شیرِ مادر ایک عظیم نعمت
دنیا بھر کے ماہرین کا اصرار ہے کہ مائیں دو برس تک اپنے بچوں کو دودھ پلائیں تو ماں اور بچے دنوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے
کراچی:
"کیوں رورہا ہے بھئی یہ اب؟" نازش کی ساس نے اس سے پوچھا،وہ کافی دیر سے اپنے نومولود پوتے کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر بچہ بہت بے چین تھا اور کسی صورت خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
"فیڈ کرے گا امی یہ۔۔۔" نازش نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"بس۔۔۔عادت خراب کردی اس کی! اب یہ ہر وقت دودھ مانگتا ہے!"۔اس کی ساس نے برہمی سے کہا اور وہ بے چاری خاموش ہوگئی مگر اپنے بچے کو فیڈ کروانے کی ہمت نہیں کرسکی۔نازش نے جب مجھ سے تذکرہ کیا تو میں حیران رہ گئی کہ یہ کیا بات ہوئی؟ چھوٹا بچہ تو بار بار دودھ مانگے گا اور ایک ماں کیوں اتنی بے بس ہوجاتی ہے کہ لوگوں کے ڈر اور خوف سے بچے کو اس کے جائز حق سے محروم رکھے؟ میرے پوچھنے پر نازش نے بتایا کہ اس کی ساس کا خیال ہے کہ اگر بچے بار بار فیڈ کی خواہش کرتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیوں کہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت(WHO)اور عالمی صحت اسمبلی یہ مشورہ دیتی ہیں کہ ایک نوزائیدہ بچے کو پیدائش کے شروع کے 6ماہ صرف اور صرف ماں کا دودھ پلایا جائے اور 6مہینے بعد سے ٹھوس غذا متعارف کروائی جائے اور 2سال تک بچہ ماں کا دودھ بھی لازمی پیتا رہے۔ان اداروں کے مطابق وہ بچے جو مکمل طور پر 6مہینے تک ماں کا دودھ پیتے ہیں انہیں نہ صرف بھرپور غذائیت ملتی ہے بلکہ غذا کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور ان میں علمی صلاحیت اور قابلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اسلام میں ماں کے دودھ کی اہمیت: اسلام میں ماں کے دودھ کی اہمیت کا اندازہ سورۂ بقرہ کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "ماں کو حکم ہے کہ اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلائے۔یہ مدت ان کے لئے ہے جو ماں باپ بچے کے دودھ پینے کی مدت کو پورا کرنا چاہیں ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے"۔سورۂ بقرہ،آیت نمبر 233۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نے بھی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ عورتیں جو اپنی اولاد کو بغیر کسی عُذرکے اس حق سے محروم رکھتی ہیں وہ قبر میں اور آخرت میں سزا کی حقدار ہوں گی۔ابو امامہ باہلیی رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جب میں سو رہا تھا تو دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر ایک کھردرے پہاڑ تک لے گئے وہاں میں نے کچھ عورتوں کو دیکھا جن کے سینوں پر سانپ کاٹ رہے تھے کیوں کہ انہوں نے بلا وجہ اپنے بچوں کو اپنے دودھ سے محروم کردیا تھا۔(مستدرک صحیحین۔2/228)۔
بریسٹ فیڈنگ میں باپ کاکردار: ایک باپ کی مدد اور حمایت کامیاب بریسٹ فیڈنگ کی کنجی ہے اور اس سلسلے میں والد حضرات بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں اور مندرجہ ذیل طریقوں سے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں:
۱) بچے کی ماں کے ذہنی دباؤ کو کم کر سکتے ہیں اور اگر گھر والوں کی طرف سے اسے منفی باتوں کا سامنا ہو تو اس کا ساتھ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ ہر صورت میں ماں کا دودھ پئے۔
۲) ماں کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کی ہمت بڑھائیں با لخصوص جب وہ ہارمونز میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہو۔
۳) ماں کی خوراک اور ضروریات کا خاص خیال رکھ سکتے ہیں۔
۴)بچے کے اور دیگر گھریلو کام کاج میں تعاون کر سکتے ہیں اور ماؤں کو لچک دی جائے کہ وہ اپنی سہولت سے تمام کام سر انجام دے سکیں تاکہ بچے کو بھی بھرپور وقت اور توجہ دے سکیں۔
۶) اگر ماں کو دودھ پلانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں تو باپ کو چاہیئے کہ کسی لیکٹیشن کنسلٹنٹ سے رجوع کرے تاکہ مسئلے کا فوری حل نکل سکے۔
بریسٹ فیڈنگ میں گھر والوں کا کردار: ڈبلیو ایچ او کے مطابق،بریسٹ فیڈنگ صرف ایک عورت کا کام نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف ماں اور بچے تک ہی محدود نہیں ہوتا ماؤں کو گھر والوں کی طرف سے بھی مدد وتائید کی ضرورت ہوتی ہے۔بچے کی ولادت کے بعد ایک ماں کو بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں خاص طور پر پوسٹ پارٹم(بچے کی پیدائش کے بعد شروع کا عرصہ)میں،جس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ اس دوران عورت کا کیسے خیال رکھا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق زیادہ تر ماؤں اور شیر خوار بچوں کی اموات اسی دوران ہوتی ہیں۔بہت سی باتوں کے ذریعے ایک ماں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں جیسے کہ:
۱) کچھ عورتیں صحیح رہنمائی کے بعد دودھ پلانے کے قابل ہوجاتی ہیں۔خاندان اور گھر کی تجربہ کار خواتین اس حوالے سے ماؤ ں کو اچھی طرح سمجھا سکتی ہیں اور سکھا سکتی ہیں کہ کس طرح بچے کو فیڈ کروانا چاہیئے اور دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے کیسی غذا لینی چاہیئے۔
۲) اگر شروع میں ماں کو دودھ پلانے میں ناکامی ہورہی ہے یا فیڈ کرانے کے لئے دیر تک بیٹھنا پڑ رہا ہے تو مایوس ہوکر گائے،بھینس کا دودھ یا فارمولا مِلک نہیں دینا چاہئیے بلکہ کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔اکثر گھروں میں ایسا کیا جاتاہے اور دودھ چھڑ وادیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط اور ماں و بچے دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
۳)اکثر یہ دیکھا اور سنا گیا ہے کہ بہت سی خواتین صرف اپنے سسرال والوں کے دباؤ میں آکر بچے کو فیڈ نہیں کرواتیں یا بہت کم کرواتی ہیں کیوں کہ اس سے ان کی ذمّہ داریوں اور گھر کے کاموں پر اثر پڑتا ہے یہ بہت ہی غلط بات ہے کہ کسی عورت کے لئے اس حوالے سے مسائل پیدا کئے جائیں۔
مختلف ماؤں کے تجربات: مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی ماؤں سے جب پوچھا گیا کہ بریسٹ فیڈنگ کے عرصے میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سی ماؤں نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا جن میں سے ایک خاتون کہتی ہیں کہ،"جب ہم conceiveکرتے ہیں تو اس دوران ہربات کا خیال رکھا جاتا ہے مگر پوسٹ پارٹم میں کس طرح خیال رکھا جائے گا اس حوالے سے کوئی تعلیم اور تربیت ہی نہیں ہے۔ان مسائل پر کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں؟ جب کہ یہ ہی ایسے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔اس کے علاوہ ایک نرسنگ مدر کو کوئی privacy اور چُھوٹ نہیں دی جاتی سب کو ہر کام وقت پر اور پرفیکٹ چاہیئے۔اسی وجہ سے میرا دودھ چھڑوانے کی کوشش کی گئی مگر میں ڈٹ گئی اور اپنا دودھ پلانے کو فوقیت دی"۔
ایک اور ماں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ، "بریسٹ فیڈنگ کا دورانیہ میرے لئے بہت مشکل ثابت ہوا۔شروع میں مجھے دودھ نہیں آرہا تھا پھر میری ساس نے میرے سینے کی مالش کی اور میں نے اپنی خوراک پر توجہ دی تو دودھ پلانے کے قابل ہوسکی۔اس عرصے میں مجھے بہت بھوک لگتی تھی۔آج کل بچوں کو Colic Issueہو جاتا ہے جو کہ پیٹ درد کی ایک قسم ہے بچوں کے پیٹ میں گیس بننے لگتی ہے اور وہ بہت زیادہ روتے ہیں اور پھر ماں کے کھانے پینے پر بھی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔اپنا دودھ پلانے میں یہ آسانی ہے کہ بار بار اٹھ کر فیڈر دھونا،ابالنا اوردودھ نہیں بنانا پڑتا اور یہ بلکل مفت بھی ہے"۔
ایک خوش قسمت ماں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ،"مجھے تین دن تک دودھ نہیں اترا تھا۔میری ساس وہیل چیئر پر ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے انہوں نے گرم پانی کی سکائی سے لے کر سوجی اور دیگر ضروری چیزیں کھلانے تک سب کچھ کیا تاکہ بچہ صرف میرا ہی دودھ پئے اور فیڈر نہ دینی پڑے اور ایک ہفتے کی محنت کے بعد مجھے وافر مقدار میں دودھ آنے لگا۔اب میرا بیٹا ڈیڑھ سال کا ہے مگر اس پورے عرصے میں اس نے فیڈر نہیں لی،میں اپنی ساس کی بے حد مشکور ہوں اور دن رات انہیں دعائیں دیتی ہوں"۔
بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے اعدادو شمار: La Leche League ایک ایسا ادارہ ہے جو بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے دنیا بھر کی ماؤں کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے۔اس ادارے کے مطابق:
۱) اگر بریسٹ فیڈنگ عالمی پیمانے پر بڑھ جائے تو ہر سال 820,000سے زیادہ زندگیا ں بچائی جا سکتی ہیں جن میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو 6ماہ سے کم عمر ہیں۔
۲) بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے ماؤں کے اندر بریسٹ کینسر،اوورین کینسر،ٹائپ 2 ذیابیطس جیسی مہلک بیماریوں کے علاوہ دل کے امراض کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
۳) بریسٹ فیڈنگ کا دورانیہ بڑھانے سے ہر سال تقریباً 20,000ماؤں کی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے جو کہ بریسٹ کینسر کی وجہ سے اور زچگی کے دوران ہوتی ہیں۔
بچّوں کے ڈاکٹرز کی رائے: جو خواتین اس کشمکش کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کا دودھ ان کے بچے کو پورا ہوگا یا نہیں ان کے لئے ایک ماہر پیڈیاٹریشن کا کہنا ہے کہ،"دیہاتوں میں جہاں عورتوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے وہاں وہ اپنے ہی دودھ پر بہت سے بچے پال لیتی ہیں تو پھر آپ کو یہ شک کیسے ہوسکتا ہے۔اللہ پر بھروساکریں اور اپنا ہی دودھ پلائیں جتنا زیادہ آپ پلائیں گی اتنا ہی دودھ اترے گا"۔
اس کے علاوہ جو عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ماں کے کچھ کھانے پینے سے بچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا وہ بیمار ہو سکتے ہیں تو یہ تاثر بھی غلط ہے ۔اس بارے میں بچوں کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ،"دنیا کے ہر خطے میں رہنے والی عورت الگ الگ خوراک کھاتی ہے۔آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ملکہ برطانیہ کے دودھ میں سے پنیر نکلتا ہے اور ماسیوں کے دودھ میں کچرا ہے؟ ماں کے کچھ بھی کھانے سے بچے پر کوئی فرق نہیں پڑتا جو کھانا ہے کھائیں۔اگر خوراک کا دودھ پر اس طرح سے کوئی اثر پڑتا کہ وہ تاثیر لے لیتا تو ہم تو گائے کا دودھ پیتے ہیں اور گائے کچرا اور چارا کھاتی ہے تو پھر ہمارے پیٹ کا کیا حال ہو؟ ماں جو کچھ بھی کھائے گی اس سے دودھ کی کوالٹی تو بہتر ہوسکتی ہے لیکن تاثیر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔
پیڈیا ٹریشنز کا مزید کہنا ہے کہ،"ماں کو اپنے بچے کو 24گھنٹے میں کم از کم 8سے12مرتبہ فیڈ کرواناچاہیئے۔فیڈنگز کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے فی بریسٹ 15سے20منٹ لگ سکتے ہیں اور اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے"۔
فارمولا مِلک انڈسٹری کی گمراہ کن مارکیٹنگ ایک دوسرا سبب ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں خواتین اپنا دودھ اس حساب سے نہیں پلاتیں جتنا شروع کے 6ماہ کے دوران اور اس کے بعد 2سال تک پلانا چاہیئے۔عالمی معاہدات اور پاکستانی قوانین بھی ماں کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔عالمی صحت اسمبلی 2016-17 کی سفارش پر شیرِ مادر اور بچوں کی غذائیت کے تحفظ کے لئے ایک قانون جو کہ 2002 میں جاری کیا گیا تھا تجویز کیا گیا جس کے مطابق فارمولا ملک کی ترسیل، عمر کی حد اور لیبلنگ کو محدود کیا جائے گا۔
وزارت نے فارمولا بنانے والی کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ تبدیلیوں کے تحت لیبلنگ سے لفظ "دودھ" ہٹایا جائے اس کے علاوہ پیکیجنگ پر ماں کے دودھ کی اہمیت اور اسے دو سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رکھنے کے حوالے سے اور چھ ماہ کی عمر سے قبل شیر خوار بچے کو ماں کے دودھ کے سوا کوئی اور غذا متعارف نہ کروانے کے بارے میں ہدایات درج ہوں۔عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف نے کورونا وائرس کی وباء کے دوران بھی ماؤں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا ہی دودھ پلائیں حتیٰ کہ وہ کووڈ کا شکار ہو چکی ہوں۔
"کیوں رورہا ہے بھئی یہ اب؟" نازش کی ساس نے اس سے پوچھا،وہ کافی دیر سے اپنے نومولود پوتے کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر بچہ بہت بے چین تھا اور کسی صورت خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
"فیڈ کرے گا امی یہ۔۔۔" نازش نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"بس۔۔۔عادت خراب کردی اس کی! اب یہ ہر وقت دودھ مانگتا ہے!"۔اس کی ساس نے برہمی سے کہا اور وہ بے چاری خاموش ہوگئی مگر اپنے بچے کو فیڈ کروانے کی ہمت نہیں کرسکی۔نازش نے جب مجھ سے تذکرہ کیا تو میں حیران رہ گئی کہ یہ کیا بات ہوئی؟ چھوٹا بچہ تو بار بار دودھ مانگے گا اور ایک ماں کیوں اتنی بے بس ہوجاتی ہے کہ لوگوں کے ڈر اور خوف سے بچے کو اس کے جائز حق سے محروم رکھے؟ میرے پوچھنے پر نازش نے بتایا کہ اس کی ساس کا خیال ہے کہ اگر بچے بار بار فیڈ کی خواہش کرتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیوں کہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت(WHO)اور عالمی صحت اسمبلی یہ مشورہ دیتی ہیں کہ ایک نوزائیدہ بچے کو پیدائش کے شروع کے 6ماہ صرف اور صرف ماں کا دودھ پلایا جائے اور 6مہینے بعد سے ٹھوس غذا متعارف کروائی جائے اور 2سال تک بچہ ماں کا دودھ بھی لازمی پیتا رہے۔ان اداروں کے مطابق وہ بچے جو مکمل طور پر 6مہینے تک ماں کا دودھ پیتے ہیں انہیں نہ صرف بھرپور غذائیت ملتی ہے بلکہ غذا کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور ان میں علمی صلاحیت اور قابلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اسلام میں ماں کے دودھ کی اہمیت: اسلام میں ماں کے دودھ کی اہمیت کا اندازہ سورۂ بقرہ کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "ماں کو حکم ہے کہ اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلائے۔یہ مدت ان کے لئے ہے جو ماں باپ بچے کے دودھ پینے کی مدت کو پورا کرنا چاہیں ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے"۔سورۂ بقرہ،آیت نمبر 233۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نے بھی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ عورتیں جو اپنی اولاد کو بغیر کسی عُذرکے اس حق سے محروم رکھتی ہیں وہ قبر میں اور آخرت میں سزا کی حقدار ہوں گی۔ابو امامہ باہلیی رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جب میں سو رہا تھا تو دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر ایک کھردرے پہاڑ تک لے گئے وہاں میں نے کچھ عورتوں کو دیکھا جن کے سینوں پر سانپ کاٹ رہے تھے کیوں کہ انہوں نے بلا وجہ اپنے بچوں کو اپنے دودھ سے محروم کردیا تھا۔(مستدرک صحیحین۔2/228)۔
بریسٹ فیڈنگ میں باپ کاکردار: ایک باپ کی مدد اور حمایت کامیاب بریسٹ فیڈنگ کی کنجی ہے اور اس سلسلے میں والد حضرات بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں اور مندرجہ ذیل طریقوں سے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں:
۱) بچے کی ماں کے ذہنی دباؤ کو کم کر سکتے ہیں اور اگر گھر والوں کی طرف سے اسے منفی باتوں کا سامنا ہو تو اس کا ساتھ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ ہر صورت میں ماں کا دودھ پئے۔
۲) ماں کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کی ہمت بڑھائیں با لخصوص جب وہ ہارمونز میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہو۔
۳) ماں کی خوراک اور ضروریات کا خاص خیال رکھ سکتے ہیں۔
۴)بچے کے اور دیگر گھریلو کام کاج میں تعاون کر سکتے ہیں اور ماؤں کو لچک دی جائے کہ وہ اپنی سہولت سے تمام کام سر انجام دے سکیں تاکہ بچے کو بھی بھرپور وقت اور توجہ دے سکیں۔
۶) اگر ماں کو دودھ پلانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں تو باپ کو چاہیئے کہ کسی لیکٹیشن کنسلٹنٹ سے رجوع کرے تاکہ مسئلے کا فوری حل نکل سکے۔
بریسٹ فیڈنگ میں گھر والوں کا کردار: ڈبلیو ایچ او کے مطابق،بریسٹ فیڈنگ صرف ایک عورت کا کام نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف ماں اور بچے تک ہی محدود نہیں ہوتا ماؤں کو گھر والوں کی طرف سے بھی مدد وتائید کی ضرورت ہوتی ہے۔بچے کی ولادت کے بعد ایک ماں کو بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں خاص طور پر پوسٹ پارٹم(بچے کی پیدائش کے بعد شروع کا عرصہ)میں،جس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ اس دوران عورت کا کیسے خیال رکھا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق زیادہ تر ماؤں اور شیر خوار بچوں کی اموات اسی دوران ہوتی ہیں۔بہت سی باتوں کے ذریعے ایک ماں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں جیسے کہ:
۱) کچھ عورتیں صحیح رہنمائی کے بعد دودھ پلانے کے قابل ہوجاتی ہیں۔خاندان اور گھر کی تجربہ کار خواتین اس حوالے سے ماؤ ں کو اچھی طرح سمجھا سکتی ہیں اور سکھا سکتی ہیں کہ کس طرح بچے کو فیڈ کروانا چاہیئے اور دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے کیسی غذا لینی چاہیئے۔
۲) اگر شروع میں ماں کو دودھ پلانے میں ناکامی ہورہی ہے یا فیڈ کرانے کے لئے دیر تک بیٹھنا پڑ رہا ہے تو مایوس ہوکر گائے،بھینس کا دودھ یا فارمولا مِلک نہیں دینا چاہئیے بلکہ کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔اکثر گھروں میں ایسا کیا جاتاہے اور دودھ چھڑ وادیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط اور ماں و بچے دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
۳)اکثر یہ دیکھا اور سنا گیا ہے کہ بہت سی خواتین صرف اپنے سسرال والوں کے دباؤ میں آکر بچے کو فیڈ نہیں کرواتیں یا بہت کم کرواتی ہیں کیوں کہ اس سے ان کی ذمّہ داریوں اور گھر کے کاموں پر اثر پڑتا ہے یہ بہت ہی غلط بات ہے کہ کسی عورت کے لئے اس حوالے سے مسائل پیدا کئے جائیں۔
مختلف ماؤں کے تجربات: مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی ماؤں سے جب پوچھا گیا کہ بریسٹ فیڈنگ کے عرصے میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سی ماؤں نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا جن میں سے ایک خاتون کہتی ہیں کہ،"جب ہم conceiveکرتے ہیں تو اس دوران ہربات کا خیال رکھا جاتا ہے مگر پوسٹ پارٹم میں کس طرح خیال رکھا جائے گا اس حوالے سے کوئی تعلیم اور تربیت ہی نہیں ہے۔ان مسائل پر کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں؟ جب کہ یہ ہی ایسے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔اس کے علاوہ ایک نرسنگ مدر کو کوئی privacy اور چُھوٹ نہیں دی جاتی سب کو ہر کام وقت پر اور پرفیکٹ چاہیئے۔اسی وجہ سے میرا دودھ چھڑوانے کی کوشش کی گئی مگر میں ڈٹ گئی اور اپنا دودھ پلانے کو فوقیت دی"۔
ایک اور ماں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ، "بریسٹ فیڈنگ کا دورانیہ میرے لئے بہت مشکل ثابت ہوا۔شروع میں مجھے دودھ نہیں آرہا تھا پھر میری ساس نے میرے سینے کی مالش کی اور میں نے اپنی خوراک پر توجہ دی تو دودھ پلانے کے قابل ہوسکی۔اس عرصے میں مجھے بہت بھوک لگتی تھی۔آج کل بچوں کو Colic Issueہو جاتا ہے جو کہ پیٹ درد کی ایک قسم ہے بچوں کے پیٹ میں گیس بننے لگتی ہے اور وہ بہت زیادہ روتے ہیں اور پھر ماں کے کھانے پینے پر بھی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔اپنا دودھ پلانے میں یہ آسانی ہے کہ بار بار اٹھ کر فیڈر دھونا،ابالنا اوردودھ نہیں بنانا پڑتا اور یہ بلکل مفت بھی ہے"۔
ایک خوش قسمت ماں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ،"مجھے تین دن تک دودھ نہیں اترا تھا۔میری ساس وہیل چیئر پر ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے انہوں نے گرم پانی کی سکائی سے لے کر سوجی اور دیگر ضروری چیزیں کھلانے تک سب کچھ کیا تاکہ بچہ صرف میرا ہی دودھ پئے اور فیڈر نہ دینی پڑے اور ایک ہفتے کی محنت کے بعد مجھے وافر مقدار میں دودھ آنے لگا۔اب میرا بیٹا ڈیڑھ سال کا ہے مگر اس پورے عرصے میں اس نے فیڈر نہیں لی،میں اپنی ساس کی بے حد مشکور ہوں اور دن رات انہیں دعائیں دیتی ہوں"۔
بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے اعدادو شمار: La Leche League ایک ایسا ادارہ ہے جو بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے دنیا بھر کی ماؤں کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے۔اس ادارے کے مطابق:
۱) اگر بریسٹ فیڈنگ عالمی پیمانے پر بڑھ جائے تو ہر سال 820,000سے زیادہ زندگیا ں بچائی جا سکتی ہیں جن میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو 6ماہ سے کم عمر ہیں۔
۲) بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے ماؤں کے اندر بریسٹ کینسر،اوورین کینسر،ٹائپ 2 ذیابیطس جیسی مہلک بیماریوں کے علاوہ دل کے امراض کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
۳) بریسٹ فیڈنگ کا دورانیہ بڑھانے سے ہر سال تقریباً 20,000ماؤں کی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے جو کہ بریسٹ کینسر کی وجہ سے اور زچگی کے دوران ہوتی ہیں۔
بچّوں کے ڈاکٹرز کی رائے: جو خواتین اس کشمکش کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کا دودھ ان کے بچے کو پورا ہوگا یا نہیں ان کے لئے ایک ماہر پیڈیاٹریشن کا کہنا ہے کہ،"دیہاتوں میں جہاں عورتوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے وہاں وہ اپنے ہی دودھ پر بہت سے بچے پال لیتی ہیں تو پھر آپ کو یہ شک کیسے ہوسکتا ہے۔اللہ پر بھروساکریں اور اپنا ہی دودھ پلائیں جتنا زیادہ آپ پلائیں گی اتنا ہی دودھ اترے گا"۔
اس کے علاوہ جو عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ماں کے کچھ کھانے پینے سے بچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا وہ بیمار ہو سکتے ہیں تو یہ تاثر بھی غلط ہے ۔اس بارے میں بچوں کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ،"دنیا کے ہر خطے میں رہنے والی عورت الگ الگ خوراک کھاتی ہے۔آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ملکہ برطانیہ کے دودھ میں سے پنیر نکلتا ہے اور ماسیوں کے دودھ میں کچرا ہے؟ ماں کے کچھ بھی کھانے سے بچے پر کوئی فرق نہیں پڑتا جو کھانا ہے کھائیں۔اگر خوراک کا دودھ پر اس طرح سے کوئی اثر پڑتا کہ وہ تاثیر لے لیتا تو ہم تو گائے کا دودھ پیتے ہیں اور گائے کچرا اور چارا کھاتی ہے تو پھر ہمارے پیٹ کا کیا حال ہو؟ ماں جو کچھ بھی کھائے گی اس سے دودھ کی کوالٹی تو بہتر ہوسکتی ہے لیکن تاثیر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔
پیڈیا ٹریشنز کا مزید کہنا ہے کہ،"ماں کو اپنے بچے کو 24گھنٹے میں کم از کم 8سے12مرتبہ فیڈ کرواناچاہیئے۔فیڈنگز کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے فی بریسٹ 15سے20منٹ لگ سکتے ہیں اور اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے"۔
فارمولا مِلک انڈسٹری کی گمراہ کن مارکیٹنگ ایک دوسرا سبب ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں خواتین اپنا دودھ اس حساب سے نہیں پلاتیں جتنا شروع کے 6ماہ کے دوران اور اس کے بعد 2سال تک پلانا چاہیئے۔عالمی معاہدات اور پاکستانی قوانین بھی ماں کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔عالمی صحت اسمبلی 2016-17 کی سفارش پر شیرِ مادر اور بچوں کی غذائیت کے تحفظ کے لئے ایک قانون جو کہ 2002 میں جاری کیا گیا تھا تجویز کیا گیا جس کے مطابق فارمولا ملک کی ترسیل، عمر کی حد اور لیبلنگ کو محدود کیا جائے گا۔
وزارت نے فارمولا بنانے والی کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ تبدیلیوں کے تحت لیبلنگ سے لفظ "دودھ" ہٹایا جائے اس کے علاوہ پیکیجنگ پر ماں کے دودھ کی اہمیت اور اسے دو سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رکھنے کے حوالے سے اور چھ ماہ کی عمر سے قبل شیر خوار بچے کو ماں کے دودھ کے سوا کوئی اور غذا متعارف نہ کروانے کے بارے میں ہدایات درج ہوں۔عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف نے کورونا وائرس کی وباء کے دوران بھی ماؤں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا ہی دودھ پلائیں حتیٰ کہ وہ کووڈ کا شکار ہو چکی ہوں۔