ویراں ہیں چاہنے والوں کے دل
بے شک ہم اپنے رب کے پاس سے آئے ہیں اور رب کے پاس لوٹنا ہے
کراچی:
بے شک ہم اپنے رب کے پاس سے آئے ہیں اور رب کے پاس لوٹنا ہے۔ دنیا میں ہماری حیثیت کتنی بڑی ہو جائے ہمیں لوٹنا اپنے رب کی طرف ہے جو نیکیاں کرنی ہیں زندگی میں کرلیں، کیونکہ رب کی طرف لوٹنے کے بعد نیکی کرنے کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور بندہ ایصال ثواب کا انتظار کرتا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگیوں سے بہت سی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں۔
جنوری کا مہینہ کچھ لوگوں کو ضرور یاد کرتا ہے ، اپنے وقت کے سلطان جو سلطان راہی تھے سدھیر اور مہ نازکی یادیں ،آج بھی ان کے پرستاروں کو یاد آتی ہیں۔ سلطان راہی تو فن اداکاری کے شہید تھے ، ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی پھر بھی چند لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر انھیں شہید کردیا اور آج تک یہ راز نہیں کھلا کہ یہ کون لوگ تھے۔
راقم کا ان سے بہت محبت کا رشتہ تھا جب بھی لاہور جاتا ان سے اور لالہ سدھیر سے ضرور ملاقات ہوتی۔ سلطان راہی نے کبھی کسی پروڈیوسر کو معاوضے کے حوالے سے پریشان نہیں کیا، پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی جن میں صوبہ پنجاب قابل ذکر ہے۔
فلم انڈسٹری میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر بن رہی تھیں جو فنکار ٹی وی سے آئے تھے دوبارہ ٹی وی کی طرف لوٹ گئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کردی تھی اس وقت سلطان راہی ہی تھے جن کی وجہ سے ایور نیو اسٹوڈیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں انھوں نے کولہو کے بیل کی طرح مزدوروں کے لیے کام کیا کہ ان کے گھر کے چولہے جلتے رہیں۔ سلطان راہی واحد ہیرو تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود پرستاروں کے دل کی دھڑکن تھے۔
1975 سے لے کر 1995 تک انھوں نے فلم انڈسٹری پر حکومت کی اور اکثر ان کی فلمیں سپرہٹ ہوتی تھیں کراچی میں شروع ہونے والی فلم ''سڑک'' کی شوٹنگ تھی راقم اس زمانے میں ایک بڑے روزنامے میں شوبزنس میگزین کا انچارج تھا وہ کراچی آئے ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے ایک عام سے ہوٹل میں قیام کیا جب کہ انڈسٹری میں B کلاس ایکٹر بھی 5 اسٹار ہوٹل میں ٹھہرتے تھے کبھی فلم ساز کو پریشان نہیں کیا جس دن ان کے ساتھ انٹرویو تھا اس دن شہر میں کوئی حادثہ ہوا تھا جس کی وجہ سے ''سڑک'' کی شوٹنگ ملتوی ہوگئی اور یوں 3 گھنٹے ملاقات رہی ان کی اردو بہت مہذب اور خوبصورت تھی۔
میں نے پوچھ لیا کہ راہی صاحب! آپ کی اردو بہت شستہ ہے، اس کی وجہ؟ تو ہنستے ہوئے کہا کہ بیٹا ! میری مادری زبان تو اردو ہے سہارن پور (یوپی) میں پیدا ہوا، کم عمری میں والدین کے ساتھ ہجرت کی اور پنڈی میں آباد ہوگئے، پنڈی سے میٹرک کیا، فلموں کے سائن بورڈ بنایا کرتا تھا، مزدوری بھی کی، پھر ایک دکان میں سیلز مین کی جاب کرلی، دکان کے مالک فرحت صاحب اچھے انسان تھے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے لاہور میں اخلاق احمد انصاری مرحوم نے مجھے رہائش دی، 1968 تک بہت سخت زندگی کے دن گزرے، فلم ''باغی'' میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔
سدھیر بہت اچھے انسان تھے، حالانکہ وہ بھی پنجابی فلموں کے سپرہٹ ہیرو تھے مگر دل کے بادشاہ انسان تھے انھوں نے ہدایت کار اقبال کاشمیری مرحوم سے کہہ کر مجھے فلم ''باغی'' میں کاسٹ کروایا، اس فلم نے میری زندگی بدل دی، میں نے ہمیشہ سدھیر صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ ایک دن سدھیر صاحب نے کہا کہ اگر میں فلم بناؤں تو کیا وقت دے سکو گے؟ میں نے کہا میں بہت مصروف ہوں، مگر آپ کی فلم کے لیے رات 12 بجے سے لے کر صبح 5 بجے تک کام کروں گا، اور متواتر کام کرنے سے فلم 3 ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔
نذرالسلام کے پاس انڈین مصنف کی کہانی تھی وہ اس پر فلم بنانا چاہتے تھے اور فلم کا نام ''پاکستان زندہ باد تھا'' مگر کچھ عرصے کے بعد سدھیر صاحب صاحبِ فراش ہوئے اور یہ پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا جس کا مجھے دکھ ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں وہ کہتے رہے اور ہم سنتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے صادق آباد سے لے کر اسلام آباد تک رہنے والوں سے بہت پیار ہے کہ انھوں نے بہ حیثیت ایکٹر میری بہت حوصلہ افزائی کی، وحید مراد بہت پیارا انسان تھا، میرے ان سے اور محمد علی سے بہت اچھے تعلقات تھے، وحید مراد کے کہنے پر اسلم ڈار نے مجھے ''بشیرا'' میں مرکزی کردار دیا، اس فلم نے زندگی بدل دی، سلطان راہی نمازی پرہیز گار انسان تھے ، اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اور امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، انھیں فلمی صنعت میں آغا جانی کہا جاتا تھا۔
اداکار سدھیرکسی تعارف کے محتاج نہیں ، ان کا نام شاہ زمان خان آفریدی تھا۔ 1922 لاہور کے علاقے شیرانوالاگیٹ میں پیدا ہوئے ۔1946 میں رانی کے ساتھ فلم ''فرض'' میں ہیرو آئے پھر 1949 میں داؤد چاند کی فلم ''ہچکولے'' میں نجمہ کے مقابل ہیرو آئے یہ پاکستان کی دوسری فلم تھی جب کہ پہلی فلم ''تیری یاد'' تھی۔
مارچ 1954 میں فلم ''گلفام'' ریلیز ہوئی پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ''سسی'' جو گولڈن جوبلی فلم تھی اس کے ہیرو سدھیر اور ہیروئن صبیحہ خانم مرحومہ تھیں جو سنتوش کی بیوی اور اداکار درپن کی بھاوج تھیں۔ سدھیر مرحوم کی فلم ''دلا بھٹی'' وہ فلم تھی جس کی آمدنی سے لاہور میں ایک بڑا خوبصورت اسٹوڈیو بنا اس فلم کے ایک گیت نے دھوم مچا دی تھی جو قارئین زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے انھیں یہ گیت تو یاد ہوگا بہت خوبصورت گیت تھا:
واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا
پھر سدھیر مرحوم کی فلم ''ماہی منڈا'' نے اتنا بزنس کیا کہ ایک اور اسٹوڈیو تعمیر ہوا، ان کی فلم ''جٹی'' کی آمدنی سے لاہور کا مبارک سینما بنوایا گیا۔ آخری ایام میں پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی ہیروئن (جو 80 سالہ تھیں) نے ہماری ملاقات جناب سدھیر صاحب سے کروائی انھوں نے فلمی صنعت اور شوبزنس کے صحافیوں سے ملنا بالکل چھوڑ دیا تھا ۔
گلوکارہ مہ ناز مرحومہ کجن بائی کی بیٹی تھیں جو اپنے وقت کی بہترین گلوکارہ تھیں، یہ تربیت انھیں ماں کی طرف سے ملی تھی۔ مہ ناز بہت نیک دل خاتون تھیں ان کے ساتھ کئی مرتبہ لاہور اور اسلام آباد جانا ہوا۔ اسلام آباد میں اجمل صدیقی جو کاروباری شخصیت تھے۔ مہ ناز ان کا بہت ادب کرتی تھیں، اجمل صاحب نے مہ ناز مرحومہ کا تعارف ایک صاحب راحیل سے کروایا اور بتایا کہ معاشی طور پر بہت پریشان ہیں یہ 1992 کی بات ہے ان کی دو بیٹیوں کی شادی ہے، ہم ایک پروگرام ''دھنک'' منعقد کر رہے ہیں اگر آپ خصوصی طور پر دو گیت سنا دیں تو اس شو کی آمدنی سے ان کی بچیوں کی شادی ہو جائے گی۔
مہ ناز نے وعدہ کیا ۔ مہ ناز اور میں ملتان میں ایک فنکشن تھا وہاں چلے گئے ، ملتان میں 4 دن رہنے کے بعد دوبارہ اسلام آباد آئے اور مہ ناز اس شو میں شریک ہوئیں اکثر فنکار فائیو اسٹار ہوٹل کی بات کرتے ہیں مگر مہ ناز ان کے ایک عزیز کے ہاں ٹھہر گئیں یہ عالم تھا سادگی کا، ان کی سپر ہٹ فلموں میں خوشبو، آئینہ، قربانی، ان داتا، جاگیر، تلاش، بڑے میاں دیوانے اور نہ جانے کتنی فلمیں ہیں جب کہ نور جہاں مرحومہ ایک منفرد مقام رکھتی تھیں فلم ''سلاخیں'' کا یہ گیت ''تیرے میرے پیارکا ایسا ناتا ہے'' یہ فلم صرف تین افراد کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھی ہدایت کار حسن عسکری، محمد علی اور مہ ناز۔ اب دوبارہ ''دھنک'' شو کی طرف چلتے ہیں۔
بغیر کسی معاوضے کے انھوں نے بچیوں کی شادی کے حوالے سے دو گیت پیش کیے جب کہ اس زمانے میں کسی فنکشن میں صرف دو گیتوں کا معاوضہ وہ خاصا لیا کرتی تھیں مگر انھوں نے کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اس شو کی آمدنی 1992 میں ایک لاکھ 20 ہزار ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے راحیل صاحب کو ایک لاکھ کا چیک دیا اس زمانے میں جہیز کی اتنی ادھم بازی نہیں تھی جو آج پائی جاتی ہے، راحیل صاحب چیک وصول کرتے ہوئے رو دیے اور مہ ناز کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا آپ کو اس کا اجر ملے گا وہ واقعی بہت اچھی زندگی گزار کر گئیں اور عزت و آبرو کی موت پائی، زندگی میں سیکڑوں ایوارڈز لیے جس کا تذکرہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی جنوری آتا ہے یہ لوگ شوبزنس کے قارئین کو بہت یاد کرتے ہیں رب سلطان راہی، سدھیر اور مہ ناز کی مغفرت کرے۔ (آمین) تم کیا گئے خوشی کے چراغ بجھ گئے۔
بے شک ہم اپنے رب کے پاس سے آئے ہیں اور رب کے پاس لوٹنا ہے۔ دنیا میں ہماری حیثیت کتنی بڑی ہو جائے ہمیں لوٹنا اپنے رب کی طرف ہے جو نیکیاں کرنی ہیں زندگی میں کرلیں، کیونکہ رب کی طرف لوٹنے کے بعد نیکی کرنے کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور بندہ ایصال ثواب کا انتظار کرتا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگیوں سے بہت سی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں۔
جنوری کا مہینہ کچھ لوگوں کو ضرور یاد کرتا ہے ، اپنے وقت کے سلطان جو سلطان راہی تھے سدھیر اور مہ نازکی یادیں ،آج بھی ان کے پرستاروں کو یاد آتی ہیں۔ سلطان راہی تو فن اداکاری کے شہید تھے ، ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی پھر بھی چند لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر انھیں شہید کردیا اور آج تک یہ راز نہیں کھلا کہ یہ کون لوگ تھے۔
راقم کا ان سے بہت محبت کا رشتہ تھا جب بھی لاہور جاتا ان سے اور لالہ سدھیر سے ضرور ملاقات ہوتی۔ سلطان راہی نے کبھی کسی پروڈیوسر کو معاوضے کے حوالے سے پریشان نہیں کیا، پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی جن میں صوبہ پنجاب قابل ذکر ہے۔
فلم انڈسٹری میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر بن رہی تھیں جو فنکار ٹی وی سے آئے تھے دوبارہ ٹی وی کی طرف لوٹ گئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کردی تھی اس وقت سلطان راہی ہی تھے جن کی وجہ سے ایور نیو اسٹوڈیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں انھوں نے کولہو کے بیل کی طرح مزدوروں کے لیے کام کیا کہ ان کے گھر کے چولہے جلتے رہیں۔ سلطان راہی واحد ہیرو تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود پرستاروں کے دل کی دھڑکن تھے۔
1975 سے لے کر 1995 تک انھوں نے فلم انڈسٹری پر حکومت کی اور اکثر ان کی فلمیں سپرہٹ ہوتی تھیں کراچی میں شروع ہونے والی فلم ''سڑک'' کی شوٹنگ تھی راقم اس زمانے میں ایک بڑے روزنامے میں شوبزنس میگزین کا انچارج تھا وہ کراچی آئے ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے ایک عام سے ہوٹل میں قیام کیا جب کہ انڈسٹری میں B کلاس ایکٹر بھی 5 اسٹار ہوٹل میں ٹھہرتے تھے کبھی فلم ساز کو پریشان نہیں کیا جس دن ان کے ساتھ انٹرویو تھا اس دن شہر میں کوئی حادثہ ہوا تھا جس کی وجہ سے ''سڑک'' کی شوٹنگ ملتوی ہوگئی اور یوں 3 گھنٹے ملاقات رہی ان کی اردو بہت مہذب اور خوبصورت تھی۔
میں نے پوچھ لیا کہ راہی صاحب! آپ کی اردو بہت شستہ ہے، اس کی وجہ؟ تو ہنستے ہوئے کہا کہ بیٹا ! میری مادری زبان تو اردو ہے سہارن پور (یوپی) میں پیدا ہوا، کم عمری میں والدین کے ساتھ ہجرت کی اور پنڈی میں آباد ہوگئے، پنڈی سے میٹرک کیا، فلموں کے سائن بورڈ بنایا کرتا تھا، مزدوری بھی کی، پھر ایک دکان میں سیلز مین کی جاب کرلی، دکان کے مالک فرحت صاحب اچھے انسان تھے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے لاہور میں اخلاق احمد انصاری مرحوم نے مجھے رہائش دی، 1968 تک بہت سخت زندگی کے دن گزرے، فلم ''باغی'' میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔
سدھیر بہت اچھے انسان تھے، حالانکہ وہ بھی پنجابی فلموں کے سپرہٹ ہیرو تھے مگر دل کے بادشاہ انسان تھے انھوں نے ہدایت کار اقبال کاشمیری مرحوم سے کہہ کر مجھے فلم ''باغی'' میں کاسٹ کروایا، اس فلم نے میری زندگی بدل دی، میں نے ہمیشہ سدھیر صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ ایک دن سدھیر صاحب نے کہا کہ اگر میں فلم بناؤں تو کیا وقت دے سکو گے؟ میں نے کہا میں بہت مصروف ہوں، مگر آپ کی فلم کے لیے رات 12 بجے سے لے کر صبح 5 بجے تک کام کروں گا، اور متواتر کام کرنے سے فلم 3 ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔
نذرالسلام کے پاس انڈین مصنف کی کہانی تھی وہ اس پر فلم بنانا چاہتے تھے اور فلم کا نام ''پاکستان زندہ باد تھا'' مگر کچھ عرصے کے بعد سدھیر صاحب صاحبِ فراش ہوئے اور یہ پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا جس کا مجھے دکھ ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں وہ کہتے رہے اور ہم سنتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے صادق آباد سے لے کر اسلام آباد تک رہنے والوں سے بہت پیار ہے کہ انھوں نے بہ حیثیت ایکٹر میری بہت حوصلہ افزائی کی، وحید مراد بہت پیارا انسان تھا، میرے ان سے اور محمد علی سے بہت اچھے تعلقات تھے، وحید مراد کے کہنے پر اسلم ڈار نے مجھے ''بشیرا'' میں مرکزی کردار دیا، اس فلم نے زندگی بدل دی، سلطان راہی نمازی پرہیز گار انسان تھے ، اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اور امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، انھیں فلمی صنعت میں آغا جانی کہا جاتا تھا۔
اداکار سدھیرکسی تعارف کے محتاج نہیں ، ان کا نام شاہ زمان خان آفریدی تھا۔ 1922 لاہور کے علاقے شیرانوالاگیٹ میں پیدا ہوئے ۔1946 میں رانی کے ساتھ فلم ''فرض'' میں ہیرو آئے پھر 1949 میں داؤد چاند کی فلم ''ہچکولے'' میں نجمہ کے مقابل ہیرو آئے یہ پاکستان کی دوسری فلم تھی جب کہ پہلی فلم ''تیری یاد'' تھی۔
مارچ 1954 میں فلم ''گلفام'' ریلیز ہوئی پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ''سسی'' جو گولڈن جوبلی فلم تھی اس کے ہیرو سدھیر اور ہیروئن صبیحہ خانم مرحومہ تھیں جو سنتوش کی بیوی اور اداکار درپن کی بھاوج تھیں۔ سدھیر مرحوم کی فلم ''دلا بھٹی'' وہ فلم تھی جس کی آمدنی سے لاہور میں ایک بڑا خوبصورت اسٹوڈیو بنا اس فلم کے ایک گیت نے دھوم مچا دی تھی جو قارئین زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے انھیں یہ گیت تو یاد ہوگا بہت خوبصورت گیت تھا:
واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا
پھر سدھیر مرحوم کی فلم ''ماہی منڈا'' نے اتنا بزنس کیا کہ ایک اور اسٹوڈیو تعمیر ہوا، ان کی فلم ''جٹی'' کی آمدنی سے لاہور کا مبارک سینما بنوایا گیا۔ آخری ایام میں پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی ہیروئن (جو 80 سالہ تھیں) نے ہماری ملاقات جناب سدھیر صاحب سے کروائی انھوں نے فلمی صنعت اور شوبزنس کے صحافیوں سے ملنا بالکل چھوڑ دیا تھا ۔
گلوکارہ مہ ناز مرحومہ کجن بائی کی بیٹی تھیں جو اپنے وقت کی بہترین گلوکارہ تھیں، یہ تربیت انھیں ماں کی طرف سے ملی تھی۔ مہ ناز بہت نیک دل خاتون تھیں ان کے ساتھ کئی مرتبہ لاہور اور اسلام آباد جانا ہوا۔ اسلام آباد میں اجمل صدیقی جو کاروباری شخصیت تھے۔ مہ ناز ان کا بہت ادب کرتی تھیں، اجمل صاحب نے مہ ناز مرحومہ کا تعارف ایک صاحب راحیل سے کروایا اور بتایا کہ معاشی طور پر بہت پریشان ہیں یہ 1992 کی بات ہے ان کی دو بیٹیوں کی شادی ہے، ہم ایک پروگرام ''دھنک'' منعقد کر رہے ہیں اگر آپ خصوصی طور پر دو گیت سنا دیں تو اس شو کی آمدنی سے ان کی بچیوں کی شادی ہو جائے گی۔
مہ ناز نے وعدہ کیا ۔ مہ ناز اور میں ملتان میں ایک فنکشن تھا وہاں چلے گئے ، ملتان میں 4 دن رہنے کے بعد دوبارہ اسلام آباد آئے اور مہ ناز اس شو میں شریک ہوئیں اکثر فنکار فائیو اسٹار ہوٹل کی بات کرتے ہیں مگر مہ ناز ان کے ایک عزیز کے ہاں ٹھہر گئیں یہ عالم تھا سادگی کا، ان کی سپر ہٹ فلموں میں خوشبو، آئینہ، قربانی، ان داتا، جاگیر، تلاش، بڑے میاں دیوانے اور نہ جانے کتنی فلمیں ہیں جب کہ نور جہاں مرحومہ ایک منفرد مقام رکھتی تھیں فلم ''سلاخیں'' کا یہ گیت ''تیرے میرے پیارکا ایسا ناتا ہے'' یہ فلم صرف تین افراد کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھی ہدایت کار حسن عسکری، محمد علی اور مہ ناز۔ اب دوبارہ ''دھنک'' شو کی طرف چلتے ہیں۔
بغیر کسی معاوضے کے انھوں نے بچیوں کی شادی کے حوالے سے دو گیت پیش کیے جب کہ اس زمانے میں کسی فنکشن میں صرف دو گیتوں کا معاوضہ وہ خاصا لیا کرتی تھیں مگر انھوں نے کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اس شو کی آمدنی 1992 میں ایک لاکھ 20 ہزار ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے راحیل صاحب کو ایک لاکھ کا چیک دیا اس زمانے میں جہیز کی اتنی ادھم بازی نہیں تھی جو آج پائی جاتی ہے، راحیل صاحب چیک وصول کرتے ہوئے رو دیے اور مہ ناز کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا آپ کو اس کا اجر ملے گا وہ واقعی بہت اچھی زندگی گزار کر گئیں اور عزت و آبرو کی موت پائی، زندگی میں سیکڑوں ایوارڈز لیے جس کا تذکرہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی جنوری آتا ہے یہ لوگ شوبزنس کے قارئین کو بہت یاد کرتے ہیں رب سلطان راہی، سدھیر اور مہ ناز کی مغفرت کرے۔ (آمین) تم کیا گئے خوشی کے چراغ بجھ گئے۔