کابل کے زمینی حقائق

اگر کوئی لکھاری اور ٹاک شو میں بیٹھا دانشور غیرجانبداری کا بھاشن دے رہا ہو تو یہ منافق اور خیانت کار کی نشانی ہے


[email protected]

LONDON: میں امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کے دوران مثالی امن و امان اور شریعت مطہرہ کے انوارات، بے سروسامانی کی حا لت میں اﷲ کے بھروسہ پر عالم کفر اور ان کے زرخرید غلاموں کے خلاف برسر پیکار طالبان کے افعانستان بارے میں 1998 سے لکھ رہا ہوں مگر اس پر اکثر لوگوں کی رائے ہوتی کہ میں ان کے بارے میں حسن ظن اور جانبداری سے کام لے رہا ہوں۔

مجھے یہ اقرار کرنے دیں کہ صرف اس معاملے میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں ہمیشہ جانبدار رہتا ہوں اور انشاء اللہ رہوںگا۔ میں غیرجانبداری کی لعنت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کیونکہ میرے شیخ و مرشد حضرت ڈاگئی باباجیؒ فرماتے تھے کہ مومن غیرجانبدار ہو ہی نہیں سکتا، وہ ہمیشہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ، جھوٹ کے خلاف اور سچ کے ساتھ، کفر کے خلاف اسلام کے ساتھ ہوگا یعنی ہمیشہ بدی کے خلاف اور نیکی کے ساتھ ہوگا۔

اگر کوئی لکھاری اور ٹاک شو میں بیٹھا دانشور غیرجانبداری کا بھاشن دے رہا ہو تو یہ منافق اور خیانت کار کی نشانی ہے، مومن اور امانتدار کی نہیں۔ جب میں نے اپنے موقف اور افعانستان پر لکھنے اور ٹاک شوز میں افعان امور کے مبینہ ماہرین میں اتنا تضاد دیکھا تو میں نے تہیہ کیا کہ میں اس بار اپنی بات کرنے کے بجائے کسی ایسے بندے جس کا طالبان کے ساتھ جذباتی تعلق اور نہ میری طرح مدارس سے جڑا ہوا ماضی اور حال ہو، وہ مجھے افعانستان میں اپنے آنکھوں دیکھا حال بتا دے تو ان ہی کے الفاظ تبدیلی کے قارئین کے لیے پیش کروں گا۔

پچھلے دنوں جب میں نے سنا کہ اسلام الدین ساجد کابل میں موجود ہیں تو واپسی پر میں نے ان سے رابطہ کیا۔ اسلام الدین ساجد آج کل ترکی کی بین الااقوامی نیوز ایجنسی انادولو کے ایشیاء فیسیفک کے ریجنل چیف ہیں۔ وہ ماضی میں روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز کے رپورٹر و سنیئر پروڈیوسر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وائس آف امریکا اور ٹی آر ٹی ورلڈ ٹی وی کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ وہ فرماتے ہیں:

افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد مغربی میڈیا پر افغانستان کا چہرہ جس انداز سے پیش کیا گیا اس کو پڑھ کر میرا بھی ایک ذہن بن گیا تھا کہ افغانستان میں حالات امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب افغانستان انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہوگا۔

چھ دسمبر 2021 کو کابل ایئرپورٹ سے نکلتے ہی ہم ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے، راستے میں ڈرائیور سے میرا پہلا سوال یہی تھا کہ بھائی کابل کی صورتحال کیسی ہے؟ وہ کہنے لگا امن و امان بہت بہتر ہوا ہے، پہلے جب ہم صبح گھر سے نکلتے تھے تو یہی سوچتے تھے کہ پتا نہیں واپس زندہ آئیں گے یا کسی دھماکے کا نشانہ بنیں گے لیکن اب وہ خوف نہیں رہا البتہ معاشی بحران کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے اگر ہم دو ہزار افغانی کماتے تھے تو اب پانچ سو سے ایک ہزار تک بمشکل کماتے ہیں۔

