عیادت ایک عبادت
جب بھی کسی بیمار کی عیادت کے لیے جاؤ خیر کے کلمات کہو
QUETTA:
کہتے ہیں کہ انسان کا سب سے اچھا دوست اس کی صحت ہے۔ اگر یہی محبوب اس سے روٹھ جائے تو وہ تمام رشتوں گویا دنیا بھر کےلیے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔
غالب نے بھی کہا تھا کہ تنگدستی اگر نہ ہو غالب، تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اب صحت مندی خواہ ذہنی ہو یا جسمانی، دونوں ہی ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بیماری میں ہمارا صبر اور لوگوں کے رویے ہیں۔
رویوں کی بات میں نے اس لیے کہی کہ عمومی طور پر جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ سب لوگ اس کےلیے دعا کریں اور دل میں بھی نیک خواہشات رکھیں، اس کے برعکس مریض کے سامنے بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کی جاتی۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں وقت تم نے ہمارے ساتھ یہ زیادتی کی تھی، جس کا بدلہ تمھیں تمھاری اس بیماری کی صورت میں ملا ہے یا یہ کہ فلاں بندے کو یہ بیماری ہوئی تھی وہ مرگیا، لہٰذا اب تم بھی نہیں بچو گے۔
بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ مریض کی تیمارداری کرنے کو بھی احسان سمجھا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ مرض سے نفرت کی جائے الٹا مریض سے ہی کراہیت محسوس کی جاتی ہے۔ مریض کے احساسات اور معاملے کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور منہ بسورے جاتے ہیں۔ چاہے وہ بے چارا پورے خاندان کے لیے کتنا ہی اچھا کیوں نہ رہا ہو، کتنا ہی اس نے صلہ رحمی کی ہو۔ لیکن اب جب وہ علالت کے باعث بے بس ہوچکا ہے تو پھر 'وہ کس کام کا اور کر بھی کیا سکتا ہے' کو مدنظر رکھ کر اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے تاکہ موت سے پہلے ہی وہ مر جائے۔
نفسیاتی طور پر مریض کا مورال بلند نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان جیتے جی ہی مر جاتا ہے۔ مریض پر طنز کے تیر چلانے والے کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہوتے ہیں، کیونکہ تکلیف ہمیشہ شریکوں کو ہی ہوتی ہے۔
فی زمانہ میں، آپ اور ہم سب، خوف خدا سے آزاد ہوچکے ہیں اور یہ ہمارا عمومی رویہ بن کر رہ گیا ہے کہ ہم مریض کا مورال بلند نہیں کرتے، اسے ہمت نہیں دلاتے، اس کے سامنے نازیبا باتیں کرتے ہیں اور کئی مرتبہ مریض کے سامنے جاکر اپنی بیماریوں اور مشکلات کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔
جبکہ ایک شخص جو پہلے ہی مصیبت زدہ ہے اس کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ کئی لوگوں کو میں نے دیکھا کہ جب بھی بیمار پرسی کےلیے گئے تو یہی فکر لاحق رہی کہ وہاں کھانے پینے کو کیا ملے گا۔ بلکہ اکثر لوگ تو یہی شکایت کرتے ہیں کہ مریض کو پوچھنے گئے تو چائے تک نہیں پوچھی گئی۔
حالانکہ اخلاق کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہی سوچ لیا جاتا کہ بیمار کے گھر والوں پر پہلے ہی کام کا بوجھ ہے، ان کی کچھ مالی امداد کی جائے یا پھل وغیرہ لے کر جایا جائے۔ اگر آپ کی اتنی بھی استطاعت نہیں ہے تو ایک مسکراہٹ کا تحفہ بھی کیا پیش نہیں کیا جاسکتا؟
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں ایک شخص موجود تھا اور نہایت تکبر سے کہنے لگا کہ میں تو کبھی بخار تک میں مبتلا نہیں ہوا۔ یہ سنتے ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی جانب سے منہ پھیر لیا اور کہا تمھیں خدا نے اس قابل بھی نہ سمجھا کہ تمھیں کسی آزمائش میں مبتلا کرکے خود کے قریب کرسکے۔
ام المومنین حضرت ام سلمیؓ سے روایت ہے کہ حضور پاکؐ نے فرمایا، جب بھی کسی بیمار کی عیادت کے لیے جاؤ خیر کے کلمات کہو کیونکہ فرشتے تمھاری دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بیماری کے طویل ہونے سے مت گھبراؤ کیونکہ مومن بیمار رہتا ہے تاوقتیکہ اس کے تمام تر گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
حدیث نبوی میں یہ بھی ہے کہ تم کسی مومن مسلمان کی تکلیف پر خوشی کا اظہار نہ کرو کیونکہ اللہ اس کو تو اس مصیبت سے نجات دے دے گا لیکن تمھیں اسی مصیبت میں گرفتار کردے گا۔
کسی بھی مرض میں مبتلا ہونا تو ایک امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔ ہمیشہ دوا کے ساتھ ساتھ دعا کا دامن بھی پکڑے رکھیں۔ لیکن خدارا اگر کسی کی مسیحائی نہیں کرسکتے تو اسے آزار بھی مت پہنچایئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کہتے ہیں کہ انسان کا سب سے اچھا دوست اس کی صحت ہے۔ اگر یہی محبوب اس سے روٹھ جائے تو وہ تمام رشتوں گویا دنیا بھر کےلیے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔
غالب نے بھی کہا تھا کہ تنگدستی اگر نہ ہو غالب، تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اب صحت مندی خواہ ذہنی ہو یا جسمانی، دونوں ہی ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بیماری میں ہمارا صبر اور لوگوں کے رویے ہیں۔
رویوں کی بات میں نے اس لیے کہی کہ عمومی طور پر جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ سب لوگ اس کےلیے دعا کریں اور دل میں بھی نیک خواہشات رکھیں، اس کے برعکس مریض کے سامنے بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کی جاتی۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں وقت تم نے ہمارے ساتھ یہ زیادتی کی تھی، جس کا بدلہ تمھیں تمھاری اس بیماری کی صورت میں ملا ہے یا یہ کہ فلاں بندے کو یہ بیماری ہوئی تھی وہ مرگیا، لہٰذا اب تم بھی نہیں بچو گے۔
بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ مریض کی تیمارداری کرنے کو بھی احسان سمجھا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ مرض سے نفرت کی جائے الٹا مریض سے ہی کراہیت محسوس کی جاتی ہے۔ مریض کے احساسات اور معاملے کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور منہ بسورے جاتے ہیں۔ چاہے وہ بے چارا پورے خاندان کے لیے کتنا ہی اچھا کیوں نہ رہا ہو، کتنا ہی اس نے صلہ رحمی کی ہو۔ لیکن اب جب وہ علالت کے باعث بے بس ہوچکا ہے تو پھر 'وہ کس کام کا اور کر بھی کیا سکتا ہے' کو مدنظر رکھ کر اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے تاکہ موت سے پہلے ہی وہ مر جائے۔
نفسیاتی طور پر مریض کا مورال بلند نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان جیتے جی ہی مر جاتا ہے۔ مریض پر طنز کے تیر چلانے والے کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہوتے ہیں، کیونکہ تکلیف ہمیشہ شریکوں کو ہی ہوتی ہے۔
فی زمانہ میں، آپ اور ہم سب، خوف خدا سے آزاد ہوچکے ہیں اور یہ ہمارا عمومی رویہ بن کر رہ گیا ہے کہ ہم مریض کا مورال بلند نہیں کرتے، اسے ہمت نہیں دلاتے، اس کے سامنے نازیبا باتیں کرتے ہیں اور کئی مرتبہ مریض کے سامنے جاکر اپنی بیماریوں اور مشکلات کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔
جبکہ ایک شخص جو پہلے ہی مصیبت زدہ ہے اس کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ کئی لوگوں کو میں نے دیکھا کہ جب بھی بیمار پرسی کےلیے گئے تو یہی فکر لاحق رہی کہ وہاں کھانے پینے کو کیا ملے گا۔ بلکہ اکثر لوگ تو یہی شکایت کرتے ہیں کہ مریض کو پوچھنے گئے تو چائے تک نہیں پوچھی گئی۔
حالانکہ اخلاق کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہی سوچ لیا جاتا کہ بیمار کے گھر والوں پر پہلے ہی کام کا بوجھ ہے، ان کی کچھ مالی امداد کی جائے یا پھل وغیرہ لے کر جایا جائے۔ اگر آپ کی اتنی بھی استطاعت نہیں ہے تو ایک مسکراہٹ کا تحفہ بھی کیا پیش نہیں کیا جاسکتا؟
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں ایک شخص موجود تھا اور نہایت تکبر سے کہنے لگا کہ میں تو کبھی بخار تک میں مبتلا نہیں ہوا۔ یہ سنتے ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی جانب سے منہ پھیر لیا اور کہا تمھیں خدا نے اس قابل بھی نہ سمجھا کہ تمھیں کسی آزمائش میں مبتلا کرکے خود کے قریب کرسکے۔
ام المومنین حضرت ام سلمیؓ سے روایت ہے کہ حضور پاکؐ نے فرمایا، جب بھی کسی بیمار کی عیادت کے لیے جاؤ خیر کے کلمات کہو کیونکہ فرشتے تمھاری دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بیماری کے طویل ہونے سے مت گھبراؤ کیونکہ مومن بیمار رہتا ہے تاوقتیکہ اس کے تمام تر گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
حدیث نبوی میں یہ بھی ہے کہ تم کسی مومن مسلمان کی تکلیف پر خوشی کا اظہار نہ کرو کیونکہ اللہ اس کو تو اس مصیبت سے نجات دے دے گا لیکن تمھیں اسی مصیبت میں گرفتار کردے گا۔
کسی بھی مرض میں مبتلا ہونا تو ایک امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔ ہمیشہ دوا کے ساتھ ساتھ دعا کا دامن بھی پکڑے رکھیں۔ لیکن خدارا اگر کسی کی مسیحائی نہیں کرسکتے تو اسے آزار بھی مت پہنچایئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