سرکاری قرضوں کا ممکنہ ڈیفالٹ اسٹیٹ بینک کی کمرشل بینکوں کو محتاط رہنے کی ہدایت
نئے (IFRS-9) رولز کے تحت وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ لے سکتی ہے نہ ایک حد سے زیادہ کمرشل بینک قرضہ دینگے
اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو سرکاری قرضوں کے ضمن میں ممکنہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کردی گئی۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری انٹرنیشنل فنانشنل رپورٹنگ اسٹینڈرڈز(IFRS-9) میں قرضوں پر متوقع کریڈٹ خسارے پر وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی ضمانتوں یا خود اس کی طرف سے لیے گئے قرضوں پر استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ان احکامات کا اطلاق یکم جنوری 2022ء سے مؤثر ہوچکا ہے۔
انٹرنیشنل فنانشنل رپورٹنگ سٹینڈرڈز(IFRS-9) اکاؤنٹنگ رولز کا وہ مجموعہ ہیں جن کے تحت بینکوں کو اپنے مالی اثاثوں اور ذمہ داریوں(liabilities) کا تعین کرنا ہوتا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ان احکامات کے بعد کمرشل بینکوں کیلئے حکومت کو دیئے جانے والے غیرمحدود قرضوں پر روک لگا دی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے یہ احکامات جولائی 2021ء میں ایک سرکلرکے ذریعے جاری کیے تھے جن کا مرکزی بینک کوخود مختاری ملنے کے بعد یکم جنوری سے پوری طرح نفاذہوگیا ہے۔اب نئی ریگولیشنز جاری ہونے کے بعد بینکوں کو اپنی سرمائے کی ضروریات اور حکومت کو دیئے گئے قرضوں کے تناسب کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان ریگولیشنز کے سرمائے کے جائز تناسب پر اثرات تو ہونگے تاہم انہیں نظرانداز کیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ سرکاری قرضوں پر متوقع خسارہ بہت زیادہ نہیں ہوگا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے اس ضمن میں بتایا کہ سٹیٹ بینک کو فی الوقت بینکوں پر ان نئی ریگولیشنز کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ملک کی مالی حالت ابھی اتنی مستحکم نہیں۔ان ریگولیشنز کے نفاذسے سرکاری قرضوں کی مالیت کافی بڑھ جائے گی،اس لیے اسٹیٹ بینک کوان اقدامات کو واپس لے لینا چاہیے۔ان ریگولیشنز کے تحت کمرشل بینکوں کو وفاقی حکومت کو دیئے گئے قرضوں پر کیپٹل چارج وصول کرنے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
ملک کے پانچ بڑے بینکوں میں سے ایک بینک کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کے ان اقدامات کا انڈسٹری پر بھی اثر پڑے گا جوحکومتی مداخلت کی وجہ سے کمرشل بینکوں سے لیے گئے قرضوں کو رسک فری تصور کرتی تھی۔نئی ریگولیشنز میں قرضے کی حتمی ریکوری کو یقینی بناتے ہوئے اس ضمن میں کسی خسارے کو زیرو قراردیا گیا ہے۔سرمائے کی ٹائم ویلیوپر بھی اس کا اثر پڑے گا،قرضوں کی ری سٹرکچرنگ خاص طور پر پاور سیکٹرمیں نہیں ہوسکے گی۔
بینکنگ انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی جہاں یہ ریگولیشنز نافذہیں سرکاری قرضوں میں ایسے استثنیٰ دیئے گئے ہیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں کو اب ٹریژری بلوں اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر بھی متوقع کریڈٹ خسارے کا جائزہ لینا پڑے گا۔
کراچی کے رہنے والے ایک بینکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ان ریگولیشنز کا مطلب ہے کہ بینکوں پر کیپٹل چارج لگے گا اوروہ حکومت کو مخصوص حد سے زیادہ قرضہ نہیں دے سکیں گے۔نئے قانون کے تحت سٹیٹ بینک بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو قرضہ نہیں دے سکے گا۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے رابطہ کرنے پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کہ مرکزی بینک اس وقت کمرشل بینکوں سے مشاورت کررہاہے اور اسے 5جولائی2021ء کو جاری کی گئی گائیڈ لائنز پر کمرشل بینکوں کے فیڈ بیک کا انتظار ہے۔ کمرشل بینکوں کے فیڈ بیک کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ریگولیشنز پر عملدرآمد کے معاملے میں نظرثانی ہوسکتی ہے۔کمرشل بینکوں نے نئی ریگولیشنز کے مطابق اپنی بیلنس شیٹس کی تیاری شروع کردی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری انٹرنیشنل فنانشنل رپورٹنگ اسٹینڈرڈز(IFRS-9) میں قرضوں پر متوقع کریڈٹ خسارے پر وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی ضمانتوں یا خود اس کی طرف سے لیے گئے قرضوں پر استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ان احکامات کا اطلاق یکم جنوری 2022ء سے مؤثر ہوچکا ہے۔
انٹرنیشنل فنانشنل رپورٹنگ سٹینڈرڈز(IFRS-9) اکاؤنٹنگ رولز کا وہ مجموعہ ہیں جن کے تحت بینکوں کو اپنے مالی اثاثوں اور ذمہ داریوں(liabilities) کا تعین کرنا ہوتا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ان احکامات کے بعد کمرشل بینکوں کیلئے حکومت کو دیئے جانے والے غیرمحدود قرضوں پر روک لگا دی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے یہ احکامات جولائی 2021ء میں ایک سرکلرکے ذریعے جاری کیے تھے جن کا مرکزی بینک کوخود مختاری ملنے کے بعد یکم جنوری سے پوری طرح نفاذہوگیا ہے۔اب نئی ریگولیشنز جاری ہونے کے بعد بینکوں کو اپنی سرمائے کی ضروریات اور حکومت کو دیئے گئے قرضوں کے تناسب کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان ریگولیشنز کے سرمائے کے جائز تناسب پر اثرات تو ہونگے تاہم انہیں نظرانداز کیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ سرکاری قرضوں پر متوقع خسارہ بہت زیادہ نہیں ہوگا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے اس ضمن میں بتایا کہ سٹیٹ بینک کو فی الوقت بینکوں پر ان نئی ریگولیشنز کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ملک کی مالی حالت ابھی اتنی مستحکم نہیں۔ان ریگولیشنز کے نفاذسے سرکاری قرضوں کی مالیت کافی بڑھ جائے گی،اس لیے اسٹیٹ بینک کوان اقدامات کو واپس لے لینا چاہیے۔ان ریگولیشنز کے تحت کمرشل بینکوں کو وفاقی حکومت کو دیئے گئے قرضوں پر کیپٹل چارج وصول کرنے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
ملک کے پانچ بڑے بینکوں میں سے ایک بینک کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کے ان اقدامات کا انڈسٹری پر بھی اثر پڑے گا جوحکومتی مداخلت کی وجہ سے کمرشل بینکوں سے لیے گئے قرضوں کو رسک فری تصور کرتی تھی۔نئی ریگولیشنز میں قرضے کی حتمی ریکوری کو یقینی بناتے ہوئے اس ضمن میں کسی خسارے کو زیرو قراردیا گیا ہے۔سرمائے کی ٹائم ویلیوپر بھی اس کا اثر پڑے گا،قرضوں کی ری سٹرکچرنگ خاص طور پر پاور سیکٹرمیں نہیں ہوسکے گی۔
بینکنگ انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی جہاں یہ ریگولیشنز نافذہیں سرکاری قرضوں میں ایسے استثنیٰ دیئے گئے ہیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں کو اب ٹریژری بلوں اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر بھی متوقع کریڈٹ خسارے کا جائزہ لینا پڑے گا۔
کراچی کے رہنے والے ایک بینکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ان ریگولیشنز کا مطلب ہے کہ بینکوں پر کیپٹل چارج لگے گا اوروہ حکومت کو مخصوص حد سے زیادہ قرضہ نہیں دے سکیں گے۔نئے قانون کے تحت سٹیٹ بینک بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو قرضہ نہیں دے سکے گا۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے رابطہ کرنے پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کہ مرکزی بینک اس وقت کمرشل بینکوں سے مشاورت کررہاہے اور اسے 5جولائی2021ء کو جاری کی گئی گائیڈ لائنز پر کمرشل بینکوں کے فیڈ بیک کا انتظار ہے۔ کمرشل بینکوں کے فیڈ بیک کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ریگولیشنز پر عملدرآمد کے معاملے میں نظرثانی ہوسکتی ہے۔کمرشل بینکوں نے نئی ریگولیشنز کے مطابق اپنی بیلنس شیٹس کی تیاری شروع کردی ہے۔