ہوٹل پہنچے تو وہاں افغان طالبان سے پہلا سامنا ہوا کیونکہ ایئرپورٹ کے باہر یا راستے میں کہیں بھی طالبان کی سیکیورٹی چیک پوسٹ کو نہیں دیکھا، ہوٹل کے باہر گیٹ پر ان کے سیکیورٹی سرچ سسٹم سے گزرنے کے بعد وہاں سیکیورٹی پر مامور طالبان گارڈ نے معذرت بھی کی کہ آپ مہمان ہیں ناراض نہ ہوں ہماری مجبوری ہے، ہم نے کہا بالکل نہیں یہ تو آپ لوگوں کا فرض ہے۔ اگلی صبح امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے انٹرویو کے لیے ان کے دفتر جانا تھا۔ ان کے دفتر میں جانے کے لیے بھی ہمیں اسی طرح کے سیکیورٹی سرچ سسٹم سے گزرنا پڑا اور ساتھ طالبان کے سیکیورٹی اہلکار یہی جملے دھراتے رہے کہ آپ مہمان ہیں لیکن ہماری مجبوری ہے مائنڈ نہ کریں۔

ذبیح اللہ مجاہد کے دفتر میں عوام اور میڈیا کے نمایندوں کا بہت رش تھا۔ خواتین جو ان کے دفتر میں مختلف کاموں کے لیے آئی تھیں ان کے لیے الگ بیٹھنے کی جگہ تھی اور ان کے ایشوز کو سننے اور فوری حل کرنے کے لیے خاتون آفیسر موجود تھی جب کہ مردوں کے لیے الگ آفیسرز موجود تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے کمرے میں پہنچے تو انھوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا اور پھر ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ اشرف غنی کے غیر متوقع فرار کی وجہ سے کابل میں داخل ہونے کا فیصلہ اچانک اور غیر متوقع تھا جس کی وجہ سے کافی مشکلات پیش آئیں مگر شکر الحمدللہ اب صورتحال بہتر ہوچکی ہے ، اللہ کے فضل سے روز بروز بہتری آ رہی ہے۔

سترہ اگست کو امریکا نے افغانستان کے امریکی بینکوں میں پڑے فنڈز پر پابندی عائد کرنے کے بعد افغانستان کے بینکنک سسٹم پر جو پابندیاں عائد کیں اس کی وجہ سے بیرونی دنیا سے افغانستان میں پیسوں کی ترسیل کا نظام متاثر ہوا اور تمام بینکس غیر فعال اور تقریباً بند ہوگئے تھے۔ جن کے پاس پیسہ تھا وہ افغانستان چھوڑ کر چلے گئے۔ جو لوگ رہ گئے ان کے پاس موجود پیسہ آہستہ آہستہ ختم ہوا جب کہ بینکوں سے کوئی بھی اپنا پیسہ نہیں نکال سکتا تھا ،تقریباً ایک ماہ کے بعد جب بینکنگ سسٹم آہستہ آہستہ بحال ہوا تو بینکوں نے ہر ہفتے صرف بیس ہزار افغانی دینے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے ہم نے وہاں دیکھا کہ ہر بینک کے سامنے قطاریں لگ گئی تھیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ امریکا نے ایک پلان کے تحت کیا تاکہ مقامی لوگ طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لیکن ان کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکا نے افعانستان کے دس ارب ڈالر منجمد کر دیے ہیں جو بین الااقوامی قوانین و اقدار کی خلاف ورزی ہے لیکن دنیا امریکا سے یہ نہیں پوچھتی کہ انھوں نے کس قانون کے تحت یہ اقدام اٹھایا۔ ایک سابقہ پولیس چیف سے ملاقات ہوئی جو کابل میں اب بھی مقیم ہے ،ان سے میں نے یہ سوال کیا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ طالبان سابقہ آفیسرز کو پکڑ کر لے جاتے ہیں، آپ کو ابھی تک کیوں نہیں پکڑا؟ تو وہ ہنس پڑا کہ پچھلے چار مہینوں میں کوئی طالب یا امارت اسلامیہ افغانستان کا نمایندہ ان کے گھر آیا نہ کسی نے ان کو فون کیا۔

