قومی مسائل پر مفاہمت کی اہمیت

ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان شدید تناؤ کی فضا میں اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی بات بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے


Editorial January 20, 2022
ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان شدید تناؤ کی فضا میں اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی بات بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے- فوٹو:فائل

LONDON: حکومت انتخابی اصلاحات، چیئرمین نیب کی تقرری اور جوڈیشری ریفارمز جیسے بڑے معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتی ہے،ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کابینہ نے قومی اسمبلی میں موثر قانون سازی اور ملکی ترقی میں پارلیمنٹ کے کردار کو مزید مضبوط بنانے کے لیے حکومتی ارکان اور وفاقی وزراء کو پارلیمنٹ میں اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان شدید تناؤ کی فضا میں اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی بات بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے، عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی برسراقتدار جماعت کے خلاف حزب اختلاف کی روایتی مزاحمت جاری ہے، لانگ مارچ کی تاریخ دی جاچکی ہے۔

حکومت کو چند دن کا مہمان بتایا جارہا ہے جب کہ حکومتی وزراء اور مشیر اگلا الیکشن بھی جیتنے کی بھی قبل از وقت پیش گوئی بڑے وثوق سے کررہے ہیں۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے پکڑ دھکڑ ، قید و بند اور رہائی کے معاملات بھی نمٹائے جارہے ہیں۔

حال ہی میں موجودہ حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی ، شدید مزاحمت اور قابل اعتراض بیانیہ نے اس قدر غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ تجزیہ نگاروں نے اسے جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔

تین بنیادی نقطات پر حکومت نے اپوزیشن کو بات چیت اور مل کر چلنے کی دعوت دی ہے ، جس میں انتخابی اصلاحات ، چیئرمین نیب کی تقرری اور جوڈیشری ریفارمز شامل ہیں ، اس ضمن میں تاحال اپوزیشن کا کسی قسم کا موقف سامنے نہیں آیا ہے ، لیکن پھر بھی خوش گمان ہونا جمہوریت اور جمہوری عمل کے لیے نیک فال تصور کیا جاسکتا ہے۔

حکومت انتخابی اصلاحات چاہتی ہے ، وہ اپنا پیش کردہ بل قومی اسمبلی سے پاس کرانے میں پہلے ہی کامیاب ہوچکی ہے، اپوزیشن جماعتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان آیندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے اپنے شدید ترین تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ، چیئرمین نیب کی تقرری بھی وجہ نزاع ہے ، جب کہ عدالتی نظام میں اصلاحات سے سستے اور فوری انصاف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے ، لہذا ہماری گزارش ہے کہ ان اہم ترین مسائل کا حل باہمی گفتگو اور افہام و تفہیم سے نکالا جاسکتا ہے ۔ لہذا مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی مسئلے کا بہترین حل ہے ، انتخابی اصلاحات سے شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنانا جمہوریت کی مضبوطی کا باعث ہوگا ۔ مسئلہ پیچیدہ ضرور ہے لیکن باسانی حل ہوسکتا ہے ۔

حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو دوسری پارٹیاں یہی کوشش کرتی ہیں کہ کسی طرح اس کے اچھے اقدام کی بھی نفی کر کے عوام کو اس کے خلاف کیا جائے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اگر حکومتی پارٹی کوئی اچھا قدم اٹھاتی ہے تو حزب اختلاف اُس سے اختلاف ہی نہ کرے بلکہ اُس کے اس اقدام کو سراہا جائے۔

حزب اختلاف کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ حکومت کے ہر قدم سے اختلاف کرے بلکہ اُس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اگر حکومت کوئی ملکی مفاد میں اقدام کرتی ہے تو اُس کو نہ صرف سراہے بلکہ اُس میں حکومت کی مدد بھی کرے۔ مگر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں صرف ایک دوسرے کی مخالفت کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ ضروری تو نہیں کہ حکومتی پارٹی کا ہر قدم غلط ہی ہو یا ہر قدم صحیح ہی ہو۔

اس لیے حزب اختلاف کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جو کام حکومت کر رہی ہے وہ کس قدر عوام کے فائدے میں ہے یا کس قدر ملکی مفاد کے خلاف ہے، اس لیے حزب اختلاف کو حکومتی اقدام پر اس لیے نظر رکھنی ہوتی ہے کہیں ملکی اور عوامی مفاد کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا لے اور اگر پتہ چلے کہ ایک قدم جو حکومت اٹھانے جا رہی ہے اس کے نتائج ملک اور عوام کے مفاد کے خلاف ہو سکتے ہیں تو حزب اختلاف کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو اس اقدام سے روکے۔

پاکستان جیسی ثقافتی اور نسلی اعتبار سے متنوع ریاست کی جغرافیائی اور سیاسی وحدت کی بقاء کے لیے جمہوریت شروع ہی سے غیر مشروط طور پر لازم رہی ہے۔ نظریاتی الجھاؤ ، عدم استحکام ، آمریت اور عوامی رائے سے گریز کے باعث یہاں جمہوریت جڑ نہ پکڑ سکی۔

