یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسانوں کا احتجاج

کاشتکاروں نے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے نوازنادر مگسی کیلیے یوریا لانے والا ٹرک روک لیا

بااثر جاگیرداروں کو یوریا فراہم کیاجارہا ہے،عام کسان بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر، علی پلھ۔ فوٹو : فائل

BEIJING:
سندھ کے مختلف اضلاع میں یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسان سراپا احتجاج بن گئے۔

گزشتہ روز کسانوں نے لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے یوریا کی قلت کیخلاف احتاج کیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ 1765روپے والی یوریا کھاد کی بوری 3000 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔

کسانوں کا کہنا تھا کہ مجبوراً وہ اس قیمت پر لینے کو تیار ہیں مگر اب یوریا مارکیٹ ہی سے غائب کردی گئی ہے۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یوریا کی یہ قلت مصنوعی ہے۔ صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ کسان کھاد کے ٹرک لوٹنے پر تیار ہوگئے ہیں۔


ضلع شہداد کوٹ میں کسانوں نے پیپلزپارٹی رکن سندھ اسمبلی نوازنادر مگسی کے لیے یوریا لانے والے ٹرک کو روک لیا۔ اس کارروائی میں شامل ایک کسان کا کہنا تھا کہ یہ سب حکومت کی مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ ہم کئی مہینوں سے کھاد کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ ان بااثر جاگیرداروں کو پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ یوریا فراہم کی جارہی ہے۔

سندھ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے چیئر پرسن کے ایڈوکیٹ علی پلھ کے مطابق پاکستان میں تین کمپنیاں کھاد تیار کرتی ہیں۔ ان کی مجموعی پیداوار 60لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس سال کارٹلز نے بڑی مقدار میں کھاد ذخیرہ کرکے ملک سے باہر اسمگل کردی۔

علی پلھ کے مطابق انھوں نے ہائیکورٹ میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف پٹیشن فائل کی ہے۔ ان کے خیال میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے اس معاملے سے نمٹنے میں نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں صوبائی حکمراں جماعت کے سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو یوریا فراہم کیا جارہا ہے جب کہ عام کاشت کاروں کو بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
Load Next Story