اومی کرون سے منی بجٹ تک
گزشتہ دو برسوں سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
کراچی:
گزشتہ دو برسوں سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وقفے وقفے سے کورونا وائرس کی نئی لہر نئے ناموں کے ساتھ منظر عام پر آتی ہے اور ہزاروں لوگوں کو اپنا لقمہ بنا کر دہشت پھیلا دیتی ہے۔
نہ صرف یہ کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں، جہاں صحت و صفائی کے گمبھیر مسائل اور طبی سہولیات کا گہرا فقدان ہے، کورونا وائرس کی لہریں تباہی پھیلاتی ہیں بلکہ مغرب و یورپ کے ترقی یافتہ اور طبی لحاظ سے جدید ترین سہولتوں کے حامل ممالک جن میں امریکا ، برطانیہ ، فرانس، روس، چین وغیرہ شامل ہیں، حالیہ دنوں میں بھی کورونا وائرس نے ہزاروں لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اموات کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے عام لوگوں کے بارے میں تو یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی ہوں گی، بد پرہیزی کی ہوگی، سنجیدگی سے علاج معالجے پر توجہ نہیں دی ہوگی اور غفلت و لاپروائی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔
اس لیے کورونا وائرس نے ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ خود ڈاکٹر حضرات، پیرامیڈیکل اسٹاف اور طب کے شعبے سے متعلق دیگر لوگ جو کورونا وائرس، اس کی سنگینی، علامات اور علاج و احتیاط کے حوالے سے پوری طرح جان کاری رکھتے ہیں وہ بھی کورونا کے مہلک وار سے خود کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ دنیا کے مختلف ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے میں درجنوں ماہر ڈاکٹر حضرات کورونا وائرس کے حملوں سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
سردست کورونا وائرس کی ایک نئی قسم اومی کرون نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان سمیت امریکا، برطانیہ، روس، فرانس اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اومی کرون وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ برق رفتاری سے اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک 30 کروڑ کے لگ بھگ افراد دنیا بھر میں اومی کرون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ نہ صرف اس وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافے کے امکانات بھی ظاہرکیے جا رہے ہیں جو یقینا تشویش ناک صورت حال ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اومی کرون کے مریضوں کی تعداد میں برق رفتاری سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد بالخصوص کراچی میں مثبت کیسوں کی تعداد چالیس فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ صورتحال کی نزاکت، سنگینی اور امکانی خطرات کے پیش نظر حکومتی سطح پر میڈیا کے ذریعے عوام سے تسلسل کے ساتھ اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ وہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کریں، ماسک پہنیں، سینی ٹائزر استعمال کریں، چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں اور جلد ازجلد ویکسین لگوائیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرکے ہی اومی کرون سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں ملک میں اومی کرون کے مثبت کیسوں کی شرح میں اضافے کے پیش نظر بعض تازہ اقدامات اٹھائے ہیں جن کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ میں کھانے پینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، ماسک کے استعمال اور ویکسین لگوانے کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
حکومت سندھ نے عوامی مقامات، خریداری کے مراکز، سرکاری و نجی دفاتر، شادی ہالوں اور تعلیمی درس گاہوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے احتیاط کی میڈیا کے ذریعے تمام تر تشہیر کے باوجود عوامی سطح پر صورت حال خاصی ناگفتہ بہ ہے۔ لوگ نہ تو ماسک پہنتے ہیں، نہ سینی ٹائزر استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی چھ فٹ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے میں سنجیدہ ہیں۔
گھر، دفتر، بازار، شادی ہال، شاپنگ مال اور اسکول ہر جگہ کورونا احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ سرکاری، مذہبی اور سیاسی اجتماعات، جلسے، جلوس، ریلیاں اور دیگر تقریبات میں ہمارے رہنما و قائدین بھی پابندیوں سے مبرا نظر آتے ہیں۔
جب عوام اور خواص ہر دو فریق احتیاط کا دامن چھوڑ دیں گے تو پھر کورونا وائرس ہو یا اومی کرون مثبت کیسوں کی شرح میں اضافہ لازمی امر ہے۔ محض تشہیری مہم جوئی سے کورونا پر قابو پانا ممکن ہی نہیں۔ حکومت کو ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، سخت پابندیاں لگانا ہوں گی اور فول پروف ایس او پیز نافذ کرنا ہوں گے۔ بعینہ عوام کو بھی کورونا ایس او پیز کی سختی سے پابندی کرنا ہوگی۔ احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر نہ وہ خود محفوظ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے اطراف و جوانب کے لوگ اس مہلک مرض سے خود کو بچا سکتے ہیں۔
ایک جانب اومی کرون تیزی سے اپنے پر پھیلا رہا ہے اور لوگوں کی زندگی اس کے رحم و کرم پر ہے تو دوسری جانب حکومت عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضے کے حصول کی خاطر اس کی کڑی شرائط تسلیم کرتے ہوئے بالآخر پی ٹی آئی حکومت قومی اسمبلی سے منی بجٹ پاس کروانے میں کامیاب ہوگئی۔
جس کے مطابق حکومت کو 343 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر حکومتی وزرا تواترکے ساتھ یہ دعوے کرتے رہے کہ ضمنی بجٹ سے عام آدمی پر نہیں بلکہ طبقہ اشرافیہ پر بوجھ پڑے گا ، لیکن جو بل سامنے آیا ہے۔
اس میں درآمدی موبائل فون ، شیر خوار بچوں کے دودھ، ادویات کے خام مال اور صنعتی و تجارتی آلات سمیت 140 سے زائد اشیا پر 17 فی صد سیلز ٹیکس نافذ کردیا گیا ہے۔ زرعی بیجوں، پودوں، آلات و ادویات پر بھی سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جس سے کسان طبقہ براہ راست متاثر ہوگا۔ اسی طرح نیوز پرنٹ، کتابوں اور کاپیوں پر ٹیکس کے نفاذ سے تعلیم و تدریس کا شعبہ متاثر ہوگا۔ ضمنی بجٹ سے خواص نہیں بلکہ عام آدمی متاثر ہوگا۔ صنعتی و کاروباری طبقے اور ماہرین معاشیات نے بل کو معیشت اور پیداواری عمل پر منفی اثرات پڑنے کا باعث قرار دیا ہے۔
بجٹ منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئیں تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود اسمبلی میں منی بجٹ کی منظوری کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکی اور حکومت اسے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ اپوزیشن کا کوئی حال نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف تحریک، استعفے، لانگ مارچ سب زبانی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں۔ کمزور اور منتشر اپوزیشن ہی حکومت کی مضبوطی کا باعث ہے۔ اب نئی قیادت کو آگے لانے کی بحث نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کردیا ہے۔