ہمارے سامنے اس کی ایک صبر آزما تاریخ ہے۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کشی کے ''کارنامے'' کسی طرح بھی ان محلاتی سازشوں سے کم نہیں جو مفاد پرست اور استحصال پیشہ عناصر ''چارہ گروں '' کا ترجیحی سلوک حاصل کرنے کو انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ جمہوریت صرف ایک اسلوب زیست ہی نہیں بلکہ صدیوں سے جاری نا انصافیوں کے بتدریج خاتمہ کی ایک پر امن صورت ہے، لیکن ہمارے ہاں ابتدا ہی سے حکمران طبقے کی خود غرضی اور عنان اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش نے جمہوریت کی افزائش اور ارتقاء کو ناممکن بنا دیا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اب جمہوریت صرف ایک حکومتی طریقہ کا نام نہیں بلکہ یہ طبقاتی معاشرے میں موجود معاشی و سماجی ناانصافیوں کو حد اعتدال میں لانے کا ایک وسیلہ بھی ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جمہوری نظام چلانے کے لیے منتخب کیے جانے والے نمایندے مثالی فہم و فراست ، ایمانداری اور رائے عامہ کی امنگوں کا احترام کرنا سیکھ لیں۔

سیاست دانوں کا اصل ہدف اپنے سیاسی مخالفین کی نظروں میں اخلاقی طور پر ارفع تر نظر آنے کی خواہش ہو نا چاہیے نہ کہ اپنے ہمنواؤں کی خوشنودی پانے کے لیے پوری قوم کو اپنے مفادات کا یرغمال بنائے رکھیں۔ اسی باعث جب چاہیں تو کسی تحریک کی صورت انھیں مزاحمت کرنے کے لیے سڑکوں پہ لا کھڑا کریں اور جہاں اپنے لیے آسانی دیکھی تو فوراً یو ٹرن لے لیا۔ اب ہمارے ہاں سیاست دانوں کے دعوے اور ان کی کارکردگی کے درمیان صداقت کا خلا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ عوام ان سیاسی نمایندوں کے عدم اخلاص اور ناموزونیت سے واقف ہوتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ ان سے زیادہ قابل احترام لوگوں کو کیسے منتخب کیا جائے کہ اول تو وہ لوگ انتخابی نظام کی خرابی اور کسی انجانے خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آتے۔

اس کے برخلاف بعض اوقات عوام ایسی مخلص قیادت کو محض اس لیے نظر انداز کر دیتی ہے کہ وہ اپنی تشہیر میں مہارت نہیں رکھتے، یوں اس موجودہ نظام کے تحت کسی ایسے شخص کا انتخاب کر کے اسے مکمل اقتدار سونپ دیتے ہیں جس کا مقصد خود کو آمر کی حیثیت دینا ہوتا ہے اور جمہوریت نقصان کا شکار ہوتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ لوگ اس حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں جو بہتر حالات کا وعدہ کرے لیکن اس حکومت کی اصل ماہیت حکمرانوں کے رویہ پر مبنی ہوتی ہے۔

اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانا اور الفاظ کے تیر برسانا ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی ویسا ہی کوئی حل نکل سکتا ہے جیسا کہ پہلے نکالا گیا تھا؟ جس میں طرفین (تمام سیاسی جماعتیں) ایک دوسرے کے حق سیاست کو تسلیم کرلیں، اگر مذاکرات کی ضرورت ہے تو وہ پہلے سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے چاہئیں جس میں وہ ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کریں۔ اسٹیک ہولڈرز اور کسی مفاہمتی کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی باتیں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں۔

چند تجاویزسیاسی مفاہمت کے حوالے درج کی جارہی ہیں ، اول ۔ قومی اسمبلی کو بااختیار بنایا جائے اور تمام قومی اور بین الاقوامی مسائل پر اسمبلی کے فلور پر بحث کر کے اتفاق رائے پید ا کیا جائے۔ دوم ۔ موجودہ حالات میں جو سیاسی انتشار اور کشیدگی پائی جارہی ہے، اسے دور کرنے کے لیے ایک قومی مفاہمتی کمیشن تشکیل دیا جائے ، یہ کمیشن اسمبلی میں موجود اور باہر تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں سے مفاہمتی ڈائیلاگ کرے ، سوم ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے تمام وزراء اور مشیروں کو تلخ اور تیز نیز تضحیک آمیز سیاسی بیانات اور تبصروں سے سختی سے روک دیں۔

چہارم ، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اور تاجروں، ان کی تنظیموں اور دیگر معاشی و اقتصادی اداروں کو ایک میز پر بٹھا کر اقتصادی و معاشی بحران کو دور کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ پنجم ۔ اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں، ان کے قائدین اور اسمبلی سے باہر سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر کسی بھی طرح کی کھلی الزام تراشی اور بہتان تراشی یا کردار کشی کو روکنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے، جس کی پاسداری اسمبلی میں موجود اور باہر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے لیے لازمی قرار دی جائے۔

بلاشبہ اس وقت ملکی سیاست میں بہتری کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن اس کے لیے عوام کی ذہنی اور اخلاقی صلاحیت کو بلند کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے جو انھیں جمہوری نظام کی ذمے داری قبول کرنے کے لائق بنا دے۔ جمہوریت کے تحفظ کی خاطر ہر فرد میں یہ ذہانت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے گرد و پیش ہونے والے ہر واقع کی اصلیت کا جائزہ لے سکے۔

انفرادی ہوش مندی اور سیاسی فکر ہی ہمارے ملک میں جمہوریت کا بہترین دفاع کر سکتی ہے۔ آج اگر دنیا میں جمہوری اقدار اور سماجی انصاف کی کامرانیوں پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھا تھا۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مفاہمت کا عمل اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا جب تک وزیراعظم عمران خان خود پیش قدمی نہ کریں، امید واثق ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن سے باقاعدہ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کریں گے تاکہ ایک قومی سیاسی مفاہمت کا ڈول ڈالا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں