ڈیمینشیا جلد تشخیص نہایت اہم ہے

ڈیمینشیا ایک دماغی بیماری ہے اور اس میں ذہنی جبلتوں کا انحطاط شروع ہو جاتا ہے


January 20, 2022
ڈیمینشیا ایک دماغی بیماری ہے اور اس میں ذہنی جبلتوں کا انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگلی تین دہائیوں میں ڈیمینشیا مرض بہت تیزی سے افزائش پا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیمینشیا کی جلد تشخیص مناسب علاج کے لیے بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ڈیمینشیا ایک دماغی بیماری ہے اور اس میں ذہنی جبلتوں کا انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ اس مرض کے مریضوں کو سوچنے، سمجھنے اور یاد رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مریض اپنے جذبات، رابطہ کاری اور روزمرہ کے کام انجام دینے میں کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ ان مریضوں کو اعضاء￿ کے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ میں بھی نقاہت کا سامنا ہوتا ہے۔

تعداد میں تین گنا اضافہ

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی تین دہائیوں یا تیس برسوں میں ایسے مریضوں کی تعداد تین گنا ہو سکتی ہے۔ یعنی موجودہ ستاون ملین مریضوں کی ممکنہ تعداد سن 2050 تک ایک سو باون ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد اقوام عالم کے نظام صحت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور خاندانوں کے لیے بھی بہت بڑا بوجھ ہو گا۔

تازہ ترین ریسرچ

ڈیمینشا یا عتاہت یا ذہنی جبلتوں میں گراوٹ کے بارے میں ایک نئی ریسرچ رپورٹ کی تفصیلات معتبر طبی جریدے لینسیٹ میں شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ لینسیٹ کمیشن برائے تدارک ڈیمینشا کے ماہرین نے مرتب کی ہے۔ اس میں بارہ عوامل کی نشاندہی کی گئی، جو ڈیمینشیا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان میں کم آگاہی، بلند فشار خون یا بلڈ پریشر، سماعت کا متاثر ہونا، سگریٹ نوشی، موٹاپا، ڈپریشن، عملی سرگرمیاں میں کمی، شوگر اور کم سماجی رابطے خاص طور پر نمایاں ہیں۔

اس مناسبت سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اس بیماری کے خطرات کو اپنی عادات میں تبدیلی سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق عادات و رویوں میں مثبت تبدیلیوں سے ڈیمینشیا بیماری کے خطرے کو چالیس فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

معمولاتِ زندگی میں تبدیلی

جرمن ریسرچ سینٹر برائے نیورو جینیریٹو ڈیزیزز (DZNE) سے وابستہ ماہر معالج مارینا بوکارڈی کے مطابق انسانی جسم میں باہمی تعاون میں انحطاط یا کمی کی تمام علامات ڈیمینشیا کا سبب نہیں بنتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی مرتبہ ایسی علامات ختم بھی ہو جاتی ہیں اور انتہائی شدید صورت حال کو بھی کنٹرول کرنا ممکن ہے اور اس کے لیے معمولاتِ زندگی میں تبدیلیاں لانا ضروری ہوتا ہے۔

مارینا بوکارڈی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر قابل علاج صورت حال کو بہتر کرنے کا موقع ضائع کر دیا جائے تو پھر کوئی بھی ذہنی جبلتوں میں انحطاط کے خطرے میں گھرا انسان یا مریض یقینی طور پر ڈیمینشیا کے مرض کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

عادات و رویے تبدیل کرنے کی ضرورت

ڈیمینشیا کی ماہر مارینا بوکارڈی کا مزید کہنا ہے کہ انفرادی اور حکومتی سطح پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مرض کے خطرات میں کمی کے لیے عملی، سماجی اور ذہنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھایا جائے تا کہ اس مرض کے غیر معمولی پھیلاؤ کو ہر ممکن طریقے سے روکا جا سکے۔ ڈیمینشیا کے کسی بھی مریض کو خاص قربت اور انسانی لگاؤ کی ضرورت ہوتی ہے

جرمن ادارے سے وابستہ بوکارڈی کا یہ بھی کہنا ہے کہ باقاعدہ ورزش اور صحت مند خوراک کو اپنانا نہایت لازمی ہے۔ ماہرین کے خیال میں ڈیمینشیا سے بچاؤ کی کوششوں میں کم مٹھاس والی اور زیادہ چربی والی خوراک کو معمول بنانا ازحد ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بہتر نیند بھی بہت اہم ہے۔ سن 2021 کی ایک ریسرچ کے مطابق پچاس اور ساٹھ برس کے ایسے افراد، جن میں نیند کا خلل پایا جاتا ہے، ان میں ڈیمینشیا مرض پیدا ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ذیابیطس یا شوگر کے ساتھ جڑے عوارض یعنی ہائی بلڈ پریشر، ہائپرٹینشن اور ڈپریشن کو بھی کم کرنا ضروری ہے۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ رقص یا ڈانس کرنے کی عادت بھی ذہنی صحت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ عملی سرگرمیاں ڈیمینشا کے خطرے کو بہت کم کرتی ہیں۔ سگریٹ نوشی ترک کرنے اور شراب نوشی کو محدود کرنے سے بھی اس بیماری کے خطرے کو کم کرنا ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں