مردم شماری متنازع کیوں
وطن عزیز میں اب تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی ہے وہ متنازع رہی ہے
LONDON:
وطن عزیز میں اب تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی ہے ، وہ متنازع رہی ہے، کیونکہ اصل آبادی ہمیشہ چھپائی جاتی رہی ہے جب کہ قومی ترقی و خوشحالی کے لیے درست آبادی کا تعین لازمی ہوتا ہے ۔ غیر منصفانہ اور غیر شفاف خانہ و مردم شماری کی ہی وجہ سے ہمارے یہاں عوامی مسائل گھمبیر صورت حال اختیار کر چکے ہیں ، ایسے میں بروقت قومی مردم شماری کا نہ ہونا بھی ایک مسئلہ رہا ہے ۔
ملکی مشنری مستند اعداد و شمار کے بجائے محض اندازوں کی بنیاد پر چلائی جاتی رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملکی ترقی و خوشحالی کا پہیہ الٹی جانب چلا کر ہم اسی جانب جا رہے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا ۔ زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں لیکن ہم غلطی پر غلطی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملاحظہ کریں درج ذیل صورتحال۔ گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کونسل کا 49 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں ساتویں مردم شماری کرانے کی منظوری دی گئی۔
کہا گیا ہے کہ ایک قابل اعتماد مردم و خانہ شماری ڈیٹا مرتب کیا جائے گا تاکہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور پالیسیوں کے لیے بروئے کار لایا جاسکے اس حوالے سے مردم شماری کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہترین مروجہ طریقوں کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور جی آئی ایس مانیٹرنگ سسٹم کو بروئے کار لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مانیٹرنگ کمیٹی مردم و خانہ شماری کے شفاف ، جلد اور قابل اعتماد ہونے کو یقینی بنانے کے لیے سرگرمیوں کا جائزہ لے گی اور نگرانی کرے گی۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ملک میں ساتویں مردم شماری ماضی کی طرح مستقل رہائشی پتہ کی بنیاد پر کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جو نہ صرف قومی خزانے کے ضیاع کا سبب بنے گا بلکہ ایک بار پھر اس کے نتائج متنازع بنیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی اصولوں کے برعکس 1981 سے 2017 تک مستقل پتہ کی بنیادوں پر مردم شماری کی گئی ، جس سے ملک کے اہم شہروں کی آبادی متاثر ہوئی ہے ، بالخصوص ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی کو ہمیشہ گھٹا کر دکھایا گیا ہے ۔ چھٹی مردم شماری میں بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ظاہر کی گئی جسے تمام سیاسی جماعتوں نے غلط قرار دیا۔
ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں مردم شماری Defectoکی بنیاد پر کی جاتی ہے یعنی جو انسان جہاں سکونت اختیار کرتا ہے ، اسے وہاں شمار کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں ہونے والی ہر مردم شماری کے موقع پر مستقل پتہ کی بنیاد پرکی جاتی رہی ہے ، یعنی کوئی شہری مردم شماری کے موقع پر کسی علاقے میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہے لیکن اس کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ کسی دوسرے اضلاع یا صوبے کا درج ہے تو اسے مستقل پتہ والے علاقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ مردم شماری کے موقع پر اس علاقے میں موجود ہے جہاں وہ کئی برسوں سے برسر روزگار ہے۔
اس بار بھی ملک میں ساتویں مردم شماری کے لیے منصوبہ بندی بھی Dejureیعنی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کی جارہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں 5 اکتوبر 2021 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں Dejureبنیادوں پر مردم شماری کی منظوری دیدی گئی ہے جب کہ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔
یاد رہے کہ ماضی میں 1981 ، 1998 اور 2017 میں ہونے والی مردم شماری بھی Dejure یعنی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کرائی گئی تھی جب کہ 1972 کو ہونے والی مردم شماری میں بھی ابہام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی مسلسل کم ظاہر ہوئی ہے ۔
اگرچہ Dejureکی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ جو شہری چھ ماہ سے جہاں رہائش پذیر ہے اسے وہیں شمار کیا جاتا ہے لیکن عملا ایسا ہوتا نہیں ہے ، کم سے کم کراچی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ مردم شماری 2017 کے موقع پر کچھ شہروں بالخصوص کراچی کے کئی بلاکس میں بظاہر ادارہ شماریات کی ٹیمیں خانہ شماری و مردم شماری کے لیے گھروں پر آئیں اور فارم بھی پر کیے لیکن عملی طور پر وہ گھر اور افراد کراچی میں شمار نہیں کیے گئے ، چونکہ ان کے مستقل پتے کسی دوسرے صوبے کے تھے ، اس لیے انھیں وہاں شمار کیا گیا۔ ایک ہزار چالیس حلقوں کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بعض حلقوں کے سینسز بلاکس میں خانہ شماری صفر اور آبادی بھی صفر کی گئی ہے جب کہ عملی طور پر اگر اس مقام کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں گھر اور افراد موجود ہیں اور کئی سال سے رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ خانہ شماری کی بنیاد پر بلاکس کا تعین کیا جاتا ہے ، ایک بلاک کے لیے دو سو سے ڈھائی سو گھرانوں کا اصول بنایا گیا تھا ، سندھ میں 86 ایسے بلاکس ہیں جن میں گھرانوں کی تعداد بھی صفر ہے اور آبادی بھی صفر ہے۔1981کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37ہزار 984 تھی جس کی صحت اور اعداد و شمار پر کئی سوالیہ نشان تھے۔
وفاقی حکومت نے 2017 کی مردم شماری Dejureکی بنیاد پہ کی جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی نصف ظاہر ہوئی۔ اب اگلی مردم شماری بھی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کرائی جارہی ہے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ واضح رہے کہ اگلی مردم شماری کے لیے 23ارب روپے اخراجات آئیں گے اور رواں مالی سال 5ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ نئی مردم شماری کا آغاز 2022 میں ہونے جارہا ہے ، اگر اس بار بھی مستقل پتہ کی بنیاد پر مردم شماری کی گئی تو اس کے نتائج منصفانہ و شفاف نہیں ہونگے۔
خیال رہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے Dejure پر اعتراض اٹھایا ہے اور Defecto بنیادوں پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اگر Defecto پر مردم شماری کرائے جاتے ہیں تو سیکیورٹی کی ضروریات اور بجٹ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں Dejure کی بنیادوں پر ہی مردم شماری کی جاتی ہے ،Defectoپر دنیا میں صرف ان ممالک میں مردم شماری کرائی جاتی ہے جہاں آبادی بہت کم ہے ، پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے جو Defecto پر مردم شماری کرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالاتناظر میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ساتویں مردم شماری بھی متنازع قرار پائے گی؟
وطن عزیز میں اب تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی ہے ، وہ متنازع رہی ہے، کیونکہ اصل آبادی ہمیشہ چھپائی جاتی رہی ہے جب کہ قومی ترقی و خوشحالی کے لیے درست آبادی کا تعین لازمی ہوتا ہے ۔ غیر منصفانہ اور غیر شفاف خانہ و مردم شماری کی ہی وجہ سے ہمارے یہاں عوامی مسائل گھمبیر صورت حال اختیار کر چکے ہیں ، ایسے میں بروقت قومی مردم شماری کا نہ ہونا بھی ایک مسئلہ رہا ہے ۔
ملکی مشنری مستند اعداد و شمار کے بجائے محض اندازوں کی بنیاد پر چلائی جاتی رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملکی ترقی و خوشحالی کا پہیہ الٹی جانب چلا کر ہم اسی جانب جا رہے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا ۔ زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں لیکن ہم غلطی پر غلطی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملاحظہ کریں درج ذیل صورتحال۔ گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کونسل کا 49 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں ساتویں مردم شماری کرانے کی منظوری دی گئی۔
کہا گیا ہے کہ ایک قابل اعتماد مردم و خانہ شماری ڈیٹا مرتب کیا جائے گا تاکہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور پالیسیوں کے لیے بروئے کار لایا جاسکے اس حوالے سے مردم شماری کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہترین مروجہ طریقوں کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور جی آئی ایس مانیٹرنگ سسٹم کو بروئے کار لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مانیٹرنگ کمیٹی مردم و خانہ شماری کے شفاف ، جلد اور قابل اعتماد ہونے کو یقینی بنانے کے لیے سرگرمیوں کا جائزہ لے گی اور نگرانی کرے گی۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ملک میں ساتویں مردم شماری ماضی کی طرح مستقل رہائشی پتہ کی بنیاد پر کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جو نہ صرف قومی خزانے کے ضیاع کا سبب بنے گا بلکہ ایک بار پھر اس کے نتائج متنازع بنیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی اصولوں کے برعکس 1981 سے 2017 تک مستقل پتہ کی بنیادوں پر مردم شماری کی گئی ، جس سے ملک کے اہم شہروں کی آبادی متاثر ہوئی ہے ، بالخصوص ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی کو ہمیشہ گھٹا کر دکھایا گیا ہے ۔ چھٹی مردم شماری میں بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ظاہر کی گئی جسے تمام سیاسی جماعتوں نے غلط قرار دیا۔
ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں مردم شماری Defectoکی بنیاد پر کی جاتی ہے یعنی جو انسان جہاں سکونت اختیار کرتا ہے ، اسے وہاں شمار کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں ہونے والی ہر مردم شماری کے موقع پر مستقل پتہ کی بنیاد پرکی جاتی رہی ہے ، یعنی کوئی شہری مردم شماری کے موقع پر کسی علاقے میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہے لیکن اس کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ کسی دوسرے اضلاع یا صوبے کا درج ہے تو اسے مستقل پتہ والے علاقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ مردم شماری کے موقع پر اس علاقے میں موجود ہے جہاں وہ کئی برسوں سے برسر روزگار ہے۔
اس بار بھی ملک میں ساتویں مردم شماری کے لیے منصوبہ بندی بھی Dejureیعنی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کی جارہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں 5 اکتوبر 2021 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں Dejureبنیادوں پر مردم شماری کی منظوری دیدی گئی ہے جب کہ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔
یاد رہے کہ ماضی میں 1981 ، 1998 اور 2017 میں ہونے والی مردم شماری بھی Dejure یعنی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کرائی گئی تھی جب کہ 1972 کو ہونے والی مردم شماری میں بھی ابہام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی مسلسل کم ظاہر ہوئی ہے ۔
اگرچہ Dejureکی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ جو شہری چھ ماہ سے جہاں رہائش پذیر ہے اسے وہیں شمار کیا جاتا ہے لیکن عملا ایسا ہوتا نہیں ہے ، کم سے کم کراچی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ مردم شماری 2017 کے موقع پر کچھ شہروں بالخصوص کراچی کے کئی بلاکس میں بظاہر ادارہ شماریات کی ٹیمیں خانہ شماری و مردم شماری کے لیے گھروں پر آئیں اور فارم بھی پر کیے لیکن عملی طور پر وہ گھر اور افراد کراچی میں شمار نہیں کیے گئے ، چونکہ ان کے مستقل پتے کسی دوسرے صوبے کے تھے ، اس لیے انھیں وہاں شمار کیا گیا۔ ایک ہزار چالیس حلقوں کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بعض حلقوں کے سینسز بلاکس میں خانہ شماری صفر اور آبادی بھی صفر کی گئی ہے جب کہ عملی طور پر اگر اس مقام کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں گھر اور افراد موجود ہیں اور کئی سال سے رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ خانہ شماری کی بنیاد پر بلاکس کا تعین کیا جاتا ہے ، ایک بلاک کے لیے دو سو سے ڈھائی سو گھرانوں کا اصول بنایا گیا تھا ، سندھ میں 86 ایسے بلاکس ہیں جن میں گھرانوں کی تعداد بھی صفر ہے اور آبادی بھی صفر ہے۔1981کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37ہزار 984 تھی جس کی صحت اور اعداد و شمار پر کئی سوالیہ نشان تھے۔
وفاقی حکومت نے 2017 کی مردم شماری Dejureکی بنیاد پہ کی جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی نصف ظاہر ہوئی۔ اب اگلی مردم شماری بھی مستقل پتہ کی بنیادوں پر کرائی جارہی ہے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ واضح رہے کہ اگلی مردم شماری کے لیے 23ارب روپے اخراجات آئیں گے اور رواں مالی سال 5ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ نئی مردم شماری کا آغاز 2022 میں ہونے جارہا ہے ، اگر اس بار بھی مستقل پتہ کی بنیاد پر مردم شماری کی گئی تو اس کے نتائج منصفانہ و شفاف نہیں ہونگے۔
خیال رہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے Dejure پر اعتراض اٹھایا ہے اور Defecto بنیادوں پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اگر Defecto پر مردم شماری کرائے جاتے ہیں تو سیکیورٹی کی ضروریات اور بجٹ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں Dejure کی بنیادوں پر ہی مردم شماری کی جاتی ہے ،Defectoپر دنیا میں صرف ان ممالک میں مردم شماری کرائی جاتی ہے جہاں آبادی بہت کم ہے ، پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے جو Defecto پر مردم شماری کرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالاتناظر میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ساتویں مردم شماری بھی متنازع قرار پائے گی؟