نہریں اور دنیا کی ترقی میں ان کا کردار
نہریں بحر، بحیرہ، خلیج، دریا، ڈیمز اور ندی نالوں سے نکالی جاتی ہیں
کہا جاتا ہے کہ فرہاد نے شیریں کے لیے دودھ کی نہر نکالی تھی، مگر تاریخ میں کہیں اس نہر کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ حقیقت ہے یا محض ایک افسانہ لیکن یہ سچ ہے کہ اس نہر سے سوائے شیریں کے کوئی اور فیض یاب نہیں ہوسکتا تھا۔
آج ہم ایسی عظیم اور منفرد قدرتی اور انسانی ہاتھوں کی شاہ کار نہروں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو نہ صرف زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں بلکہ جن میں سے روزانہ ہزاروں تجارتی اور سفری بحری جہاز کی آمدورفت رہتی ہے۔
نہریں بحر، بحیرہ، خلیج، دریا، ڈیمز اور ندی نالوں سے نکالی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ مسافر کشتی اور تجارتی بحری جہازوں کو آسان اور مختصر راستے فراہم کرنا ہے۔ البتہ دریائوں اور ڈیمز سے نکالی جانے والی نہریں بالخصوص زرعی مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔
عموماً نہریں گہرائی اور چوڑائی میں کم اور لمبائی میں محدود اور سیدھی ہوتی ہیں۔ نہریں ہر اس جگہ بنائی جاسکتی ہیں جہاں ضرورت ہو حتیٰ کہ یہ پہاڑوں پر بھی نکالی جاسکتی ہیں۔ کچھ نہریں مستقل بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں جن میں سال بھر پانی موجود رہتا ہے۔ کچھ نہریں سیلابی پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی خاص طور پر نہریں بنائی جاتی ہیں۔ ان نہروں کو پاور کینال (Power Canal) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے لیے بھی ایک بڑی نہر بنائی جاتی ہے، جسے فیڈرکینال (Feeder Canal) کہا جاتا ہے۔ کچھ نہریں تجارتی مقاصد کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کر نے کام کرتی ہیں۔ یہ نہریں کیریئر کینال (Carrier Canal)کہلاتی ہیں۔
نیویگیشن کینال(Navigation Canal) بطور خاص بحری جہازوں اور سمندری کشتیوں کی آمدورفت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے نہر کی گہرائی اتنی رکھی جاتی ہے کہ بحری جہاز بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکیں۔ نہروں کی بنیادیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ الوویل کینال (Alluvial Canal) قدرتی گارے اور مٹی سے بنی ہو تی ہیں جب کہ (Non Alluvial Canal) پختہ بنیادوں پر بنی ہوتی ہیں۔
دنیا میں پہلی نہر پانچ یا چھ ہزار سال قبل بنائی گئی۔ صنعتی انقلاب کے دور میں سب سے پہلے جدید دنیا کی اولین نہریں بنانے والا انجنیئر جیمز برنڈلے(1716ء سے 1772ء James Barindley ) تھا۔
پانامہ نہر کا شمار دنیا کے مشہور ترین شاہ کاروں میں ہوتا ہے۔ دو بحروں کو آپس میں ملانے والی یہ نہر انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی۔ اس کی تعمیر سے قبل پانامہ کولمبیا کا حصہ تھا۔1903 ء میں پانامہ ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا۔ دل چسپی کا حامل دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں والکین بیرو ((Volcan Baru کے بلند ترین پہاڑی مقام پر کھڑے ہوکر بحرالکاہل (Pacific Ocean ) کے افق پر سورج کو ابھرتا اور بحراوقیانوس (Atalntic Ocean) میں اسے غروب ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قدرت نے پانامہ نہر کی صورت میں بھی اس ملک کو انفرادیت بخشی ہے۔ اس نہر کی بدولت بحرالکاہل سے بحراوقیانوس اور بحراوقیانوس سے بحرالکاہل کے دونوں طرف بحری جہازوں کی آمدورفت رہتی ہے۔
یہ مصنوعی راستہ82 کلومیٹر (51 میل) طویل ہے جو بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ نہر شمالی اور جنوبی امریکا کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل بحرالکاہل سے بحراوقیانوس تک ایک طویل اور پرخطر سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ پانامہ نہر اس طویل فاصلے کو کم کرنے کے لیے تعمیر کی گئی یعنی بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کے درمیان شارٹ کٹ یا مختصر راستہ ہے۔
چناںچہ اس نہر کی تعمیر سے سفری اور بحری تجارتی جہازوں کے اخراجات، وقت، ایندھن اور فاصلوں میں کمی آگئی۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل یہاں خشکی کا حصہ استھمس (Isthmus) تھا جو دو بڑے پانیوں کے درمیان واقع پہاڑوں اور خطرناک جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت اسے نہر کی شکل میں ڈھالنا ناممکنات میں سے تھا۔ 1880ء میں سب سے پہلے فرانس کی تعمیراتی کمپنی نے یہاں نہر بنانے کی کوشش کی مگر یہاں کی گرم مرطوب آب و ہوا، غیریقینی موسم سے ناواقفیت، کم زور حکمت ِ عملی، بیماریوں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے سے تقریباً 22000 کارکن کی ہلاکت کی وجہ سے نہر بنانے میں ناکام رہی۔
1904ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے اس نہر کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا اور اس کو بخوبی1914ء میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ پانامہ نہر کی گہرائی 13 میٹر، چوڑائی 50 میٹر اور 82کلومیٹر (50میل) طویل ہے۔ اس کی تعمیر کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس طویل عرصے میں ایک ملین سے زائد بحری جہاز اس نہر سے مستفید ہوچکے ہیں۔ دو بحروں کے درمیان بنائی گئی اس نہر کی بدولت مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ ہر سال 14000 بحری جہازوں کی آمدورفت سے اس نہر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی دو سمندروں کو ملانے والی ایک اور دنیا کی مشہور نہرسوئز (Suez Canal) کہلاتی ہے۔ اس کی تعمیر کو تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ نہر سوئز دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے جس میں سے سیکڑوں بحری جہاز بحیرۂ روم (Mediterranean Sea ) سے بحیرہ احمر (Red Sea ) کی طرف اور بحیرہ احمر سے بحیرہ روم کی طرف آتے جاتے ہیں۔
نہرسوئز کی تعمیر سے پہلے مشرقی ممالک چین، سنگاپور، جاپان وغیرہ جانے کے لیے بحری جہازوں کو پورے کیپ ٹائون یا براعظم افریقہ سے گھوم کر جانا پڑتا تھا مگر اس نہر کی موجودگی سے نہ صرف کم وقت میں ہزاروں میل کے فاصلے سمٹ گئے بلکہ ایندھن کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی آگئی۔ نپولین بوناپاٹ نے اپنے زمانے میں اسی راستے کو مختصر کرنے کے لیے نہر بنانے کا تصور پیش کیا تھا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے اس سلسلے میں سروے کیا معلوم ہوا کہ بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے پانی سے دس میٹر بلند ہے۔
اس زمانے میں ابھی دریائوں اور نہروں میں بند باندھنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ چناںچہ اس تصور کو حقیقت کا روپ نہیں دیا جاسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل فراعینِ مصر نے بھی اپنے ادوار میں بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملانے کے لیے نہر بنائی جو کچھ عرصے بعد خشک ہو گئی۔ پھر ایسی ہی کوشش خلافت عثمانیہ کے اوّلین دور میں بھی گئی اور اسی جگہ نہر بنائی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی سوکھ گئی اور ان کا نام نشان تک مٹ گیا۔
1850ء میں فرانس کے سفیر فرڈیننڈ ڈی لیسپس (Ferdinand De Lesseps) کے خلافت عثمانیہ کے خادم سعید پاشا سے اچھے تعلقات تھے۔ فرڈیننڈ نے سعید پاشا کو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملانے والی نہر بنانے کے لیے قائل کیا جو کہ تجارتی اور مسافر جہازوں کے گزرنے کی صورت میں ٹیکس اور مالی فوائد کے حصول اور بہترین آمدنی کا ذریعہ ہوگی۔ چناںچہ دونوں اس نہر کی تعمیر کے لیے متفق ہوگئے۔ ماہرین کے سروے کے مطابق بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے برابر ہونے کی وجہ سے اب نہر کھود کر دونوں سمندروں کو آپس میں ملایا جاسکتا تھا۔
سوئز کینال کمپنی نے، جس میں فرانس اور برطانیہ دونوں شراکت دار تھے 1859ء میں باقاعدہ اس کی تعمیر کا آغاز اس جگہ سے کیا جہاں آج پورٹ سعید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30,000 ہزار کارکنوں سے روزانہ اس نہر کی تعمیر کے لیے جبری مزدوری کرائی گئی۔ یہاں موسم کی شدت یعنی شدید گرمی اور شدید سردی اور ہیضے کی بیماریوں نے بہت سے کارکنوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ تعمیراتی کمپنی کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا جب کہ نہر کی کھدائی مسلم ملک یعنی مصر میں ہوئی۔
لہٰذا اس کے افتتاح کے وقت یہاں عارضی مسجد اور کلیسا بنائے گئے۔ تعمیر کے بعد 15نومبر 1869 ء کو سوئز کنال کھول دی گئی۔ اسماعیل پاشا، خادم مصر اور سوڈان نے اس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں ملکہ فرانس یوجین نے بھی شرکت کی اور پھر 17 نومبر 1869 ء کو دو دن بعد اسے باقاعدہ کھول دیا گیا۔ پہلے اس نہر کی گہرائی 27 میٹر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی، چوڑائی اور لمبائی میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
نہروں پر کھڑا اٹلی کا شہر وینس دنیا کے خوب صورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کی حیثیت دنیا کے پرکشش اور حسین شہروں میں زیورات و نوادرات میں موجود نمایاں دمکتے ہوئے ایک شاہی تاج کی سی ہے۔ نہروں کے ساتھ ساتھ اطالوی حسن تعمیر کے شاہ کار عمارتیں انتہائی دل آویز اور خوش نما ہیں۔ یہاں ایک سو پچاس سے زائد نہریں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پورا شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے۔ یہاں نقل و حمل کا ذریعہ گنڈولا کشتی ہے۔ سیاح بہت شوق سے اس کشتی میں سفر کرکے شہر کی سیر اور اس کے حسن سے محظوظ ہوتے ہیں جو انہیں خوش کن تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے نہروں کا شہر دراصل وینس نہیں بلکہ کیپ کورل (Cape Coral) ہے جس کی ساحلی پٹی 23 میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس شہر میں تمام دنیا سے زیادہ نہریں پائی جاتی ہیں۔
پانی کے درمیان رہائش اختیار کرنا اور روزمّرہ زندگی گزارنا دل چسپ اور حیران کن تجربہ ہے۔ مگر یاد رہے کہ وینس شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے جب کہ کیپ کورل 1957ء میں بنا، اور اس کی بیشتر نہریں زمین کھود کر نکالی گئی ہیں۔ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر شدہ نہروں پر بنا شہر فلوریڈا میں واقع ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں ایک ایسی نہر کا جو ایک خاتون کے نام سے منسوب ہے۔ یہ 'نہر زبیدہ' کہلاتی ہے۔ زبیدہ بنت جعفر خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ نیک دل، مستقل مزاج اور عزم صمیم کی مالک تھیں۔ 1200 سو سال قبل 809 ء (193ھ) میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کی وفات کے بعد ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے گئیں۔ انہوں نے اہل مکہ اور حجاج اکرام کو جب پانی کی قلت کے باعث درپیش مشکلات اور دشواریوں کا مشاہدہ کیا تو انہیں دلی رنج ہوا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ایک نہر کھدوانے کا ارادہ کیا۔
اس سے پہلے بھی وہ اہل مکہ کو اپنے مال سے نوازتی رہتی تھیں۔ حج اور عمرے کے لیے آنے والوں کے ساتھ خاص طور پر ان کا سلوک نہایت فیاضانہ ہوتا تھا۔ چناںچہ مکہ مکرمہ سے 95 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا ارادہ کیا گیا۔ زبیدہ خاتون نے پانی کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے مکمل حنین وادی خرید لی۔ انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین کو اس کی تعمیر کے لیے مشاورت کی دعوت دی۔ ماہرینِ تعمیرات کے مطابق نہر کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کی کٹائی، چٹانوں کی توڑ پھوڑ اور راستوں کے نشیب و فراز سے نمٹنے کے لیے نہ صرف کثیر اخراجات درکار ہوں گے بلکہ مزدوروں کو بھی دن رات محنت کرنا ہوگی۔
ماہرین کا تجزیہ سن کر ملکہ زبیدہ نے نہایت عزم سے تاریخ ساز حکم دیا ''اس نہر کی تعمیر میں خواہ کدال کی ہر ضرب پر ایک درہم لاگت کیوں نہ آئے میں اسے ادا کرنے لیے تیار ہوں۔''
ابتدا میں وادی حنین میں کنوئیں کھود کر پانی لایا گیا اور وادی میں پانی جمع کرنے کے لیے بڑے بڑے حوض بنائے گئے جن کے آثار اب تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں موجود درختوں کو کاٹ کر ایک تالاب بھی بنایا گیا جہاں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال میں لایا جاتا۔ کچھ عرصے بعد وادی حنین میں پانی کی سطح کم ہوئی تو وادی نعمان سے پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب نہر زبیدہ کے نام سے موسوم تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا۔ اس نہر سے 7 کاریزوں کے ذریعے پانی نہر میں لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک نہر میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔
کئی سالوں کی محنت کے بعد نہر کی عرفات میں جبلِ رحمت تک اور پھر منٰی اور مضفا تک توسیع کر دی گئی۔ جب یہ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ان کی خدمت میں پیش کیں۔ ملکہ نے تمام کاغذات کھول کر دیکھے بغیر دریا میں ڈال دیے اور کہا ''الٰہی مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا۔ تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔'' ملکہ زبیدہ نے کثیر ذاتی اخراجات سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر حجاج اکرام اور اہل مکہ کی پانی کی قلت کا مسئلہ حل کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسموں کے تغیرات اور لوگوں کے پمپوں سے پانی کھینچنے کے باعث نہر خشک ہوگئی۔ 1928ء میں شاہ عبدالعزیز کے دور میں یہ نہر دوبارہ بحال کی گئی اور 1950ء تک قائم رہی۔ دورِحاضر میں سعودی حکومت کے زیرنگرانی اس نہر کو پھر سے بحال کرنے کے لئے کام جاری ہے۔
یہ پختہ نہر تاریخ کے حوالوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گی او رتمام عالم کو رہتی دنیا تک ملکہ زبیدہ کے انسانیت سے ہمدردی اور خلوص کی یاد دلاتی رہے گی۔
دنیا کی سب سے قدیم اور طویل ترین نہر ہانگ زو (Hangzhou Canal) ہے جو چین میں واقع ہے جس کی لمبائی 1,794 کلومیٹر ہے۔ یہ نہر اس وقت کے شہنشاہ یانگ گانگ کی نقل و حرکت کے لیے بنائی گئی جو (بیجنگ) Zhuoduاور Hangzhouکے درمیان ہے۔ مشہورِزمانہ قدیم اور طویل ترین یہ نہر Yellow River اور Yangtze River کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہ نہر چین کے وسط سے کئی صوبوں سے گزرتے ہوئے مشرق کی طرف دوسرے بہت سے دریائوں سے ملتی ہے۔ یہ قدیم نہر 4 صدی قبل مسیح میں بنی اور 600 عیسوی میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور اس وقت سے لے کر اب تک استعمال میں ہے۔ یونیسکو نے اس نہر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔
یونان میں موجود دنیا کی سب سے مختصر اور گہری نہر کورنتھ کینال (Corinth Canal) 6.4کلومیٹر (4میل) لمبی اور 21.4میٹر (70فٹ) ہے اور اس کی گہرائی 8 میٹر ہے۔ یہ نہر سمندر کی سطح کے برابر پورے استھمس میں کھودی گئی ہے۔ اس میں کوئی لاک یا بند نہیں ہے۔ اس نہر کی تعمیر 1882ء میں شروع ہوئی اور 1893ء میں مکمل ہوئی۔ جدید بحری جہازوں کے لیے یہاں سے گزرنا ناممکن ہے، البتہ سیاحوں کے لیے یہ نہر باعث کشش ہے۔ کورنتھ کینال خلیج کورنتھ (Gulf of Corinth) اور خلیج سارونک (Gulf of Saronioc) کو آپس میں ملاتی ہے۔ اس نہر کے بننے سے پالوپونیس (Peloponnese) جو کہ ایک جزیرہ نما تھا اب جزیرہ بن گیا۔
دہلی کا حکم راں فیروز شاہ تغلق برصغیر کا وہ پہلا مسلم حکم راں تھا جس نے زرعی مقاصد کے لیے نہری نظام متعارف کرایا۔ بشمول مغربی جمنا کے اس نے حصار میں پانچ بڑی نہریں کھدوائیں۔ برصغیر پاک و ہند کا ذکر ہو تو مناسب ہے کہ بھارت کی سب سے اہم اور خاص نہر کی وجہ شہرت پر بات کی جائے۔ یہ نہر سبز انقلاب لانے میں بہت مددگار ثابت ہوئی۔ یہ انڈیا کی سب سے طویل اور دنیا کے بڑے زرعی منصوبے سے وابستہ نہر ہے۔ اس سے قبل یہ نہر راجستھان کینال کہلاتی تھی مگر 1984ء میں سابقہ وزیراعظم آف انڈیا کی تعظیم میں اس نہر کا نام اندرا گاندھی نہر رکھ دیا گیا۔
اس کی تعمیر 1952ء میں ہوئی۔ تھر کے صحرا میں اس نہر کی بے پناہ افادیت اور فیض کی بنا پر اسے 'ریگستان کا کنول' کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں پانی کی امید پر بارش کا انتظار کیا جاتا تھا۔ بھارت کی ریاست پنجاب کے دو دریائوں دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے سنگم پر ایک بیراج بنایا گیا ہے جس کا نام 'ہاریک بیراج' ہے جہاں سے یہ نہر نکالی گئی ہے۔ صدیوں پہلے تھر کا یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں قبل ایک دریا 'سرسوتی' جو اس علاقے سے گزرتا تھا اپنا راستے بدلنے اور موسموں اور زمانوں کے تغیر کے بعد طویل صحرا میں بدل گیا۔
