دنیائے طب کا ایک گوہرِ نایاب ’ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی‘
اُن کی زندگی ناممکنات کو ممکن بنانے میں صَرف ہوئی!
CAMBODIA:
قدرتی طور پر اگر کوئی 'اعزاز' آپ کے 'حصے' میں آجائے، تو بلاشبہ یہ ایک 'خوش قسمتی' ہی ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں آپ کا اپنا کوئی کردار اور دوش بالکل نہیں ہوتا۔۔۔ بس ایسے ہی کچھ اعزاز ہمارے نصیب میں بھی آئے۔
جن میں سے ایک اعزاز یہ رہا کہ ہمارے آبائی محلے 'دہلی کالونی' (کراچی) میں جنم لینے والا، ہمارے ہی ایک غیرمعروف سے اسکول میں پڑھنے والا ایک ذہین شخص پاکستان میں ''بون میرو ٹرانسپلانٹیشن'' کا بانی 'ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی' بنا اور قومی اور بین الاقوامی شہرتوں کو جا پہنچا۔۔۔! بزرگوں کے زمانے سے استوار اِن سے خاندانی راہ ورسم سونے پہ سہاگہ ثابت ہوئے، جو ہمیں ایک مضبوط اور غیررسمی تعلق میں جوڑ گئے۔ سو وہ ہم سے اکثر 'فیس بک' اور 'واٹس ایپ' پر رابطے میں رہتے۔ کبھی طبی مشورے تو کبھی غیررسمی گفتگو کا سلسلہ بھی رہتا۔
پانچ اکتوبر 2021ء کو 'یومِ اساتذہ' پر جب ہم نے 'فیس بک' پر اپنی 'پِری اسکول' ٹیچر قمر سلطانہ باجی کی پوسٹ لگائی، جنھوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا، تو اس 'پوسٹ' پر انھوں نے انکشاف کیا کہ حفظ کرنے کے بعد انھیں پانچویں جماعت میں داخلے کے لیے بھی قمر باجی نے ہی تیار کیا تھا۔ یوں ہمارے درمیان ایک اور قدر مشترک نکل آئی۔ تب اتفاق سے قمر باجی امریکا سے کراچی آئی ہوئی تھیں، ڈاکٹر طاہر نے ہم سے نمبر لے کر ان سے رابطہ بھی کیا۔ وہ ہماری اُن چند ہستیوں میں شامل تھے، جو ہم جیسے نوآموز صحافی کو اپنے صحافتی انٹرویو، کالم اور مضامین وغیرہ کو کتابی شکل میں لانے کی خواہش کا اظہار کر کے ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے۔
چند ماہ قبل ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اسکول میں کے بچوں کو ناظرہ وغیرہ پڑھانے کی مخالفت کی، جس پر لوگ ہود بھائی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، تب انھوں نے نہایت شائستگی سے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے 'فیس بک' پر لکھا تھا کہ پرویز ہود بھائی 'کوانٹم فزکس' میں ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، اس لیے اختلاف کرنے میں احترام ملحوظ رکھیے، پھر انھوں نے بھی نہایت دھیمے لفظوں میں بتایا تھا کہ حفظ قرآن سے کس طرح یادداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے اجازت لی کہ ہم ان کی یہ تحریر 'ایکسپریس' کے لیے نقل کرلیں، تو انھوں نے فرمایا کہ 'نہیں، اخبار میں آکر بات دیگر ہو جائے گی!'
افسوس، ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی 21 دسمبر 2021ء کو آغاخان اسپتال کراچی میں انتقال کر گئے، انھیں تین چار روز قبل برین ہیمبرج ہوا، جس کے بعد ان کا آپریشن بھی کیا گیا، لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔۔۔! ملک بھر کے طبی حلقوں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی یہ خبر نہایت دکھ کے ساتھ سنی۔۔۔ اِن کی نمازِ جنازہ میں سوگواران کا جمِ غفیر اپنے آپ افسردگی کی پوری کہانی کہہ رہا تھا۔ اُن میں سے نہ جانے کتنوں کے لختِ جگر اور کتنے خود 'بون میرو ٹرانسپلانٹ' (ہڈی کے گودے کی پیوند کاری) کے سبب آج ایک نئی زندگی جی رہے ہوں گے۔
روزنامہ 'ایکسپریس' کے لیے ہمارے 75 سے زائد مختلف شخصیات کے انٹرویو کے دوران ڈاکٹر طاہر شمسی اب تک واحد ایسی شخصیت ہیں، جن کے ہمیں دو سال کے وقفے سے دو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ 2017ء میں پہلے انٹرویو میں تو ظاہر ہے، ہم نے ان کے کام اور شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی، جب کہ 2019ء میں دوسرے انٹرویو کا موقع سابق وزیراعظم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل ان کے معائنے کے بعد ملا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی، نواز شریف کی بیماری پر مختلف باتیں بنائے جانے پر خاصے محتاط تھے اور ہمیں انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ان سے کئی صحافی اور ٹی وی چینلوں نے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی اور اس حوالے سے صرف ہم ہی سے گفتگو فرمائی۔
اِس انٹرویو میں وہ سابق وزیراعظم کے معائنے کے لیے بلائے جانے پر کوئی فخر محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی ایک ڈاکٹر بھی ایسا کیوں نہیں ہے، جو یہ کام کر سکتا؟ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ایسے لوگ تیار کر جائیں، جو ان کے بعد ان کے شروع کیے گئے سارے کاموں کو بہ حسن وخوبی جاری رکھ سکیں۔
دسمبر 1994ء میں لندن میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ملازمت کی پیش کش چھوڑ کے وطن لوٹنے والے ڈاکٹر طاہر شمسی کو کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کی خوب خبر تھی، یہاں روزانہ لاشیں ملا کرتی تھیں، ہفتے میں تین دن شہر بند ہوتا تھا، ایسے میں ان کے شعبے کے لیے کوئی بھی بنیادی سہولت تک موجود نہ تھی، لیکن وہ پرعزم رہے۔
یہاں سات بڑے اداروں کو درخواستیں ارسال کیں۔ صرف تین جگہ سے جواب ملا۔ اُس وقت لاہور کے زیر تکمیل 'شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال' نے کہا کہ ہم امریکی تربیت یافتہ لوگوں کو رکھ رہے ہیں، آغا خان اسپتال نے ایک سال بعد معذرت کی کہ ہم تقرر کر چکے ہیں۔
بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں بلا لیا گیا، جہاں انٹرویو میں ملک کے اندر 'بون میرو ٹرانسپلانٹیشن' کرنے کا خواب سن کر یہ بھپتی کَسی گئی کہ 1981ء سے ملٹری جیسا ادارہ ابھی اس پر کام ہی کر رہا ہے، تو تمھاری کیا اوقات ہے۔۔۔؟ اگر تمھاری اگلی نسل بھی یہ کام کر لے، تو بہت بڑی بات ہوگی! تاہم جنوری 1995ء میں انھیں ضیا الدین اسپتال (کراچی) نے بلا لیا، جہاں انھوں نے 'بون میرو ٹرانسپلانٹ' کے لیے مطلوبہ نظام تیار کرنا شروع کیا اور عملے کو ضروری تربیت دی اور 13 ستمبر 1995ء کو وہ سنہری دن آیا، جب کام یابی کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی نے ہمیں انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ ایک کام یاب تحقیق کر چکے ہیں کہ پاکستان میں پائی جانے والی موروثی بیماریوں میں کون سا جینیاتی نقص زیادہ ہے۔ تھیلیسمیا کے علاوہ 200 بیماریاں ایسی ہیں، جن کا انھوں نے ایک خاکہ بنایا، جو آگے چل کر جینز کی تدوین میں بنیاد فراہم کرے گا، جس سے بہت سی موروثی بیماریاں نہ صرف اس فرد میں، بلکہ اس کی آنے والی نسلوں میں بھی ختم ہو سکیں گی۔
ڈاکٹر طاہر شمسی اینیمیا (خون کی کمی) کے حوالے سے صورت حال کو بہت زیادہ تشویش ناک قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 15 سے 40 برس کی ہر تین میں سے دو خواتین اس کا شکار ہیں، جس کے سبب ان کی صحت اور معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا کی کمی، زچگی اور خون کا زیادہ اخراج ہے۔ وہ آلودہ پانی کو آدھی بیماریوں کا سبب قرار دیتے تھے، کہتے کہ کراچی کے کسی علاقے میں بھی صاف پانی فراہم نہیں ہو رہا۔ شہریوں کو 'بورنگ کرانے کے بعد کسی بھی بڑے استپال سے پانی کا 'کلچر' ضرور کرا لینا چاہیے، اگر پانی کا معیار خراب ہو تو پھر مزید نیچے سے پانی نکالنا چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور کھانے کے برتن دھونے کے لیے بھی یہی ابلا ہوا پانی استعمال کرنا چاہیے۔
دنیا بھر میں پڑھائی جانے والی چھے کتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود طاہر شمسی سے انگریزی نہیں پڑھی جاتی تھی، اردو نثر اور طنزومزاح وہ شوق سے پڑھتے، گھر میں دو تین الماریاں ایسی ہی کتب سے آراستہ رہیں۔ جب کہ اپنے شعبے سے متعلق کتب وہ دفتر میں ہی رکھتے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج میں 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستگی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ تعلق حمایت تک تھا، کبھی ان کا کارکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی سوچ کو کسی کے تابع کرنے کا قائل نہیں، مجھے اگر آپ کی کسی بات سے اتفاق نہیں ہے، تو میں آپ کی بات پر عمل نہیں کروں گا، بلکہ اس کا اظہار کروں گا۔
میں اپنی سوچ پر پہرہ نہیں بٹھا سکتا! کسی بھی تنظیم سے وابستگی وہاں کے نظم وضبط کی پابند کر دیتی ہے، جسے میں نے تسلیم نہیں کیا۔ وہ کہتے کہ قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہمیں بچپن سے جزا وسزا اور انبیا کے واقعات کے سوا کچھ نہیں سمجھایا جاتا۔ تخلیقِ کائنات کے حوالے سے غور وخوص ان کی دل چسپی کا ایک بڑا موضوع تھا، وہ کہتے کہ جناب آدم علیہ السلام کی آمد لگ بھگ 10 ہزار برس پرانی بات ہے، لیکن آج 10 سے 50 لاکھ سال پرانے اجسام ملے ہیں، وہ کون لوگ تھے؟ اس کی کھوج میں وہ مختلف فلسفیوں کر پڑھ رہے تھے۔
2019ء میں امریکن سوسائٹی آف ہیماٹولوجی (ASH) کی بین الاقوامی کانفرنس میں 'این آئی بی ڈی' کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالے کو 10 بہترین تحقیقات میں شامل کیا گیا۔ دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا علاج خون کی تبدیلی یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر شمسی کے زیرنگرانی 10 سالہ تحقیق کے بعد 2012ء میں بہ ذریعہ دوا تھیلیسیمیا کا علاج دریافت کیا گیا، جس میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے، یعنی اس دوا سے ملک کے کم سے کم (2017ء کے مطابق) سالانہ چھے ارب روپے اور پانچ لاکھ خون کی بوتلیں بچ سکتی ہیں!
ہمارے معاشرے کا یہ قیمتی اثاثہ محض 59 سال کی عمر میں ہی ابدی نیند سو گیا۔۔۔ شاید قدرت نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے جتنا کام لینا تھا، جلدی جلدی وہ تمام معرکے سر کر گئے اور بہت سے ناممکنات کو ممکن بنا گئے۔۔۔ ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا خاندانی کام گھڑیوں کا تھا، میٹرک کے بعد وہ بھی کچھ وقت کے لیے گھڑیوں کی دکان پر بیٹھتے تھے، لیکن یہ 'گھڑی والے' بھی کتنے عجیب تھے کہ ان کے پاس ہی اتنی کم 'گھڑیاں' تھیں۔۔۔!
٭شاپنگ مال ناکام ہوا تو طاہر شمسی کام یاب ہوئے!
ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی رمضان میں 18 فروری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، وہ تین بہنیں اور تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ 10 ماہ میں قرآن مجید ناظرہ اور دو سال اور دو ماہ میں حفظ کر لیا، اس وقت عمر آٹھ برس تھی۔ پھر 1974ء تا 2012ء تراویح پڑھانے کا سلسلہ رہا، لیکن اس کے بعد مصروفیات آڑے آئی، پرائمری اسکول نہیں پڑھے، یہ تدریس غیر رسمی رہی۔
1971ء میں براہ راست چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا، خاندان میں کاروبار کا رواج تھا، اس لیے میٹرک کے بعد وہ کراچی کے پہلے شاپنگ مال 'پنوراما سینٹر' (صدر) میں اپنے دادا کی گھڑیوں کی دکان پر جانے لگے، شاپنگ مال کی ناکامی ایک سال بعد ان کے 'ڈی جے کالج' میں داخلہ لینے کا راستہ بن گئی، کالج سے دکان چلے جاتے، انھیں ہدایت تھی کہ 'میاں صاحب، اپنی پڑھائی کے لیے دکان کے بعد وقت نکالیے۔' انٹر کے نتائج آنے سے پہلے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی سے منسلک ہوگئے، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی، پھر ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، تعلیمی اداروں میں امن وامان کے خراب حالات کے سبب یہاں پانچ سال کی تعلیم ساڑھے سات برس میں نبٹ سکی۔
وہ کہتے تھے کہ یہ امر ایسا تھا کہ ''جیسے سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لی گئی ہوں۔'' یہ میڈیکل کا تیسرا سال تھا کہ جب ہنگاموں کے سبب کراچی کے تعلمی ادارے بند تھے۔۔۔ انھوں نے میڈیکل کے نئے طلبا کو پڑھانا شروع کیا اور پھر یہ ہوا کہ اپنے امتحان سے پہلے وہ ہر مضمون کو وہ پانچ، پانچ بار پڑھا چکے تھے۔ اس ڈھائی برس کے 'خسارے' کو ہر ممکن طریقے سے تربیت اور تجربے حاصل کر کے کارآمد کیا اور اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کیے، 1986ء میں اپنی تشخیصی لیبارٹری بنائی۔
1988ء میں امتحانات کے بعد تخصیصی مہارت کے لیے پہلے امراضیات (Pathology) اور پھر 'امراضِ خون' کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سول اسپتال میں میڈیسن اینڈ سرجری میں ہاؤس جاب کے دوران برطانیہ کے 'رائل کالج آف پتھالوجسٹس' کا بلاوا گیا۔ وہاں اسسمنٹ کے امتحان کے لیے مطلوبہ تجربہ ہفتے کے 40 گھنٹے کے حساب سے پانچ برس میں مکمل ہوتا ہے، لیکن انھوں نے ہفتے کے 80 گھنٹے کام کیا اور دو سال بعد ہی امتحان کام یاب کرلیا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی چار برس ضیا الدین اسپتال سے منسلک رہے، انھیں محسوس ہوا کہ ان کے اہداف زندگی ایک نجی ادارے سے کچھ میل نہیں کھاتے، چناں چہ اسے بطور خدمت عام کرنے کے لیے وہاں سے الگ ہوکر سرگرم ہوئے، تاہم اس کام کے لیے یہ اْن کی پہلی سیڑھی تھی۔ وہ کہتے کہ میرے مقاصد میں کبھی پیسے کمانا شامل نہیں رہا، انھیں یقین تھا کہ جو رزق ان کے لیے لکھا ہے، وہ انھیں ضرور ملے گا، اسی لیے انھوں نے خلاف روایت جگہ جگہ پریکٹس کرنے یا کلینک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم گھر چلانے کے لیے جُزوقتی طور پر 'ایس آئی یو ٹی' (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) سے منسلک ہوئے۔
صبح آٹھ تا دوپہر ایک بجے وہاں ہوتے اور باقی وقت اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر مرکوز رہتے۔ چار سال بعد 2000ء میں 'بسم اللہ تقی فاؤنڈیشن' کے ساتھ ایک 'بون میرو انسٹی ٹیوٹ' کی داغ بیل ڈالی، پھر یکم جولائی 2008ء کو 'نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن' (این آئی بی ڈی) کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی دسمبر 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات خاتون خانہ ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے والد تھے۔
قدرتی طور پر اگر کوئی 'اعزاز' آپ کے 'حصے' میں آجائے، تو بلاشبہ یہ ایک 'خوش قسمتی' ہی ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں آپ کا اپنا کوئی کردار اور دوش بالکل نہیں ہوتا۔۔۔ بس ایسے ہی کچھ اعزاز ہمارے نصیب میں بھی آئے۔
جن میں سے ایک اعزاز یہ رہا کہ ہمارے آبائی محلے 'دہلی کالونی' (کراچی) میں جنم لینے والا، ہمارے ہی ایک غیرمعروف سے اسکول میں پڑھنے والا ایک ذہین شخص پاکستان میں ''بون میرو ٹرانسپلانٹیشن'' کا بانی 'ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی' بنا اور قومی اور بین الاقوامی شہرتوں کو جا پہنچا۔۔۔! بزرگوں کے زمانے سے استوار اِن سے خاندانی راہ ورسم سونے پہ سہاگہ ثابت ہوئے، جو ہمیں ایک مضبوط اور غیررسمی تعلق میں جوڑ گئے۔ سو وہ ہم سے اکثر 'فیس بک' اور 'واٹس ایپ' پر رابطے میں رہتے۔ کبھی طبی مشورے تو کبھی غیررسمی گفتگو کا سلسلہ بھی رہتا۔
پانچ اکتوبر 2021ء کو 'یومِ اساتذہ' پر جب ہم نے 'فیس بک' پر اپنی 'پِری اسکول' ٹیچر قمر سلطانہ باجی کی پوسٹ لگائی، جنھوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا، تو اس 'پوسٹ' پر انھوں نے انکشاف کیا کہ حفظ کرنے کے بعد انھیں پانچویں جماعت میں داخلے کے لیے بھی قمر باجی نے ہی تیار کیا تھا۔ یوں ہمارے درمیان ایک اور قدر مشترک نکل آئی۔ تب اتفاق سے قمر باجی امریکا سے کراچی آئی ہوئی تھیں، ڈاکٹر طاہر نے ہم سے نمبر لے کر ان سے رابطہ بھی کیا۔ وہ ہماری اُن چند ہستیوں میں شامل تھے، جو ہم جیسے نوآموز صحافی کو اپنے صحافتی انٹرویو، کالم اور مضامین وغیرہ کو کتابی شکل میں لانے کی خواہش کا اظہار کر کے ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے۔
چند ماہ قبل ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اسکول میں کے بچوں کو ناظرہ وغیرہ پڑھانے کی مخالفت کی، جس پر لوگ ہود بھائی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، تب انھوں نے نہایت شائستگی سے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے 'فیس بک' پر لکھا تھا کہ پرویز ہود بھائی 'کوانٹم فزکس' میں ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، اس لیے اختلاف کرنے میں احترام ملحوظ رکھیے، پھر انھوں نے بھی نہایت دھیمے لفظوں میں بتایا تھا کہ حفظ قرآن سے کس طرح یادداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے اجازت لی کہ ہم ان کی یہ تحریر 'ایکسپریس' کے لیے نقل کرلیں، تو انھوں نے فرمایا کہ 'نہیں، اخبار میں آکر بات دیگر ہو جائے گی!'
افسوس، ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی 21 دسمبر 2021ء کو آغاخان اسپتال کراچی میں انتقال کر گئے، انھیں تین چار روز قبل برین ہیمبرج ہوا، جس کے بعد ان کا آپریشن بھی کیا گیا، لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔۔۔! ملک بھر کے طبی حلقوں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی یہ خبر نہایت دکھ کے ساتھ سنی۔۔۔ اِن کی نمازِ جنازہ میں سوگواران کا جمِ غفیر اپنے آپ افسردگی کی پوری کہانی کہہ رہا تھا۔ اُن میں سے نہ جانے کتنوں کے لختِ جگر اور کتنے خود 'بون میرو ٹرانسپلانٹ' (ہڈی کے گودے کی پیوند کاری) کے سبب آج ایک نئی زندگی جی رہے ہوں گے۔
روزنامہ 'ایکسپریس' کے لیے ہمارے 75 سے زائد مختلف شخصیات کے انٹرویو کے دوران ڈاکٹر طاہر شمسی اب تک واحد ایسی شخصیت ہیں، جن کے ہمیں دو سال کے وقفے سے دو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ 2017ء میں پہلے انٹرویو میں تو ظاہر ہے، ہم نے ان کے کام اور شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی، جب کہ 2019ء میں دوسرے انٹرویو کا موقع سابق وزیراعظم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل ان کے معائنے کے بعد ملا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی، نواز شریف کی بیماری پر مختلف باتیں بنائے جانے پر خاصے محتاط تھے اور ہمیں انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ان سے کئی صحافی اور ٹی وی چینلوں نے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی اور اس حوالے سے صرف ہم ہی سے گفتگو فرمائی۔
اِس انٹرویو میں وہ سابق وزیراعظم کے معائنے کے لیے بلائے جانے پر کوئی فخر محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی ایک ڈاکٹر بھی ایسا کیوں نہیں ہے، جو یہ کام کر سکتا؟ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ایسے لوگ تیار کر جائیں، جو ان کے بعد ان کے شروع کیے گئے سارے کاموں کو بہ حسن وخوبی جاری رکھ سکیں۔
دسمبر 1994ء میں لندن میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ملازمت کی پیش کش چھوڑ کے وطن لوٹنے والے ڈاکٹر طاہر شمسی کو کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کی خوب خبر تھی، یہاں روزانہ لاشیں ملا کرتی تھیں، ہفتے میں تین دن شہر بند ہوتا تھا، ایسے میں ان کے شعبے کے لیے کوئی بھی بنیادی سہولت تک موجود نہ تھی، لیکن وہ پرعزم رہے۔
یہاں سات بڑے اداروں کو درخواستیں ارسال کیں۔ صرف تین جگہ سے جواب ملا۔ اُس وقت لاہور کے زیر تکمیل 'شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال' نے کہا کہ ہم امریکی تربیت یافتہ لوگوں کو رکھ رہے ہیں، آغا خان اسپتال نے ایک سال بعد معذرت کی کہ ہم تقرر کر چکے ہیں۔
بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں بلا لیا گیا، جہاں انٹرویو میں ملک کے اندر 'بون میرو ٹرانسپلانٹیشن' کرنے کا خواب سن کر یہ بھپتی کَسی گئی کہ 1981ء سے ملٹری جیسا ادارہ ابھی اس پر کام ہی کر رہا ہے، تو تمھاری کیا اوقات ہے۔۔۔؟ اگر تمھاری اگلی نسل بھی یہ کام کر لے، تو بہت بڑی بات ہوگی! تاہم جنوری 1995ء میں انھیں ضیا الدین اسپتال (کراچی) نے بلا لیا، جہاں انھوں نے 'بون میرو ٹرانسپلانٹ' کے لیے مطلوبہ نظام تیار کرنا شروع کیا اور عملے کو ضروری تربیت دی اور 13 ستمبر 1995ء کو وہ سنہری دن آیا، جب کام یابی کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی نے ہمیں انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ ایک کام یاب تحقیق کر چکے ہیں کہ پاکستان میں پائی جانے والی موروثی بیماریوں میں کون سا جینیاتی نقص زیادہ ہے۔ تھیلیسمیا کے علاوہ 200 بیماریاں ایسی ہیں، جن کا انھوں نے ایک خاکہ بنایا، جو آگے چل کر جینز کی تدوین میں بنیاد فراہم کرے گا، جس سے بہت سی موروثی بیماریاں نہ صرف اس فرد میں، بلکہ اس کی آنے والی نسلوں میں بھی ختم ہو سکیں گی۔
