نمبر ون عثمان بزدار … مگر
سردار عثمان بزدار جب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں تب سے وہ میڈیا کے نشانے پر رہتے ہیں
سردار عثمان بزدار جب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں تب سے وہ میڈیا کے نشانے پر رہتے ہیں، شروع شروع میں تو مجھے لگا کہ شاید ایک عرصے بعد پنجاب کو ''عام آدمی'' ملا ہے اس لیے اشرافیہ اور شاید عوام کو بھی یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی ، لیکن آہستہ آہستہ اس بات کا بھی ادراک ہونے لگا کہ شاید یہاں لمبے لمبے بوٹ پہننے والا، لگژری لائف گزارنے والا اور پانچ پانچ کیمپ آفسز رکھنے والا ہی عوام کا نمایندہ ہو سکتا ہے۔
کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں۔ بہرحال جب سے عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہر روز ٹی وی چینلز، کامیڈی شوز، سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں، ان کی ڈمی بنائی جاتی ہیں، ان سے ایسی ایسی باتیں منسوب کی جاتیں کہ خود حیرانی ہونا شروع ہو جاتی کہ کیا واقعی بزدار صاحب نے یہ عہدہ سنبھال کر غلطی کی!
خیر وزیر اعظم عمران خان بھی بضد رہے کہ اگر پنجاب کا کوئی وزیر اعلیٰ رہے گا تو وہ صرف عثمان بزدار ہی ہوگا اور اسی ضد میں انھوں نے ساڑھے تین سال کا عرصہ بھی گزار لیا۔ اور اب جب کہ بزدار صاحب کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کریں گے تو یقینا اُن کی کارکردگی میں استحکام بھی آیا ہے ، لاہور کے ایک ادارے نے چاروں وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کے حوالے سے ایک نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار3سالہ کارکردگی کے لحاظ سے تمام وزرائے اعلیٰ سے آگے ہیں۔ رائے دہندگان کی اکثریت نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے حق میں رائے دی اور 86 فیصد رائے دہندگان پنجاب حکومت کے تعلیم کی سہولتوں کے اقدامات پر مطمئن ہیں جب کہ خیبر پختونخوا حکومت80 فیصد، بلوچستان حکومت 62 فیصد اور سندھ حکومت 58 فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کر سکیں۔
پنجاب حکومت صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی بازی لے گئی، سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 72فیصد رائے دہندگان صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے بزدار حکومت سے مطمئن ہیں، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے 67فیصد کے ساتھ خیبرپختونخوا حکومت دوسرے، 56 فیصد کے ساتھ بلوچستان حکومت تیسرے اور 53 فیصد کے ساتھ سندھ حکومت چوتھے نمبر پر رہی۔
ویسے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کیے جانے والے سروے ہمیشہ مشکوک ثابت ہوتے رہے ہیں، اور اگر اسی اثناء میں حالیہ سروے کی بات کی جائے تو اس سروے کی تصدیق اور کارگر ہونے کے لیے 2تین مہینے انتظار کر لیں سب کچھ سامنے آجائے گا کیوں کہ پنجاب حکومت ہی نے بلدیاتی انتخابات 15مئی کو کرانے کا اعلان کر دیا ہے جو عمران خان سے زیادہ عثمان بزدار کے لیے چیلنج ہے، اور ویسے بھی پاکستانی ووٹروں کا لندن کے موسم کی طرح کوئی اعتبار نہیں،یہ نعرے کسی کے لگاتے ہیں،کھانا ایک انتخابی دفتر میں بیٹھ کر کھاتے اور ووٹ کہیں اور دے آتے ہیں۔
خدانخواستہ مئی جون کے بلدیاتی انتخابات میں نتائج تحریک انصاف کے حق میں نہ نکلے تو عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ سروے کرنے والے ادارے کی ساکھ بھی مجروح ہو گی، بلکہ داغدارہوگی۔کیوں کہ بادی النظر میں حالات اتنے اچھے نہیں جتنے اچھے سروے میں دکھائے جا رہے ہیں۔
بلکہ یہ تو محض ایک موازنہ ہے اور موازنہ بھی چار صوبوں کے درمیان ہے اور جن تین ہزار افراد پر یہ سروے کیا گیا ہے، اُن کا بھی علم نہیں کہ انھیں کس صوبے سے لیا گیا ہے۔ ویسے بہتر ہوتا کہ موجودہ حکومت کو پچھلی حکومت کے ساتھ جوڑ کر بات کی جاتی تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ کیوں کہ پنجاب میں ابھی بہت سے کام کرنے والے ہیں، ترقیاتی کاموں کو ایک طرف رکھیں، اور صرف تعلیم، صحت اور بیوروکریسی ہی کو دیکھ لیں تو حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔
بیڈ گورننس انتہا کو پہنچ چکی ہے، ہر طرف ناجائز منافع خوری کی جا رہی ہے، گندم کی اسمگلنگ سے لے کر یوریا کھاد کی بوریاں غائب کرنے اور کسان کے عدم تحفظ تک ابھی بہت سے معاملات حل طلب ہیں، اور بزدار صاحب کے لیے یہ اہم سال ہے اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی، کیونکہ عوام نے پچھلے ساڑھے 3 برسوں میں حکومت کی ترجیحات کا موازنہ کیا ہے، ان کے وعدوں کی تکمیل کے چشم دید گواہ عوام خود ہیں، اور اس آخری ڈیڑھ برس میں یہ حکومت عوام کے لیے اگلے 5 سال کے وژن کی منظر کشی کرے گی۔
چلیں یہ بھی مان لیا کہ پنجاب میں بھرپور جوش و خروش سے قومی صحت کارڈ پر کام ہورہا ہے اور صحت کارڈ کی تقسیم جاری ہے، اس کے ذریعے پنجاب کے 3کروڑ خاندان 10لاکھ روپے تک کا علاج منظور شدہ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کرا سکیں گے۔لیکن شہریوں کی شکایات بھی سن لیں کہ کوئی اسپتال بھی صحت کارڈ رکھنے والوں کو اس کے استعمال کا طریقہ نہیں بتاتا۔ نا ہی حکومت Awairnessمہم چلا سکی ہے۔
''سویلین شہداء'' کا معاملہ ہے ، جس کے بارے میں بزدار حکومت نے فنڈز بھی رکھے تھے مگر پنجاب کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ابھی تک اس فنڈ کے استعمال کا ذکر نہیں مل رہا۔ یہ بھی نہیں علم کہ پرانے بجٹ کو واپس کر دیا جائے گا یا کوئی وزارت یا ڈیپارٹمنٹ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔خیر یہ ایک لمبی بحث ہے جس پر پھر دوبارہ کسی دن روشنی ڈالوں گا۔ لیکن فی الوقت بزدار حکومت کے کرنے والے کاموں میں سے ایک کام نوجوانوں کے لیے بھی ہے۔یعنی ہمارے درمیان موجود 60فیصد نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں حکومت کو فکر نہیں ہے، حکومت نے ان جوانوں کے لیے جو یوتھ پروگرام شروع کیے ہیں۔
اس سے نوجوانوں کا ایک فیصد حصہ بھی مستفید نہیں ہو رہا۔ بلکہ سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ روزگار نہ ہونے کے باعث اب پڑھے لکھے نوجوان آن لائن فراڈ، یا گیمبلنگ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو یقینا اس معاشرے، ملک اور خود حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو انھی نوجوان کے کندھوں پر بیٹھ کر منصب پر آئی ہے۔ لہٰذاسرویز میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے بزدار صاحب موجودہ اسپیڈ برقرار رکھتے ہوئے چند مہینوں میں عمران خان بلکہ پاکستان سے بھی آگے نہ نکل جائیں گے ۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ہمیں سروے وغیرہ کو چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں سفر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگلے پانچ سال بھی بزدار صاحب حکومت کر سکیں۔