اب ہم اپنے وطن ِ عزیز کے دل چسپ حقائق میں سے ایک حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ یہاں72 فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور ان کی آمدنی کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کا آب پاشی کا نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ انگریز راج میں 1800 ء میں دریائوں سے نکالی گئی نہروں کا جال بچھا کر آب پاشی کا نظام متعارف کرایا گیا۔
پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 3 بڑے ریزرورز اور 19 بیراج ہیں۔ اس کے علاوہ دریائوں سے براہ راست 12 نہریں نکالی گئی ہیں۔ 40 بڑی نہریں اور ایک لاکھ بیس ہزار 12,0000 پانی کے چھوٹے راستے یا گزرگاہیں ہیں۔ دریائے سندھ کے سالانہ پانی کا بہائو اوسطاً 146ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس میں سے 106ملین ایکڑ پانی نہروں کو دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی معروف نہریں جن میں سے ایک نہر مغلیہ دور کی تعمیر شدہ لاہور شہر کے مشرق سے گزرنے والی 37 میل لمبی، بمباں والی راوی بیدیاں کینال عرف بی آر بی نہر ہے۔
پنجاب میں چشمہ کے مقام پر بہنے والی نہر جو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے 'چشمہ رائٹ بنک اریگیشن پراجیکٹ' کہلاتی ہے۔ اسی طرح گوگیرہ برانچ نہر دریائے چناب سے نکالی گئی ہے جو پنجاب کے شہر فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔
جلال پور کینال جسے برطانوی راج نے 1898 ء میں بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر اسکی تعمیر 26 دسمبر 2019ء میں شروع ہوئی جو تا حال جاری ہے۔116 میٹر لمبی یہ نہر ضلع جہلم سے ضلع خوشاب تک تحصیل پنڈ دادن خان سے گزرے گی۔
جھنگ کے علاقے کو پانی مہیا کرنے والی نہر جھنگ برانچ کہلاتی ہے جو لوئر چناب کینال سے شروع ہوتی ہے۔
صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں کو سیراب کرنے والی 399کلومیٹر لمبی نہر 'کچھی کینال پراجیکٹ' ہے۔1987ء اور 1997ء کے درمیان بننے والی 'لیفٹ بنک آئوٹ فال ڈرین' ہے جو کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ سیلابی پانی کے نکاسی کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں زرعی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی گئی نہر پاکپتن کینال ہے جس کا منبع 'سلمانکی ہیڈ ورکس' ہے۔
گدو بیراج سے نکالی گئی 'رینی کینال پراجیکٹ' پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہروں گھوٹکی، سکھر اور خیرپور کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔
پاکستان کی سب سے طویل اور قابل ذکر نہر 'نارا کینال' ہے۔ یہ صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں واقع ہے۔ اس کا منبع روہڑی کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔ انگریز کے دور میں بننے والی یہ نہر 1858-59ء میں تعمیر ہوئی۔ اس کی لمبائی 226 میل ہے۔ عموماً نہریں سیدھی ہوتی ہیں مگر یہ نہر ٹیڑھی میڑھی اور بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے۔ گگھڑ ہاکڑا دریا رن کچھ میں گرتا تھا، یہ نہر اسی دریائی گزرگاہ میں 1858-59 میں کھودی گئی جو دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے گزرتی ہے۔
نارا سکھر بیراج سے ضلع خیرپور، سانگھڑ، میرپورخاص اور تھرپارکر تک جاتی ہے۔ یہ نہر 364کلومیٹر یعنی 226 میل تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ 8100 مربع کلومیٹر اراضی سیراب کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں یہاں کثیر تعداد میں مگرمچھ بھی پائے جاتے تھے۔ یہ نہر سکھر بیراج کی سب سے بڑی نہر ہے۔ نارا کینال سے 1385986ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔
نارا کینال سسٹم میں6 دوسری ذیلی نہریں بھی ہیں۔ یہ نہر جغرافیائی طور پر جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہاں گھنے جنگلات، صحرا اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ پانی کو جس رخ پر جگہ ملتی تھی وہ اپنا راستہ بناتا چلا جاتا تھا۔ اس خوب صورت کینال کے دائیں جانب مغرب میں زرعی زمین اور بائیں جانب اچھڑو تھر اور مکی کے جنگلات اور صحرائی علاقے ہیں۔ نارا نہر کے ساتھ حسین جھیلیں اور ڈیم بھی ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
عام طور پر نہریں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے یا سفری اور تجارتی جہازوں کی آمدورفت کے لیے نکالی جاتی ہیں مگر دنیا میں کچھ نہریں شہروں کی آرائش، خوب صورتی اور سیاحوں کے دل موہ لینے کے لیے بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک حالیہ دور میں بننے والی 'دبئی واٹر کینال' ہے۔ یہ مصنوعی نہر 2 اکتوبر 2013 ء کو شروع ہوئی اور 9 نومبر 2016 کو اس کا افتتاح ہوا۔ جدید دبئی دنیا بھر کے کاروباری اور سیاحتی لوگوں کی آماج گاہ ہے۔
لہٰذا اس نہر کے کنارے خریداری کے بڑے بڑے مراکز،4 ہوٹل، 450 ریستوراں، پُرتعیش رہائشی گھر، پیدل اور سائیکل سواروں کے لیے خوب صورت اور صاف کشادہ راستے ہیں۔ دبئی شہر کی دل کشی اور کشش میں اضافہ کرنے والی یہ نہر 3.2 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 120میٹر اور کم از کم 80 میٹر ہے۔ یہ نہر 'بزنس بے' کے مقام سے کھودی گئی ہے جو کہ صفہ پارک اور جمیرہ کے مقام سے گزرتی ہوئی خلیج فارس میں جاگرتی ہے۔ سیاحوں کے لیے اس نہر سے ملحق پرکشش اور تفریحی مقامات بھی ہیں۔ اس نہر کا پانی ہر وقت ارتعاش اور حرکت میں رکھا گیا ہے۔ کشتیوں کے ذریعے نہر کی سیر سیاحوں کو نہایت مرغوب ہے۔
آج ہم ایسی عظیم اور منفرد قدرتی اور انسانی ہاتھوں کی شاہ کار نہروں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو نہ صرف زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں بلکہ جن میں سے روزانہ ہزاروں تجارتی اور سفری بحری جہاز کی آمدورفت رہتی ہے۔
نہریں بحر، بحیرہ، خلیج، دریا، ڈیمز اور ندی نالوں سے نکالی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ مسافر کشتی اور تجارتی بحری جہازوں کو آسان اور مختصر راستے فراہم کرنا ہے۔ البتہ دریائوں اور ڈیمز سے نکالی جانے والی نہریں بالخصوص زرعی مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔
عموماً نہریں گہرائی اور چوڑائی میں کم اور لمبائی میں محدود اور سیدھی ہوتی ہیں۔ نہریں ہر اس جگہ بنائی جاسکتی ہیں جہاں ضرورت ہو حتیٰ کہ یہ پہاڑوں پر بھی نکالی جاسکتی ہیں۔ کچھ نہریں مستقل بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں جن میں سال بھر پانی موجود رہتا ہے۔ کچھ نہریں سیلابی پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی خاص طور پر نہریں بنائی جاتی ہیں۔ ان نہروں کو پاور کینال (Power Canal) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے لیے بھی ایک بڑی نہر بنائی جاتی ہے، جسے فیڈرکینال (Feeder Canal) کہا جاتا ہے۔ کچھ نہریں تجارتی مقاصد کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کر نے کام کرتی ہیں۔ یہ نہریں کیریئر کینال (Carrier Canal)کہلاتی ہیں۔
نیویگیشن کینال(Navigation Canal) بطور خاص بحری جہازوں اور سمندری کشتیوں کی آمدورفت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے نہر کی گہرائی اتنی رکھی جاتی ہے کہ بحری جہاز بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکیں۔ نہروں کی بنیادیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ الوویل کینال (Alluvial Canal) قدرتی گارے اور مٹی سے بنی ہو تی ہیں جب کہ (Non Alluvial Canal) پختہ بنیادوں پر بنی ہوتی ہیں۔
دنیا میں پہلی نہر پانچ یا چھ ہزار سال قبل بنائی گئی۔ صنعتی انقلاب کے دور میں سب سے پہلے جدید دنیا کی اولین نہریں بنانے والا انجنیئر جیمز برنڈلے(1716ء سے 1772ء James Barindley ) تھا۔
پانامہ نہر کا شمار دنیا کے مشہور ترین شاہ کاروں میں ہوتا ہے۔ دو بحروں کو آپس میں ملانے والی یہ نہر انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی۔ اس کی تعمیر سے قبل پانامہ کولمبیا کا حصہ تھا۔1903 ء میں پانامہ ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا۔ دل چسپی کا حامل دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں والکین بیرو ((Volcan Baru کے بلند ترین پہاڑی مقام پر کھڑے ہوکر بحرالکاہل (Pacific Ocean ) کے افق پر سورج کو ابھرتا اور بحراوقیانوس (Atalntic Ocean) میں اسے غروب ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قدرت نے پانامہ نہر کی صورت میں بھی اس ملک کو انفرادیت بخشی ہے۔ اس نہر کی بدولت بحرالکاہل سے بحراوقیانوس اور بحراوقیانوس سے بحرالکاہل کے دونوں طرف بحری جہازوں کی آمدورفت رہتی ہے۔
یہ مصنوعی راستہ82 کلومیٹر (51 میل) طویل ہے جو بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ نہر شمالی اور جنوبی امریکا کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل بحرالکاہل سے بحراوقیانوس تک ایک طویل اور پرخطر سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ پانامہ نہر اس طویل فاصلے کو کم کرنے کے لیے تعمیر کی گئی یعنی بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کے درمیان شارٹ کٹ یا مختصر راستہ ہے۔
چناںچہ اس نہر کی تعمیر سے سفری اور بحری تجارتی جہازوں کے اخراجات، وقت، ایندھن اور فاصلوں میں کمی آگئی۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل یہاں خشکی کا حصہ استھمس (Isthmus) تھا جو دو بڑے پانیوں کے درمیان واقع پہاڑوں اور خطرناک جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت اسے نہر کی شکل میں ڈھالنا ناممکنات میں سے تھا۔ 1880ء میں سب سے پہلے فرانس کی تعمیراتی کمپنی نے یہاں نہر بنانے کی کوشش کی مگر یہاں کی گرم مرطوب آب و ہوا، غیریقینی موسم سے ناواقفیت، کم زور حکمت ِ عملی، بیماریوں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے سے تقریباً 22000 کارکن کی ہلاکت کی وجہ سے نہر بنانے میں ناکام رہی۔
1904ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے اس نہر کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا اور اس کو بخوبی1914ء میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ پانامہ نہر کی گہرائی 13 میٹر، چوڑائی 50 میٹر اور 82کلومیٹر (50میل) طویل ہے۔ اس کی تعمیر کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس طویل عرصے میں ایک ملین سے زائد بحری جہاز اس نہر سے مستفید ہوچکے ہیں۔ دو بحروں کے درمیان بنائی گئی اس نہر کی بدولت مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ ہر سال 14000 بحری جہازوں کی آمدورفت سے اس نہر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی دو سمندروں کو ملانے والی ایک اور دنیا کی مشہور نہرسوئز (Suez Canal) کہلاتی ہے۔ اس کی تعمیر کو تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ نہر سوئز دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے جس میں سے سیکڑوں بحری جہاز بحیرۂ روم (Mediterranean Sea ) سے بحیرہ احمر (Red Sea ) کی طرف اور بحیرہ احمر سے بحیرہ روم کی طرف آتے جاتے ہیں۔
نہرسوئز کی تعمیر سے پہلے مشرقی ممالک چین، سنگاپور، جاپان وغیرہ جانے کے لیے بحری جہازوں کو پورے کیپ ٹائون یا براعظم افریقہ سے گھوم کر جانا پڑتا تھا مگر اس نہر کی موجودگی سے نہ صرف کم وقت میں ہزاروں میل کے فاصلے سمٹ گئے بلکہ ایندھن کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی آگئی۔ نپولین بوناپاٹ نے اپنے زمانے میں اسی راستے کو مختصر کرنے کے لیے نہر بنانے کا تصور پیش کیا تھا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے اس سلسلے میں سروے کیا معلوم ہوا کہ بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے پانی سے دس میٹر بلند ہے۔
اس زمانے میں ابھی دریائوں اور نہروں میں بند باندھنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ چناںچہ اس تصور کو حقیقت کا روپ نہیں دیا جاسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل فراعینِ مصر نے بھی اپنے ادوار میں بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملانے کے لیے نہر بنائی جو کچھ عرصے بعد خشک ہو گئی۔ پھر ایسی ہی کوشش خلافت عثمانیہ کے اوّلین دور میں بھی گئی اور اسی جگہ نہر بنائی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی سوکھ گئی اور ان کا نام نشان تک مٹ گیا۔
1850ء میں فرانس کے سفیر فرڈیننڈ ڈی لیسپس (Ferdinand De Lesseps) کے خلافت عثمانیہ کے خادم سعید پاشا سے اچھے تعلقات تھے۔ فرڈیننڈ نے سعید پاشا کو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملانے والی نہر بنانے کے لیے قائل کیا جو کہ تجارتی اور مسافر جہازوں کے گزرنے کی صورت میں ٹیکس اور مالی فوائد کے حصول اور بہترین آمدنی کا ذریعہ ہوگی۔ چناںچہ دونوں اس نہر کی تعمیر کے لیے متفق ہوگئے۔ ماہرین کے سروے کے مطابق بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے برابر ہونے کی وجہ سے اب نہر کھود کر دونوں سمندروں کو آپس میں ملایا جاسکتا تھا۔
سوئز کینال کمپنی نے، جس میں فرانس اور برطانیہ دونوں شراکت دار تھے 1859ء میں باقاعدہ اس کی تعمیر کا آغاز اس جگہ سے کیا جہاں آج پورٹ سعید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30,000 ہزار کارکنوں سے روزانہ اس نہر کی تعمیر کے لیے جبری مزدوری کرائی گئی۔ یہاں موسم کی شدت یعنی شدید گرمی اور شدید سردی اور ہیضے کی بیماریوں نے بہت سے کارکنوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ تعمیراتی کمپنی کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا جب کہ نہر کی کھدائی مسلم ملک یعنی مصر میں ہوئی۔
لہٰذا اس کے افتتاح کے وقت یہاں عارضی مسجد اور کلیسا بنائے گئے۔ تعمیر کے بعد 15نومبر 1869 ء کو سوئز کنال کھول دی گئی۔ اسماعیل پاشا، خادم مصر اور سوڈان نے اس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں ملکہ فرانس یوجین نے بھی شرکت کی اور پھر 17 نومبر 1869 ء کو دو دن بعد اسے باقاعدہ کھول دیا گیا۔ پہلے اس نہر کی گہرائی 27 میٹر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی، چوڑائی اور لمبائی میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
نہروں پر کھڑا اٹلی کا شہر وینس دنیا کے خوب صورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کی حیثیت دنیا کے پرکشش اور حسین شہروں میں زیورات و نوادرات میں موجود نمایاں دمکتے ہوئے ایک شاہی تاج کی سی ہے۔ نہروں کے ساتھ ساتھ اطالوی حسن تعمیر کے شاہ کار عمارتیں انتہائی دل آویز اور خوش نما ہیں۔ یہاں ایک سو پچاس سے زائد نہریں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پورا شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے۔ یہاں نقل و حمل کا ذریعہ گنڈولا کشتی ہے۔ سیاح بہت شوق سے اس کشتی میں سفر کرکے شہر کی سیر اور اس کے حسن سے محظوظ ہوتے ہیں جو انہیں خوش کن تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے نہروں کا شہر دراصل وینس نہیں بلکہ کیپ کورل (Cape Coral) ہے جس کی ساحلی پٹی 23 میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس شہر میں تمام دنیا سے زیادہ نہریں پائی جاتی ہیں۔
پانی کے درمیان رہائش اختیار کرنا اور روزمّرہ زندگی گزارنا دل چسپ اور حیران کن تجربہ ہے۔ مگر یاد رہے کہ وینس شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے جب کہ کیپ کورل 1957ء میں بنا، اور اس کی بیشتر نہریں زمین کھود کر نکالی گئی ہیں۔ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر شدہ نہروں پر بنا شہر فلوریڈا میں واقع ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں ایک ایسی نہر کا جو ایک خاتون کے نام سے منسوب ہے۔ یہ 'نہر زبیدہ' کہلاتی ہے۔ زبیدہ بنت جعفر خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ نیک دل، مستقل مزاج اور عزم صمیم کی مالک تھیں۔ 1200 سو سال قبل 809 ء (193ھ) میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کی وفات کے بعد ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے گئیں۔ انہوں نے اہل مکہ اور حجاج اکرام کو جب پانی کی قلت کے باعث درپیش مشکلات اور دشواریوں کا مشاہدہ کیا تو انہیں دلی رنج ہوا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ایک نہر کھدوانے کا ارادہ کیا۔
اس سے پہلے بھی وہ اہل مکہ کو اپنے مال سے نوازتی رہتی تھیں۔ حج اور عمرے کے لیے آنے والوں کے ساتھ خاص طور پر ان کا سلوک نہایت فیاضانہ ہوتا تھا۔ چناںچہ مکہ مکرمہ سے 95 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا ارادہ کیا گیا۔ زبیدہ خاتون نے پانی کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے مکمل حنین وادی خرید لی۔ انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین کو اس کی تعمیر کے لیے مشاورت کی دعوت دی۔ ماہرینِ تعمیرات کے مطابق نہر کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کی کٹائی، چٹانوں کی توڑ پھوڑ اور راستوں کے نشیب و فراز سے نمٹنے کے لیے نہ صرف کثیر اخراجات درکار ہوں گے بلکہ مزدوروں کو بھی دن رات محنت کرنا ہوگی۔
ماہرین کا تجزیہ سن کر ملکہ زبیدہ نے نہایت عزم سے تاریخ ساز حکم دیا ''اس نہر کی تعمیر میں خواہ کدال کی ہر ضرب پر ایک درہم لاگت کیوں نہ آئے میں اسے ادا کرنے لیے تیار ہوں۔''
ابتدا میں وادی حنین میں کنوئیں کھود کر پانی لایا گیا اور وادی میں پانی جمع کرنے کے لیے بڑے بڑے حوض بنائے گئے جن کے آثار اب تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں موجود درختوں کو کاٹ کر ایک تالاب بھی بنایا گیا جہاں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال میں لایا جاتا۔ کچھ عرصے بعد وادی حنین میں پانی کی سطح کم ہوئی تو وادی نعمان سے پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب نہر زبیدہ کے نام سے موسوم تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا۔ اس نہر سے 7 کاریزوں کے ذریعے پانی نہر میں لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک نہر میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔
کئی سالوں کی محنت کے بعد نہر کی عرفات میں جبلِ رحمت تک اور پھر منٰی اور مضفا تک توسیع کر دی گئی۔ جب یہ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ان کی خدمت میں پیش کیں۔ ملکہ نے تمام کاغذات کھول کر دیکھے بغیر دریا میں ڈال دیے اور کہا ''الٰہی مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا۔ تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔'' ملکہ زبیدہ نے کثیر ذاتی اخراجات سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر حجاج اکرام اور اہل مکہ کی پانی کی قلت کا مسئلہ حل کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسموں کے تغیرات اور لوگوں کے پمپوں سے پانی کھینچنے کے باعث نہر خشک ہوگئی۔ 1928ء میں شاہ عبدالعزیز کے دور میں یہ نہر دوبارہ بحال کی گئی اور 1950ء تک قائم رہی۔ دورِحاضر میں سعودی حکومت کے زیرنگرانی اس نہر کو پھر سے بحال کرنے کے لئے کام جاری ہے۔
یہ پختہ نہر تاریخ کے حوالوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گی او رتمام عالم کو رہتی دنیا تک ملکہ زبیدہ کے انسانیت سے ہمدردی اور خلوص کی یاد دلاتی رہے گی۔
دنیا کی سب سے قدیم اور طویل ترین نہر ہانگ زو (Hangzhou Canal) ہے جو چین میں واقع ہے جس کی لمبائی 1,794 کلومیٹر ہے۔ یہ نہر اس وقت کے شہنشاہ یانگ گانگ کی نقل و حرکت کے لیے بنائی گئی جو (بیجنگ) Zhuoduاور Hangzhouکے درمیان ہے۔ مشہورِزمانہ قدیم اور طویل ترین یہ نہر Yellow River اور Yangtze River کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہ نہر چین کے وسط سے کئی صوبوں سے گزرتے ہوئے مشرق کی طرف دوسرے بہت سے دریائوں سے ملتی ہے۔ یہ قدیم نہر 4 صدی قبل مسیح میں بنی اور 600 عیسوی میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور اس وقت سے لے کر اب تک استعمال میں ہے۔ یونیسکو نے اس نہر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔
یونان میں موجود دنیا کی سب سے مختصر اور گہری نہر کورنتھ کینال (Corinth Canal) 6.4کلومیٹر (4میل) لمبی اور 21.4میٹر (70فٹ) ہے اور اس کی گہرائی 8 میٹر ہے۔ یہ نہر سمندر کی سطح کے برابر پورے استھمس میں کھودی گئی ہے۔ اس میں کوئی لاک یا بند نہیں ہے۔ اس نہر کی تعمیر 1882ء میں شروع ہوئی اور 1893ء میں مکمل ہوئی۔ جدید بحری جہازوں کے لیے یہاں سے گزرنا ناممکن ہے، البتہ سیاحوں کے لیے یہ نہر باعث کشش ہے۔ کورنتھ کینال خلیج کورنتھ (Gulf of Corinth) اور خلیج سارونک (Gulf of Saronioc) کو آپس میں ملاتی ہے۔ اس نہر کے بننے سے پالوپونیس (Peloponnese) جو کہ ایک جزیرہ نما تھا اب جزیرہ بن گیا۔
دہلی کا حکم راں فیروز شاہ تغلق برصغیر کا وہ پہلا مسلم حکم راں تھا جس نے زرعی مقاصد کے لیے نہری نظام متعارف کرایا۔ بشمول مغربی جمنا کے اس نے حصار میں پانچ بڑی نہریں کھدوائیں۔ برصغیر پاک و ہند کا ذکر ہو تو مناسب ہے کہ بھارت کی سب سے اہم اور خاص نہر کی وجہ شہرت پر بات کی جائے۔ یہ نہر سبز انقلاب لانے میں بہت مددگار ثابت ہوئی۔ یہ انڈیا کی سب سے طویل اور دنیا کے بڑے زرعی منصوبے سے وابستہ نہر ہے۔ اس سے قبل یہ نہر راجستھان کینال کہلاتی تھی مگر 1984ء میں سابقہ وزیراعظم آف انڈیا کی تعظیم میں اس نہر کا نام اندرا گاندھی نہر رکھ دیا گیا۔
اس کی تعمیر 1952ء میں ہوئی۔ تھر کے صحرا میں اس نہر کی بے پناہ افادیت اور فیض کی بنا پر اسے 'ریگستان کا کنول' کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں پانی کی امید پر بارش کا انتظار کیا جاتا تھا۔ بھارت کی ریاست پنجاب کے دو دریائوں دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے سنگم پر ایک بیراج بنایا گیا ہے جس کا نام 'ہاریک بیراج' ہے جہاں سے یہ نہر نکالی گئی ہے۔ صدیوں پہلے تھر کا یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں قبل ایک دریا 'سرسوتی' جو اس علاقے سے گزرتا تھا اپنا راستے بدلنے اور موسموں اور زمانوں کے تغیر کے بعد طویل صحرا میں بدل گیا۔
اب ہم اپنے وطن ِ عزیز کے دل چسپ حقائق میں سے ایک حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ یہاں72 فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور ان کی آمدنی کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کا آب پاشی کا نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ انگریز راج میں 1800 ء میں دریائوں سے نکالی گئی نہروں کا جال بچھا کر آب پاشی کا نظام متعارف کرایا گیا۔
پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 3 بڑے ریزرورز اور 19 بیراج ہیں۔ اس کے علاوہ دریائوں سے براہ راست 12 نہریں نکالی گئی ہیں۔ 40 بڑی نہریں اور ایک لاکھ بیس ہزار 12,0000 پانی کے چھوٹے راستے یا گزرگاہیں ہیں۔ دریائے سندھ کے سالانہ پانی کا بہائو اوسطاً 146ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس میں سے 106ملین ایکڑ پانی نہروں کو دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی معروف نہریں جن میں سے ایک نہر مغلیہ دور کی تعمیر شدہ لاہور شہر کے مشرق سے گزرنے والی 37 میل لمبی، بمباں والی راوی بیدیاں کینال عرف بی آر بی نہر ہے۔
پنجاب میں چشمہ کے مقام پر بہنے والی نہر جو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے 'چشمہ رائٹ بنک اریگیشن پراجیکٹ' کہلاتی ہے۔ اسی طرح گوگیرہ برانچ نہر دریائے چناب سے نکالی گئی ہے جو پنجاب کے شہر فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔
جلال پور کینال جسے برطانوی راج نے 1898 ء میں بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر اسکی تعمیر 26 دسمبر 2019ء میں شروع ہوئی جو تا حال جاری ہے۔116 میٹر لمبی یہ نہر ضلع جہلم سے ضلع خوشاب تک تحصیل پنڈ دادن خان سے گزرے گی۔
جھنگ کے علاقے کو پانی مہیا کرنے والی نہر جھنگ برانچ کہلاتی ہے جو لوئر چناب کینال سے شروع ہوتی ہے۔
صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں کو سیراب کرنے والی 399کلومیٹر لمبی نہر 'کچھی کینال پراجیکٹ' ہے۔1987ء اور 1997ء کے درمیان بننے والی 'لیفٹ بنک آئوٹ فال ڈرین' ہے جو کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ سیلابی پانی کے نکاسی کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں زرعی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی گئی نہر پاکپتن کینال ہے جس کا منبع 'سلمانکی ہیڈ ورکس' ہے۔
گدو بیراج سے نکالی گئی 'رینی کینال پراجیکٹ' پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہروں گھوٹکی، سکھر اور خیرپور کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔
پاکستان کی سب سے طویل اور قابل ذکر نہر 'نارا کینال' ہے۔ یہ صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں واقع ہے۔ اس کا منبع روہڑی کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔ انگریز کے دور میں بننے والی یہ نہر 1858-59ء میں تعمیر ہوئی۔ اس کی لمبائی 226 میل ہے۔ عموماً نہریں سیدھی ہوتی ہیں مگر یہ نہر ٹیڑھی میڑھی اور بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے۔ گگھڑ ہاکڑا دریا رن کچھ میں گرتا تھا، یہ نہر اسی دریائی گزرگاہ میں 1858-59 میں کھودی گئی جو دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے گزرتی ہے۔
نارا سکھر بیراج سے ضلع خیرپور، سانگھڑ، میرپورخاص اور تھرپارکر تک جاتی ہے۔ یہ نہر 364کلومیٹر یعنی 226 میل تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ 8100 مربع کلومیٹر اراضی سیراب کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں یہاں کثیر تعداد میں مگرمچھ بھی پائے جاتے تھے۔ یہ نہر سکھر بیراج کی سب سے بڑی نہر ہے۔ نارا کینال سے 1385986ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔
نارا کینال سسٹم میں6 دوسری ذیلی نہریں بھی ہیں۔ یہ نہر جغرافیائی طور پر جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہاں گھنے جنگلات، صحرا اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ پانی کو جس رخ پر جگہ ملتی تھی وہ اپنا راستہ بناتا چلا جاتا تھا۔ اس خوب صورت کینال کے دائیں جانب مغرب میں زرعی زمین اور بائیں جانب اچھڑو تھر اور مکی کے جنگلات اور صحرائی علاقے ہیں۔ نارا نہر کے ساتھ حسین جھیلیں اور ڈیم بھی ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
عام طور پر نہریں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے یا سفری اور تجارتی جہازوں کی آمدورفت کے لیے نکالی جاتی ہیں مگر دنیا میں کچھ نہریں شہروں کی آرائش، خوب صورتی اور سیاحوں کے دل موہ لینے کے لیے بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک حالیہ دور میں بننے والی 'دبئی واٹر کینال' ہے۔ یہ مصنوعی نہر 2 اکتوبر 2013 ء کو شروع ہوئی اور 9 نومبر 2016 کو اس کا افتتاح ہوا۔ جدید دبئی دنیا بھر کے کاروباری اور سیاحتی لوگوں کی آماج گاہ ہے۔
لہٰذا اس نہر کے کنارے خریداری کے بڑے بڑے مراکز،4 ہوٹل، 450 ریستوراں، پُرتعیش رہائشی گھر، پیدل اور سائیکل سواروں کے لیے خوب صورت اور صاف کشادہ راستے ہیں۔ دبئی شہر کی دل کشی اور کشش میں اضافہ کرنے والی یہ نہر 3.2 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 120میٹر اور کم از کم 80 میٹر ہے۔ یہ نہر 'بزنس بے' کے مقام سے کھودی گئی ہے جو کہ صفہ پارک اور جمیرہ کے مقام سے گزرتی ہوئی خلیج فارس میں جاگرتی ہے۔ سیاحوں کے لیے اس نہر سے ملحق پرکشش اور تفریحی مقامات بھی ہیں۔ اس نہر کا پانی ہر وقت ارتعاش اور حرکت میں رکھا گیا ہے۔ کشتیوں کے ذریعے نہر کی سیر سیاحوں کو نہایت مرغوب ہے۔