ڈاکٹر طاہر شمسی اینیمیا (خون کی کمی) کے حوالے سے صورت حال کو بہت زیادہ تشویش ناک قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 15 سے 40 برس کی ہر تین میں سے دو خواتین اس کا شکار ہیں، جس کے سبب ان کی صحت اور معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا کی کمی، زچگی اور خون کا زیادہ اخراج ہے۔ وہ آلودہ پانی کو آدھی بیماریوں کا سبب قرار دیتے تھے، کہتے کہ کراچی کے کسی علاقے میں بھی صاف پانی فراہم نہیں ہو رہا۔ شہریوں کو 'بورنگ کرانے کے بعد کسی بھی بڑے استپال سے پانی کا 'کلچر' ضرور کرا لینا چاہیے، اگر پانی کا معیار خراب ہو تو پھر مزید نیچے سے پانی نکالنا چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور کھانے کے برتن دھونے کے لیے بھی یہی ابلا ہوا پانی استعمال کرنا چاہیے۔
دنیا بھر میں پڑھائی جانے والی چھے کتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود طاہر شمسی سے انگریزی نہیں پڑھی جاتی تھی، اردو نثر اور طنزومزاح وہ شوق سے پڑھتے، گھر میں دو تین الماریاں ایسی ہی کتب سے آراستہ رہیں۔ جب کہ اپنے شعبے سے متعلق کتب وہ دفتر میں ہی رکھتے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج میں 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستگی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ تعلق حمایت تک تھا، کبھی ان کا کارکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی سوچ کو کسی کے تابع کرنے کا قائل نہیں، مجھے اگر آپ کی کسی بات سے اتفاق نہیں ہے، تو میں آپ کی بات پر عمل نہیں کروں گا، بلکہ اس کا اظہار کروں گا۔
میں اپنی سوچ پر پہرہ نہیں بٹھا سکتا! کسی بھی تنظیم سے وابستگی وہاں کے نظم وضبط کی پابند کر دیتی ہے، جسے میں نے تسلیم نہیں کیا۔ وہ کہتے کہ قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہمیں بچپن سے جزا وسزا اور انبیا کے واقعات کے سوا کچھ نہیں سمجھایا جاتا۔ تخلیقِ کائنات کے حوالے سے غور وخوص ان کی دل چسپی کا ایک بڑا موضوع تھا، وہ کہتے کہ جناب آدم علیہ السلام کی آمد لگ بھگ 10 ہزار برس پرانی بات ہے، لیکن آج 10 سے 50 لاکھ سال پرانے اجسام ملے ہیں، وہ کون لوگ تھے؟ اس کی کھوج میں وہ مختلف فلسفیوں کر پڑھ رہے تھے۔
2019ء میں امریکن سوسائٹی آف ہیماٹولوجی (ASH) کی بین الاقوامی کانفرنس میں 'این آئی بی ڈی' کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالے کو 10 بہترین تحقیقات میں شامل کیا گیا۔ دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا علاج خون کی تبدیلی یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر شمسی کے زیرنگرانی 10 سالہ تحقیق کے بعد 2012ء میں بہ ذریعہ دوا تھیلیسیمیا کا علاج دریافت کیا گیا، جس میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے، یعنی اس دوا سے ملک کے کم سے کم (2017ء کے مطابق) سالانہ چھے ارب روپے اور پانچ لاکھ خون کی بوتلیں بچ سکتی ہیں!
ہمارے معاشرے کا یہ قیمتی اثاثہ محض 59 سال کی عمر میں ہی ابدی نیند سو گیا۔۔۔ شاید قدرت نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے جتنا کام لینا تھا، جلدی جلدی وہ تمام معرکے سر کر گئے اور بہت سے ناممکنات کو ممکن بنا گئے۔۔۔ ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا خاندانی کام گھڑیوں کا تھا، میٹرک کے بعد وہ بھی کچھ وقت کے لیے گھڑیوں کی دکان پر بیٹھتے تھے، لیکن یہ 'گھڑی والے' بھی کتنے عجیب تھے کہ ان کے پاس ہی اتنی کم 'گھڑیاں' تھیں۔۔۔!
٭شاپنگ مال ناکام ہوا تو طاہر شمسی کام یاب ہوئے!
ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی رمضان میں 18 فروری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، وہ تین بہنیں اور تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ 10 ماہ میں قرآن مجید ناظرہ اور دو سال اور دو ماہ میں حفظ کر لیا، اس وقت عمر آٹھ برس تھی۔ پھر 1974ء تا 2012ء تراویح پڑھانے کا سلسلہ رہا، لیکن اس کے بعد مصروفیات آڑے آئی، پرائمری اسکول نہیں پڑھے، یہ تدریس غیر رسمی رہی۔
1971ء میں براہ راست چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا، خاندان میں کاروبار کا رواج تھا، اس لیے میٹرک کے بعد وہ کراچی کے پہلے شاپنگ مال 'پنوراما سینٹر' (صدر) میں اپنے دادا کی گھڑیوں کی دکان پر جانے لگے، شاپنگ مال کی ناکامی ایک سال بعد ان کے 'ڈی جے کالج' میں داخلہ لینے کا راستہ بن گئی، کالج سے دکان چلے جاتے، انھیں ہدایت تھی کہ 'میاں صاحب، اپنی پڑھائی کے لیے دکان کے بعد وقت نکالیے۔' انٹر کے نتائج آنے سے پہلے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی سے منسلک ہوگئے، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی، پھر ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، تعلیمی اداروں میں امن وامان کے خراب حالات کے سبب یہاں پانچ سال کی تعلیم ساڑھے سات برس میں نبٹ سکی۔
وہ کہتے تھے کہ یہ امر ایسا تھا کہ ''جیسے سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لی گئی ہوں۔'' یہ میڈیکل کا تیسرا سال تھا کہ جب ہنگاموں کے سبب کراچی کے تعلمی ادارے بند تھے۔۔۔ انھوں نے میڈیکل کے نئے طلبا کو پڑھانا شروع کیا اور پھر یہ ہوا کہ اپنے امتحان سے پہلے وہ ہر مضمون کو وہ پانچ، پانچ بار پڑھا چکے تھے۔ اس ڈھائی برس کے 'خسارے' کو ہر ممکن طریقے سے تربیت اور تجربے حاصل کر کے کارآمد کیا اور اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کیے، 1986ء میں اپنی تشخیصی لیبارٹری بنائی۔
1988ء میں امتحانات کے بعد تخصیصی مہارت کے لیے پہلے امراضیات (Pathology) اور پھر 'امراضِ خون' کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سول اسپتال میں میڈیسن اینڈ سرجری میں ہاؤس جاب کے دوران برطانیہ کے 'رائل کالج آف پتھالوجسٹس' کا بلاوا گیا۔ وہاں اسسمنٹ کے امتحان کے لیے مطلوبہ تجربہ ہفتے کے 40 گھنٹے کے حساب سے پانچ برس میں مکمل ہوتا ہے، لیکن انھوں نے ہفتے کے 80 گھنٹے کام کیا اور دو سال بعد ہی امتحان کام یاب کرلیا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی چار برس ضیا الدین اسپتال سے منسلک رہے، انھیں محسوس ہوا کہ ان کے اہداف زندگی ایک نجی ادارے سے کچھ میل نہیں کھاتے، چناں چہ اسے بطور خدمت عام کرنے کے لیے وہاں سے الگ ہوکر سرگرم ہوئے، تاہم اس کام کے لیے یہ اْن کی پہلی سیڑھی تھی۔ وہ کہتے کہ میرے مقاصد میں کبھی پیسے کمانا شامل نہیں رہا، انھیں یقین تھا کہ جو رزق ان کے لیے لکھا ہے، وہ انھیں ضرور ملے گا، اسی لیے انھوں نے خلاف روایت جگہ جگہ پریکٹس کرنے یا کلینک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم گھر چلانے کے لیے جُزوقتی طور پر 'ایس آئی یو ٹی' (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) سے منسلک ہوئے۔
صبح آٹھ تا دوپہر ایک بجے وہاں ہوتے اور باقی وقت اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر مرکوز رہتے۔ چار سال بعد 2000ء میں 'بسم اللہ تقی فاؤنڈیشن' کے ساتھ ایک 'بون میرو انسٹی ٹیوٹ' کی داغ بیل ڈالی، پھر یکم جولائی 2008ء کو 'نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن' (این آئی بی ڈی) کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی دسمبر 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات خاتون خانہ ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے والد تھے۔