ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا کلچر

تمام تنخواہ دار طبقہ کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرائے صرف تنخواہ سے ٹیکس کٹوانا کافی نہیں ہے


مزمل سہروردی January 19, 2022
[email protected]

الیکشن کمیشن نے ایف بی آر کو اپنے آمدن اثاثوں اور ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کرانے پر 150ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

ویسے تو ایسا ہر سال ہوتا ہے، ارکان پارلیمنٹ اپنے ٹیکس گوشوارے بروقت جمع نہیں کراتے ،پھر الیکشن کمیشن ان کی رکنیت معطل کرتا ہے اور پھر یہ سب اپنی رکنیت بحال کرانے کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرا دیتے ہیں، اﷲ اﷲ خیر صلا۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرانے والوں کے نام میڈیا میں آگئے ہیں، اس لیے نام دوبارہ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ گوشوارے جمع نہ کرانے والوں میں کابینہ کے ارکان اور وزرائے ا علیٰ بھی شامل ہیں۔

اب جب کابینہ کے ارکان کی رکنیت معطل ہو گئی ہے تو میری رائے میں ان کی وزارت بھی ختم ہو گئی ہے کیونکہ وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی بنیاد پر ہی وزیر ہیں۔ وہ مشیر بن سکتے ہیں لیکن وزیر نہیں بن سکتے۔ وزیر اور وزیر اعلیٰ بننے کے لیے پارلیمنٹ کا رکن ہونا بنیادی شرط ہے۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو حکومتی وزرا کی نہ صرف اسمبلی کی رکنیت معطل ہوئی ہے بلکہ ان کی وزارتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ لیکن ماضی میں اسمبلی کی رکنیت معطل ہونے کے بعد بھی وزیر کام کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے رہیں گے۔ ہم اگر تنقید کریں تو ہمیں صاف جواب دیا جائے گا ،گزشتہ دور میں بھی تو ایسا ہی ہوتا تھا، تب آپ لوگ نہیں بولتے اور نہ لکھتے تھے لیکن آج ہماری دفعہ آپ کو بڑے اصول یاد آگئے ہیں۔ تنقید کو ایجنڈا قرار دیا جائے گا بلکہ الٹا ہم پر تنقید بھی کی جائے گی۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ بروقت گوشوارے کیوں نہیں جمع کراتے؟ یہ کیوں ڈنڈے کے گاہک ہیں؟ جب رکنیت معطل ہوتی ہے تو گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ گوشوارے جمع کرانے کی حتمی تاریخ تو کب کی ختم ہو چکی ہے۔ جس جس نے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے ایف بی آر نے انھیں فائلر سے نان فائلر قرار دے رکھا ہے او ر ان کو نوٹس بھی بھجوا رکھے ہیں، ان کی فائلر کی مراعات بھی ختم کر رکھی ہیں۔ جب عام ٹیکس پیرز شہریوں کے لیے بروقت گوشوارے جمع نہ کرانے کی سزا ہے، تو ارکان پارلیمنٹ کو سزا کیوں نہیں ملتی۔

ان سے رعایت کیوں کی جاتی ہے۔ ہمیں جواب یہ ملے گا کہ اسمبلی کی رکنیت معطل کردی جاتی ہے اور کیا سزا دی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کوئی سزا نہیں ہے کہ جس دن ارکان اسمبلی اپنے گوشوارے جمع کرائیں، اسی وقت ان کی رکنیت بحال کر دی جائے۔ اس لیے اس سزا کو ارکان پارلیمنٹ کوئی سزا نہیں سمجھتے اور نہ ہی کوئی شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اس لیے کھیل کو بدلنا ہوگا۔ سزا کی نوعیت کو بدلنا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو ان کی رکنیت دوبارہ بحال نہیں کرنی چاہیے۔ ایک دفعہ جس کی رکنیت معطل ہو گئی تو سمجھیں ختم ہو گئی۔ اس نے اگر دوبارہ پارلیمنٹ میں آنا ہے تو دوبارہ انتخاب لڑ کر ہی آئے۔ بروقت گوشوارے جمع کرانے کی سزا اور قیمت بھاری ہونی چاہیے کیونکہ ارکان پارلیمنٹ خود کو عوام کا نمایندہ کہتے ہیں،ٹیکس دینے والے عوام کے پیسوں سے اپنی تنخواہیں، مراعات لیتے ہیں، استحقاق بھی تسلیم کراتے ہیں، یہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے، اس لیے رکنیت معطلی اور بحالی کی میوزیکل چیئر ختم ہونی چاہیے۔

الیکشن کمیشن کو حکومت کے ساتھ ملکر یہ اصلاحات کرنی چاہیے کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر رکنیت معطل ہو گئی تو بحال نہیں ہوگی بلکہ ری الیکشن ہوگا۔ ویسے تو میں اس حق میں بھی ہوں کہ ایک دفعہ کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے بھی نا اہلی ہونی چاہیے لیکن دوست کہیں گے کہ پاکستان میں نا اہلی کا ڈراما فلاپ ہو چکا ہے اور عوام نے بھی نا اہلی کے ڈرامے کو کوئی زیادہ پسند نہیں کیا، اس لیے کم از کم دوبارہ انتخاب لڑنے کی شرط ہونی چاہیے۔ اگر کسی کو رکنیت کے معطل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو اسے دوبارہ انتخاب لڑنے اور عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ عوام دوبارہ منتخب کر دیں تو دوبارہ آجائیں۔ لیکن عوام کی عدالت میں پیش ہونا لازمی ہونا چاہیے۔ تا کہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ گوشوارے جمع نہ کرانے پر ملزم ان کے سامنے پیش ہوا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ طاقتور لوگ ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اپنی آمدنی اور اثاثے بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔موجودہ حکومت سمیت تمام حکومتیں اس میں ناکام ہوئی ہیں۔ ہم نے ارکان پارلیمنٹ کو تو ایسے ہی تختہ مشق بنا لیا ہوا ہے۔ حالانکہ احتساب کی چکی میں سب سے زیادہ وہ گزرتے ہیں۔وہ پاکستان کے مسائل کی بنیاد نہیں ہیں لیکن انھیں بنیاد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں جمہوریت دشمن قوتوں کا بھی کمال ہے۔لیکن اس میں ان کا اپنا بھی قصور ہے، جب انھیں پتہ ہے کہ بروقت گوشوارے جمع نہ کرانے پر رکنیت معطل ہو جاتی ہے تو وہ کیوں نہیں بروقت جمع نہیں کراتے۔ کم از کم جن کی دو سال مسلسل معطل ہو ان کی تو آسانی سے دوبارہ بحال نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان کا تاجر بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ اس کو ٹیکس کلچر میں لایا جائے لیکن وہ تیار نہیں۔ یہ سوال اہم نہیں کہ آپ کا کاروبار بڑا ہے یا چھوٹا ۔ لیکن گوشوارے جمع کرانا سب کے لیے لازم ہونا چاہیے۔ آپ کم کماتے ہیں یا زیادہ کماتے ہیں ٹیکس گوشوارہ جمع کرانا لازمی ہونا چاہیے۔ آپ کی آمدن جو بھی ہے آپ کو سرکار بتانی چاہیے۔ چھپانے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میری رائے میں تو شہریت کی شرط میں فائلر ہونا بھی لازمی ہونا چاہیے، اگر کوئی بالغ شہری گوشوارہ نہیں جمع کرانا چاہتا تو اسے اس کی وجہ بتانے کا بھی پابند ہونا چاہیے۔ بے روزگار کو بھی گوشوارہ جمع کرانے کا پابند ہونا چاہیے۔ وہ اس میں لکھے وہ بے روزگار ہے۔ اس لیے اس کی کوئی آمدن نہیں۔ لیکن جمع نہ کرانے کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔

تنخواہ دار طبقے کا انکم ٹیکس ان کی تنخواہ سے کٹ جاتا ہے۔ پاکستان میں قانون ہے کہ انکم ٹیکس کٹ کر تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن ہم نے دیکھاہے کہ تنخواہ سے ٹیکس کٹوانے کے باوجود لوگ ٹیکس گوشوارے نہیں بھرتے۔ کوئی ان سے سوال کرے کہ جب آپ نے اپنی آمدن پر ٹیکس دے دیا ہے تو پھر گوشوارے نہ بھرنے کا کیا جواز ہے۔

حکومت کو تمام تنخواہ دار طبقہ کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرائے صرف تنخواہ سے ٹیکس کٹوانا کافی نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت نے پچاس ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ لوگ اس سے بچنے کی راہ نکال رہے ہیں۔ لیکن اب لوگوں کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ شناختی کارڈدینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سب ردی کی ٹوکری میں ہی جاتے ہیں۔ سب ڈراما ہی نکلا ہے۔ این ٹی این نمبر کی اہمیت کو بڑھانا ہوگا۔

اس لیے نان فائلر کے لیے پچاس ہزار سے زیادہ خریداری پر پابندی ہونی چاہیے۔ انھیں کہا جائے کہ پہلے ٹیکس گوشوارے جمع کرائیںپھر آپ پچاس ہزار سے زائد کی کوئی بھی خریداری کر سکتے ہیں۔ تاجر پاکستان میں ٹیکس کلچر کو پروان نہ چڑھنے دینے کی جڑ ہیں۔ جب بھی ان سے گوشوارے اور ٹیکس لینے بات ہوتی ہے یہ احتجاج کرتے ہیں۔ سب حکومتیں ان کے سامنے ناکام نظر آئی ہیں۔ مارشل لاء حکومتیں بھی ناکام نظر آئی ہیں۔

مشرف نے کوشش کی لیکن ہڑتالوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ حالانکہ وہ سنہری موقع تھا۔لیکن اب تاجروں سے ٹیکس لینے اور ان کوٹیکس کلچر میں لانے کے لیے ملک میں ٹیکس کا نیشنل ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔حکومت جو کوشش کر رہی ہے اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ یہ دلیل کوئی اہم نہیں عام تاجر پڑھا لکھا نہیں، اس لیے گوشوارے جمع نہیں کرا سکتا۔

کاروبار کر سکتا ہے تو گوشوارے بھی جمع کرا سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے، سب سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست سے بالاتر ہو کر دستخط کریں۔ اس میں ٹیکس نہ دینے اور گوشوارے نہ جمع کرانے کی سخت سزا ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