اس نے بڑی عجیب کہانی سنائی کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ان کو کابل میں تعینات کیا تھا اور ان کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ کابل شہر سے ڈرگ مافیا اور اغواکاروں کا خاتمہ کریں۔ جب انھوں نے مافیاز کے خلاف آپریشن شروع کیا تو سابقہ نائب صدر امر اللہ صالح نے انھیں بلایا اور کہا کہ کس کے کہنے پر آپ نے یہ آپریشن شروع کیا ہے انھوں نے بتایا کہ میں نے امر اللہ صالح کو صدر اشرف غنی کے احکامات کے بارے بتایا جس پر وہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ آپ نے میرے بندوں کو پکڑا ہے ان کو فوراً رہا کردو جس پر میں نے معذرت کی اور ان سے کہا کہ وہ صدر سے بات کریں۔

مذکورہ افسر بتا رہے تھے کہ دو دن کے بعد ان کا تبادلہ ہوا اور اس کے بعد ان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ایک حملے میں ان کا بھائی اور دوسرے میں بھانجا مارا گیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو طالبان سے کوئی خطرہ نہیں، اگر خطرہ ہے تو سابقہ این ڈی ایس کے ایجنٹس سے ہے جو اب بھی امر اللہ صالح کے کہنے پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو یاد ہوگا کہ دسمبر2021 کے دوسرے ہفتے میں کابل میں ایک مسافر بس کو آگ لگائی گئی تھی اور جب طالبان نے ملزمان کو پکڑا تو دونوں سابقہ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے اہلکار نکلے اور یہ وہ مشکل ہے جس پر قابو پانے میںکچھ وقت لگے گا۔ کابل شہر میں موجودہ اقتصادی بحران کی وجہ سے اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ بڑے کاروباری لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ چھوٹے کاروباری جو کماتے ہیں وہ کھاتے ہیں، درآمدات کا سلسلہ بھی متاثرہوچکاہے کیونکہ پہلے بڑے کاروباری درآمدات و برآمدات کرتے تھے اب ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ سلسلہ متاثر ہوچکا ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر ایک پچپن سالہ بابا جو اپنے بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ یورپ جارہا تھا، اس کے دو اور بیٹے بھی کابل چھوڑ رہے تھے۔

میں نے ان کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے یہ بھی میرے بیٹے ہیں یہ جس یورپی ملک کی فوج کے ساتھ میں کام کررہے تھے انھوں نے ویزے نہیں دیے۔ میں اور میری بیوی صرف اس بچے کی مستقبل کی خاطر جارہے ہیں ورنہ کابل میں نہ کوئی مسئلہ ہے نہ چھوڑنے کو دل چاہتا ہے۔ اسلام الدین ساجد کی آنکھوں دیکھا حال سن کر میں تو اس نتیجے پر پہچ گیا ہوں کہ امارت اسلامیہ افغانستان عوام کی جان و مال کا تحفظ اور امن وامان قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

میں ذاتی حیثیت میں امارت اسلامیہ افغانستان کے طرز حکومت اور افعانستان میں موجودہ صورتحال پر منفی تجزیے اور خطرناک پیشگوئیاں کرنے والے دانشوروں اور سرخوں سے اپیل ہی کر سکتا ہوں کہ خدا را اگر دنیا کے ظلم اور بربریت اور غربت و افلاس کے مارے مظلوم افعانوں کے لیے خیر کی بات نہیں کرسکتے تو خاموش رہ کر گزارا کرلیں اوران کے بارے دنیا کو گمراہ نہ کریں۔ اس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں