جمہوریت کی کارکردگی
حقیقت یہ ہے کہ ہماری جمہوریت چند محلات کے اندر قید ہے
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یا کہلاتا ہے، عوام کو جمہوری ملک ہونے کا یقین دلانے کے لیے سیاسی جماعتیں ایسی سرگرمیاں کرتی ہیں جن سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے کام کر رہے ہیں۔
ہماری جمہوریت اس پروپیگنڈے کے گرد گھومتی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جمہوریت چند محلات کے اندر قید ہے، اس قیدی کو چھڑانے کے لیے چند لوگوں کی کوشش ممکن نہیں، اس کے لیے پوری قوم کو متحرک ہونا پڑے گا اور یہ کام اس لیے آسان نہیں کہ ہماری اشرافیہ نے عوام کو بے شمار ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔
اشرافیہ کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ رنگ، نسل، زبان قومیت وغیرہ کے حوالے سے عوام کو مختلف دھڑوں میں بانٹ کر رکھ دیتی ہے اور ضرورت کے مطابق ان دھڑوں کو استعمال کرتی ہے، ملاحظہ فرمائیے کہ جمہوریت کو دھڑوں میں بانٹ کر ہر دھڑے کا ایک انچارج مقرر کر دیا گیا ہے، یہی انچارج یا دھڑے باز اپنے علاقے کے عوام کو جمہوریت پر چلاتا ہے اور اپنی اجرت کھری کرتا ہے، یہی جمہوریت عشروں سے ہمارے ملک میں چل رہی ہے اور ساری دنیا میں اور ملک کے اندر اسی جمہوریت کا چلن ہے۔
بے چارے عوام چوہتر سال سے اسی جمہوریت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، یہ دھڑوں کی جمہوریت نہ عوام کے لیے ہے نہ عوام اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آج بھی تمام سیاست دانوں کو جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا ہے اور ہر آنے والے دن جمہوریت کا بخار تیز ہوتا جا رہا ہے، جمہوریت کے ٹھیکیدار عوام کو رجھانے کے لیے انھیں طرح طرح کے لارے لپے دے رہے ہیں۔
ان کے یہ گروہ اپنے مالکوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ کتنے عوام کو اس لائن میں کھڑا کرسکتے ہیں جو آنے والی سرکار کے لیے ووٹ کے ذخیرے کرسکتی ہے، ہماری جمہوریت ان ہی لوگوں کے کندھوں پر سوار ہے جب تک یہ جمہوریت رواں دواں ہے، ملک میں سیاسی کھیل اسی طرح جاری رہیں گے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اب بھی جمہوریت کے ٹھیکیدار آنے والے جمہوری دور کے لیے زور و شور سے تیاریاں کر رہے ہیں جب تک اس طرز سیاست کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، مسکین عوام ایک دھڑے کی چھتری سے نکل کر دوسرے دھڑے کی چھتری کے نیچے چلے جاتے ہیں اور سیاست کے چھوئے چھائے سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اس صورتحال کی ذمے داری وہ (دھڑے بازوں) پر عائد ہوتی ہے جو دھڑے سازوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے چارے عوام برائے راست سیاست میں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرتے، اس سلسلے کو مضبوط بنانے کے لیے دھڑوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ پاکستان ایک نیا ملک ہے اور اسے پرانے دھڑے باز اب تک چلا رہے ہیں کیا اس صورتحال سے ہمارے سیاستدان واقف نہیں ہیں؟ جب تک یہ سیاست جاری رہے گی عوام کے ووٹ اسی طرح ضایع ہوتے رہیں گے۔
نئے پاکستان کا نعرہ لے کر عمران خان نے دھڑلے سے جس سیاست میں قدم رکھا تھا اس سے بے چارے عوام کی کسی حد تک تسلی تو ہوتی ہے لیکن چونکہ روٹی کپڑا اور مکان ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں میں ہیں اور طے شدہ پلان کے تحت اس وراثتی جمہوریت کو عوام کے سروں پر بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کھینچا تانی کی سیاست میں بے چارے عوام پسے جا رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کیش پر کام کرنے والے کارکن اپنے لیے جگہ بنا رہے ہیں۔
ان حقائق کی نشان دہی کا مطلب کارکنوں کو دل برداشتہ کرنا نہیں بلکہ ان خطرات سے آگاہ کرنا ہے جو عوام کے سروں پر لٹک رہے ہیں یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہماری جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ اس نئی جمہوریت کو بھی عمل میں آتے ہوئے 50سال کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو خواص کے راستے سے نکال کر آزادانہ سوچ کے راستے پر ڈالا جاتا ہے کہ نہیں چونکہ انتخابات کی آمد آمد ہے آثار نثر آ رہے ہیں اور پیشہ ور سیاستدان پورے زور و شور سے متحرک ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اگر جمہوریت کے صحیح حامی ان شاطروں کے آگے دیوار بن کر نہ کھڑے ہوں اور ان کے منصوبوں کو ناکام نہ بنا دیں یہ عوام دشمن طاقتیں ایک بار پھر عوام کو دھوکا دے کر اقتدار کی طرف پیشرفت کریں گے، ان کا راستہ روکنے کے لیے ایک مضبوط حفاظتی دیوار کھڑی کرنے کی ضرورت ہے جسے پیشہ ور سیاستدان عبور نہ کرسکیں، یہی صورتحال آنے والے دور کی نشان دہی کرتی ہے جس کا عوام کو ابھی سے احساس اور تیاری کرنی چاہیے۔