ذوقِ مطالعہ کے فروغ میں کتب میلوں کا کردار

اس طرح کے کُتب میلوں میں ظاہرہے کہ لوگ کتابیں ہی خریدنے کیلیے آتے ہیں کوئی روزمرہ کی ضروریات زندگی توخریدنے نہیں آتے

اس طرح کے کُتب میلوں میں ظاہرہے کہ لوگ کتابیں ہی خریدنے کیلیے آتے ہیں کوئی روزمرہ کی ضروریات زندگی توخریدنے نہیں آتے۔ فوٹو : فائل

SEOUL:
شہزاد نیاز (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، سندھ)

میرے نزدیک کُتب میلوں کا انعقاد ایک کاروباری سرگرمی سے زیادہ نہیں ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ اگر کسی کتب میلے کا انعقاد کام یابی سے اختتام پذیر ہوا ہے اور اس نے کاروباری نُقطہِ نظر سے خاطر خواہ کام یابی حاصل کی ہے تو یقیناً اس نے کُتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی کام یاب کاروباری سرگرمی سے لکھاریوں، ناشروں، تقسیم کُنندگان اور کتب فروشوں کا فائدہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اِن کُتب میلوں نے کیا کردار ادا کیا؟ تو اس کا جواب بہت سادہ اور آسان سا ہے وہ یہ کہ اس طرح کے کُتب میلوں میں ظاہر ہے کہ لوگ کتابیں ہی خریدنے کے لیے آتے ہیں کو ئی روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی تو خریدنے نہیں آتے، لہٰذا ایسے کُتب میلوں کا کاروباری فائدے کے ساتھ اختتام پذیر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کثیر تعداد میں کتابیں خریدی گئی ہیں، اور لوگوں کا مجموعی طور پر بڑی تعداد میں کُتب خریدنا اس بات کی دلیل ہے کہ معاشرے میں ذوقِ مطالعہ کی عادت پروان چڑھ رہی ہے۔

یہاں میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ آپ کسی کو تحفتاً یا بغیر کسی قیمت کے کتاب دیں تو امکان ہے کہ شاید وہ اسے پڑھنے میں دل چسپی نہ لے لیکن اگر کوئی شخص پیسے خرچ کر کے کتاب خرید رہا ہے تو یقیناً یہ اس بات کا مظہر ہے کہ ایسا شخص کُتب بینی کا شوق رکھتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ جس گھر، دفتر یا ادارے میں اس عادت کا حامل ایک بھی شخص موجود ہے وہ اپنے ارد گرد موجود افراد میں سے کم از کم دو، چار میں تو ذوقِ مطالعہ بیدار کرنے میں کام یاب ہو ہی جاتا ہے۔ اور اس طرح چراغ سے چراغ جلنے کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔

ان کُتب میلوں سے جُڑی تمام سرگرمیوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کہیں نہ کہیں ذوقِ مطالعہ کے فروغ میں اہم کردار ہے۔ اس طرح کے میلوں کے انعقاد سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں آئیں اب اُن میں سے چُنیدہ فوائد کو نکتہ وار مختصراً بیان کرتے ہیں:

1۔قومی و بین الاقوامی لکھاریوں اور ناشرین کی کُتب ایک ہی چھت تلے دست یاب ہوتی ہیں۔

2۔خریداروں کو کتابیں بازار کی نسبت قدرے کم قیمت پر مل جاتی ہیں۔

3۔ نئے لکھنے والوں کو بیک وقت کئی ناشروں سے براہِ راست تعارف کا موقع ملتا ہے۔


4۔ نئے لکھاریوں کو اپنے ناشران کے تعاون سے کم سے کم وقت میں اپنا اور اپنی کتابوں کا تعارف زیادہ سے ذیادہ لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔

5۔ بعض اوقات ان کُتب میلوں میں شائقین کو اپنے من پسند لکھاریوں سے براہِ راست ملنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

6۔کس قسم کی کتابوں کی طلب اور فروخت زیادہ ہوئی اس بات سے لکھاری اور ناشر لوگوں کے ادبی رحجان کا اندازہ لگاتے ہیں جس سے اُنہیں اپنی آئندہ کی سرگرمیوں کے لئے لائحہِ عمل تیار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

7۔ شائقینِ کُتب کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر علم و ادب میں کن جہتوں پر کام ہو رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذوقِ مطالعہ کے فروغ کے لیے اِس طرح کے میلوں کا انعقاد سال میں کتنی بار ہونا چاہیے اس کا جواب آپ کو میں اپنے اسکول کے زمانے میں سیکھی ہو ئی ایک بات کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بچپن میں جب اپنے علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو ہمارے ایک نہایت ہی قابلِ احترام استاد شیخ دین محمد صاحب ہمیں دینیات پڑھایا کرتے تھے وہ دورانِ درس ہمیں کبھی کبھی یہ شعر سُنایا کرتے تھے:

جو پتھر پہ پانی پڑے متصل تو بے شُبہ گھس جائے پتھر کی سِل

رہوگے اگر تم یُونہی مستقل تو اک دن نتیجہ بھی جائے گا مل

اُس وقت ہم کم سِن تھے اس طرح کے اشعار ہمارے سر کے اوپر سے ہی گزر جاتے تھے، تاہم آج جب کبھی مُجھے یہ شعر یاد آتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تسلسل اور خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھیں ان شاء اللہ ہمیں خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں گے۔ تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا چوںکہ فی زمانہ کتُب بینی کا رحجان کافی کم ہو چکا ہے اور اس طرح کے کُتب میلوں کے انعقاد پر زرِکثیر صرف ہوتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ ذوقِ مطالعہ کے فروغ کے لیے ان کُتب میلوں کے تواتر کے ساتھ انعقاد میں تعاون و سرپرستی فرمائے۔
Load Next Story