حکومتی کارکردگی سوالیہ نشان
وفاقی وزراء خسرو بختیار اور حماد اظہر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں کھاد کی کوئی قلت نہیں
BUENOS AIRES:
وفاقی وزراء خسرو بختیار اور حماد اظہر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں کھاد کی کوئی قلت نہیں۔ حکومت نے کسانوں کو 400 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کی وبا سے کھاد کی پیداوار متاثر ہوئی ہے جب کہ پاکستان میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
پاکستان نے اپنے موثر اقدامات سے سستی کھاد کی دستیابی یقینی بنائی ہے۔ وزیر توانائی حماد اظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ یوریا کی عالمی منڈی میں قیمت 11 ہزار روپے ٹن اور پاکستان میں یہ 18 سو روپے فی بوری ہے اور حکومتی منافع کسان کو منتقل کیا گیا ہے۔ خسرو بختیار کے مطابق فروری، مارچ میں لاکھوں بوری اضافی کھاد ملک میں موجود ہوگی۔
اس پریس کانفرنس کے بعد میڈیا پر کسان رہنما اور کاشتکاروں کی دہائیاں جاری تھیں کہ پنجاب اور کے پی میں سخت سردی اور بارشوں کے باوجود وہ صبح سے قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد بھی کھاد کے حصول سے محروم ہیں اور صرف دو بوری بلیک میں بہ مشکل مل رہی ہے اور عام کسانوں کے بجائے بااثر بڑے زمین داروں اور حکومتی حامیوں کو ان کی طلب کے مطابق کھاد سرکاری نرخ پر مل جاتی ہے اور کھاد بلیک ہو رہی ہے اور غریب کسانوں کو دستیاب نہیں ہے جب کہ حکومتی وزرا غلط بیانی اور عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔
ملک میں گزشتہ سال چینی کی شدید قلت پیدا کی گئی اور چینی ایک سو تیس چالیس روپے فی کلو تک بلیک میں فروخت ہوتی رہی مگر وفاقی وزرا حقائق کے برعکس دعوے کرتے رہے اور اسی طرح اب کھاد کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ ماننے کو تیار نہیں اور کھاد کی قلت کو غلط یا اسمگلنگ قرار دے رہے ہیں اور کھاد کی قلت سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہونے والی اسمگلنگ اور سندھ حکومت کی عدم نگرانی کو قرار دے رہے ہیں۔ حکومتی دعوے کے مطابق ملک میں کھاد کی قلت نہیں مگر کسان سخت پریشان ہیں۔
انھیں اضافی قیمت پر کھاد بھی نہیں مل رہی، یہی حال ملک میں گرمیوں میں بجلی کا تھا۔ حکومت کے مطابق سابق (ن) لیگی حکومت ملک میں اضافی مہنگی بجلی بنا گئی تھی جب کہ طلب کم تھی مگر گرمیوں میں ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی۔ سردیوں میں بھی عوام کو ضرورت کے مطابق بجلی نہیں مل رہی تو عوام وزیر توانائی سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اضافی بجلی کیا حکومت نے بلیک کرنے یا اسمگل کرنے کے لیے محفوظ کر رکھی ہے۔ ملک میں بجلی کی قیمتوں میں نہ صرف مسلسل اضافہکیا جا رہا ہے بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ گرمیوں میں استعمال کی جانے والی بجلی پر سردیوں میں اضافی نرخ وصول کیے جا رہے ہیں۔ توانائی جیسا اہم محکمہ حماد اظہر کے سپرد ہے،انھیں شروع میں وزیر مملکت بنایا گیا تھا پھر وہ وفاقی وزیر بنائے گئے۔
خزانہ کا اہم محکمہ انھیں چند روز میں دے کر واپس لے لیا گیا تھا اور اب وہ وزیر توانائی ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گرمیوں میں عوام کو مسلسل بجلی ملی اور نہ سردیوں میں گیس۔دیکھا جائے تو تمام حکومتی وزیر اپنے ہر اعلان سے منحرف ہو جانے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں، ایل این جی وقت پر نہ منگوانے اور بعد میں مہنگی منگوانے کے ذمے دار بھی حکومتی وزیر ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد چوتھی سردیوں میں بھی ملک گیس کے بحران میں مبتلا ہے۔
محکمہ خزانہ اور اطلاعات سے عوام کا برائے راست تعلق نہیں مگر وہاں بھی وزیر تبدیل ہوتے رہے اور مختلف وزیر آئے گئے نہ ملک کی معیشت بہتر ہوئی نہ کوئی وزیر اعظم کو مطمئن کرسکا۔ حکمران قیادت اپنی میڈیا ٹیم اور ترجمانوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کے باوجود حکومتی اقدامات کے موثر تشہیر سے غیر مطمئن اور وزرائے اطلاعات تبدیل کرتے رہے ہیں سندھ سے پی ٹی آئی کے متعدد اور دو اتحادی وفاقی وزیر ہیں مگر اسد عمر کے سوا کسی وزیر نے اندرون سندھ کے دورے نہیں کیے ، وزراء کو سندھ کے دوروں کا وقت نہیں ملتا تو دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سندھ کے دوروں کا تکلف کیوں کرتے؟
کئی وزراء برائے نام کراچی آئے مگر اندرون سندھ نہیں گئے ممکن ہے کبھی کبھی یا تہواروں پر اپنے حلقہ انتخاب چلے جاتے ہوں کیونکہ اسلام آباد کے پرتعیش اور وی وی آئی پی ماحول سے نکلنے کو ان کا دل ہی نہیں چاہتا تو وہ اندرون ملک کیوں جائیں جہاں انھیں عوام کی شکایتیں سننا پسند نہیں تو وہ وہاں کیوں جائیں۔ خود حکمران قیادت کا یہی حال ہے وہ کراچی بھی صرف چند گھنٹوں کے لیے کبھی کبھی آتے ہیں جہاں پی ٹی آئی کو اکثریت دلائی گئی تھی۔ ان کے کراچی کے وزیروں کو بھی اسلام آباد ہی پسند ہے اور کسی ایک وزیر کی بھی کارکردگی بھی اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