپریم کورٹ کی فل بینچ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں چیف جسٹس کی تقرری کو سینیارٹی سے منسلک کیا۔ اس فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کے سینئر ججوں نے اپنے جونئیر جسٹس کے خلاف بغاوت کی اور سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس سعید الزمان صدیقی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔
جنرل مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور خود ساختہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے ایک دفعہ پھر عدالتوں میں پی سی او نافذ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی ، جسٹس ناصر اسلم زاہد ، جسٹس وجیہہ الدین احمد، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رشید رضوی سمیت خاصے ججوں کو رخصت کر دیا۔ نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی قیادت میں فل بینچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو قانونی جواز فراہم کیا اور پرویز مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا تھا جس کے بعد میں خاصے برے نتائج نکلے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عہدے سے معزولی کو سپریم کورٹ کی فل بینچ نے غیر قانونی قرار دیا۔ وکلاء نے مشرف کے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے صدر کے عہدے کے لیے انتخابات لڑنے کے لیے انھیں نا اہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی تو جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ججوں کو ایک بار پھر رخصت کر دیا گیا جس کے نتیجے میں وکلاء کی ایک تحریک چلی اور عدلیہ کا ایک نیا کردار سامنے آیا جس کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کو سینیارٹی سے منسلک کرنے سے یہ بات طے ہوگئی کہ سینیارٹی کی بنیاد پر کون سے جج کب اس عہدے پر فائز ہوں گے۔
عوامی مورخ اختر بلوچ کی تحقیق کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس طیب علی کو بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح سے حلف لینے کا عندیہ دیا گیا تھا، مگر حلف لینے کا اعزاز جسٹس عبدالرشید کو حاصل ہوا۔ جسٹس عبد الرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشین کی تقرری کا مرحلہ آیا۔اس وقت مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے، وہ کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔
سینارٹی کے اصول کے مطابق انھیں پاکستان کا نیا چیف جسٹس ہونا چاہیے تھا مگر گورنر جنرل غلام محمد نے ان کا راستہ روکنے کے لیے انوکھی ترکیب نکالی ، موصوف نے ملکہ برطانیہ کو بذریعہ خط درخواست کی کہ کسی انگریز جج کو پاکستان بھیجا جائے تاکہ اسے نئی ریاست پاکستان کا چیف جسٹس مقررکیا جائے۔ جسٹس اکرم کو معلوم ہوا تو انھوں نے بہتر جانا کہ انگریز جج کے پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ رضا کارانہ طور پر اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں ، یوں گورنر جنرل غلام محمد نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج جسٹس منیر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
یوں سینارٹی کا اصول نظر انداز کردیا گیا۔ جسٹس منیر کا دور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد نہیں کیا جاتا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے سینئر رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اور ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیا مگر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے اس حکم کو درست قرار دے دیا ، یوں مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے سائے گہرے ہونے لگے۔
1958 میں صدر اسکندر مرزا نے 1956کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا ء نافذ کیا تو فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا ۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو زبردستی برطانیہ بھیجوا دیا اور خود صدر کے عہدے پر بھی فائز ہو گئے۔ جسٹس منیر نے جنرل ایوب کے مارشل لاء کو بھی قانونی جواز مہیا کیا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے منظور نظر قانون دان قادر خان کی خواہش پر انھیں ڈھاکا ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔کچھ عرصے پر اس عہدے پر قائم رہے پھر ان کا دل نہیں لگا اور وہ مستعفیٰ ہوگئے۔
ایوب خان نے جسٹس اے آر کیانی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جو طویل عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سینیارٹی کے اصول کو نظر اند از کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان یعقوب خان کے عہدے کی میعاد بڑھا دی۔ بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مولوی مشتاق کو چیف جسٹس نہیں بنایا۔
جنرل ضیاء الحق نے پی سی اوکے تحت حلف نہ اٹھانے والے جسٹس دراب پٹیل اور فخرالدین جی ابراہیم ، بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس خدا بخش مری سمیت کئی درجن ججوں کو برطرف کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف انوار الحق نے پہلے مارشل لاء کو قانونی جواز دیا اور اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے حکومت کے دباؤ کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق وزیر اعظم بھٹو کو موت کی سزا دی تھی۔
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اپنے انتقال سے پہلے اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ فوجی حکومت کے دباؤ پر بھٹوکی سزا موت کے خلا ف نظر ثانی کی اپیل مسترد کی گئی تھی ، جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کو جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا ۔ ملک کے نامورجج جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا کر وفاقی شریعت کورٹ کا جج مقررکیا گیا۔ بقول ناصر اسلم زاہد مہینوں ان کے پاس کوئی کام نہ تھا۔
بے نظیرکے دوسرے دور میں سپریم کورٹ کی فل بینچ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں چیف جسٹس کی تقرری کو سینیارٹی سے منسلک کیا۔ اس فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کے سینئر ججوں نے اپنے جونئیر جسٹس کے خلاف بغاوت کی اور سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس سعید الزمان صدیقی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔
جنرل مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور خود ساختہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے ایک دفعہ پھر عدالتوں میں پی سی او نافذ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی ، جسٹس ناصر اسلم زاہد ، جسٹس وجیہہ الدین احمد، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رشید رضوی سمیت خاصے ججوں کو رخصت کر دیا۔ نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی قیادت میں فل بینچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو قانونی جواز فراہم کیا اور پرویز مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا تھا جس کے بعد میں خاصے برے نتائج نکلے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عہدے سے معزولی کو سپریم کورٹ کی فل بینچ نے غیر قانونی قرار دیا۔ وکلاء نے مشرف کے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے صدر کے عہدے کے لیے انتخابات لڑنے کے لیے انھیں نا اہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی تو جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ججوں کو ایک بار پھر رخصت کر دیا گیا جس کے نتیجے میں وکلاء کی ایک تحریک چلی اور عدلیہ کا ایک نیا کردار سامنے آیا جس کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کو سینیارٹی سے منسلک کرنے سے یہ بات طے ہوگئی کہ سینیارٹی کی بنیاد پر کون سے جج کب اس عہدے پر فائز ہوں گے۔