اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے معاملات پر رپورٹ سینیٹ میں پیش
چیئرمین سینیٹ کی رپورٹ اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بھجوانے کی ہدایت
ISLAMABAD:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے معاملات پر قائم ذیلی کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کر دی۔
12دسمبر 2019کو ایک طالبعلم سید طفیل الرحمن کے قتل اور 17جون 2021کو ایک طالب علم کے ریپ کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و پیشہ وارنہ تربیت کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے تین ارکان پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی قائم کی تھی جسے یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی رپورٹ پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی میں سینیٹر شاہین خالد بٹ اور سینیٹر اعجاز احمد چوہدری شامل تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی کی معاونت کی۔
طالب علم کے قتل کی تحقیق کے لئے یونیورسٹی کے صدر نے 14دسمبر 2019کو ایک کمیٹی قائم کی تھی، جس نے 29 میٹنگز کے بعد فروری 2020میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
9 ماہ کے طویل وقفے کے بعد 10نومبر 2020کو بورڈ آف گورنرز نے اْس وقت اس رپورٹ کا نوٹس لیا جب معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی میں زیر بحث آیا۔ بورڈ آف گورنر ز نے گیارہ نکات پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ فروری 2020ریپ واقعہ کی انکوائری کمیٹی جس نے نومبر 2020میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ سینیٹ کی ذیلی کمیٹی نے دو ماہ تک اس امر کا جائزہ لیا کہ اسلامک یونیورسٹی کی دونوں تحقیقاتی رپورٹس کی سفارشات پر کس قدر عمل ہوا۔
آج سینیٹ کے ایوان میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے باضابطہ طور پر سب کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے سنگین واقعات کا بروقت نوٹس نہیں لیا نہ ہی ان کے تدارک کیلئے موثر تدابیر کیں۔
کمیٹی نے افسوس کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے شہید ہونے والے طالب علم کے گھر جا کر تعزیت کی تکلیف بھی نہیں کی۔ ریپ کا شکار ہونے والے طالب علم کی بھی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ الٹا اْسکی ویڈیو اپ لوڈ کر دی گئی۔ کمیٹی نے سیکورٹی اور انتظامی معاملات میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی۔ کمیٹی نے وزارت تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری محی الدین وانی کی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔
انجینئر رخسانہ زبیری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین اور کچھ طلباء کے سوا کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی تحقیقی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا۔ کمیٹی نے دونوں سنگین وارداتوں پر رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات سے اسلامی یونیورسٹی کا تشخص بری طرح مجروح ہوا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ جامعہ کے صدر کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہئے۔
کمیٹی نے آخر میں کہا کہ ہم صرف ایک سفارش کر رہے ہیں کہ بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس بلایا جائے جس میں دونوں تحقیقاتی کمیٹیوں کے تمام ارکان کو بلا کر سنا جائے۔ اْن دو ارکان کو بھی سنا جائے جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اضافی نوٹ لکھے جن کی پاداش میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ صدر جامعہ کو اس سے پتہ چلے گا کہ خامیاں کہا ں کہاں تھیں۔ نیز اس سے اسلامی یونیورسٹی کا زوال پذیر تشخص بھی بحال کیا جا سکے گا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے باضابطہ طور پر رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔ جس پر سینیٹر مشتاق احمد کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے رولنگ دی کہ رپورٹ اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بھجوا دی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے معاملات پر قائم ذیلی کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کر دی۔
12دسمبر 2019کو ایک طالبعلم سید طفیل الرحمن کے قتل اور 17جون 2021کو ایک طالب علم کے ریپ کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و پیشہ وارنہ تربیت کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے تین ارکان پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی قائم کی تھی جسے یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی رپورٹ پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی میں سینیٹر شاہین خالد بٹ اور سینیٹر اعجاز احمد چوہدری شامل تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی کی معاونت کی۔
طالب علم کے قتل کی تحقیق کے لئے یونیورسٹی کے صدر نے 14دسمبر 2019کو ایک کمیٹی قائم کی تھی، جس نے 29 میٹنگز کے بعد فروری 2020میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
9 ماہ کے طویل وقفے کے بعد 10نومبر 2020کو بورڈ آف گورنرز نے اْس وقت اس رپورٹ کا نوٹس لیا جب معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی میں زیر بحث آیا۔ بورڈ آف گورنر ز نے گیارہ نکات پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ فروری 2020ریپ واقعہ کی انکوائری کمیٹی جس نے نومبر 2020میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ سینیٹ کی ذیلی کمیٹی نے دو ماہ تک اس امر کا جائزہ لیا کہ اسلامک یونیورسٹی کی دونوں تحقیقاتی رپورٹس کی سفارشات پر کس قدر عمل ہوا۔
آج سینیٹ کے ایوان میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے باضابطہ طور پر سب کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے سنگین واقعات کا بروقت نوٹس نہیں لیا نہ ہی ان کے تدارک کیلئے موثر تدابیر کیں۔
کمیٹی نے افسوس کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے شہید ہونے والے طالب علم کے گھر جا کر تعزیت کی تکلیف بھی نہیں کی۔ ریپ کا شکار ہونے والے طالب علم کی بھی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ الٹا اْسکی ویڈیو اپ لوڈ کر دی گئی۔ کمیٹی نے سیکورٹی اور انتظامی معاملات میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی۔ کمیٹی نے وزارت تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری محی الدین وانی کی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔
انجینئر رخسانہ زبیری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین اور کچھ طلباء کے سوا کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی تحقیقی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا۔ کمیٹی نے دونوں سنگین وارداتوں پر رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات سے اسلامی یونیورسٹی کا تشخص بری طرح مجروح ہوا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ جامعہ کے صدر کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہئے۔
کمیٹی نے آخر میں کہا کہ ہم صرف ایک سفارش کر رہے ہیں کہ بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس بلایا جائے جس میں دونوں تحقیقاتی کمیٹیوں کے تمام ارکان کو بلا کر سنا جائے۔ اْن دو ارکان کو بھی سنا جائے جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اضافی نوٹ لکھے جن کی پاداش میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ صدر جامعہ کو اس سے پتہ چلے گا کہ خامیاں کہا ں کہاں تھیں۔ نیز اس سے اسلامی یونیورسٹی کا زوال پذیر تشخص بھی بحال کیا جا سکے گا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے باضابطہ طور پر رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔ جس پر سینیٹر مشتاق احمد کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے رولنگ دی کہ رپورٹ اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بھجوا دی جائے۔