منشیات کے خلاف جنگ …

منشیات ایسا مسئلہ ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے



جنگ کا خاتمہ اس بات کا تعین نہیں کرتا کہ کون صحیح ہے بلکہ صرف بچا کون ہے، میں یہاں روایتی جنگ کے بارے میں بات نہیں کروں گی بلکہ اس جنگ کے بارے میں بات کروں گی جو دوسری تمام جنگوں کوختم کر سکتی ہے یعنی منشیات کے خلاف جنگ۔ حالات کی سنگینی کو سمجھے بغیر ہم اس سماجی برائی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں ہم میں سے اکثر لوگ اس محاورے سے واقف ہیں جس کے مطابق ''آپ گھوڑے کو صرف پانی تک لے جا سکتے ہیں لیکن آپ اسے پانی نہیں پلا سکتے۔''

اسی طرح وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس اس خطرے کے خلاف انتھک محنت جاری رکھ سکتی ہے لیکن جب تک ہم میں سے ہرفرد انفرادی کردار ادا کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا تب تک ہم منشیات سے پاک معاشرے کا ہدف حاصل نہیں کر سکتے۔

منشیات ایسا مسئلہ ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں نشہ کے مقبول کلچر کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل کی بڑھتی ہوئی سطح کی دو بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان ان متاثرہ ریاستوں میں سے ایک ہے جو اس خطرے کا شکار ہو چکی ہیں۔ منشیات کا استعمال ایک عالمی چیلنج ہے لیکن محدود انسانی اور مالی وسائل کے ساتھ حکومت اپنے شہریوں کے تعاون کے بغیر معاشرے سے اس لعنت کو ختم نہیں کر سکتی۔

آگاہی اور منشیات کے شکار افراد کی بحالی دو اہم عوامل ہیں جن کی منشیات کے استعمال کی لعنت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 9 ملین لوگ ایسے ہیں جو منشیات کا استعمال کر ر ہے ہیں جیسا کہ سال 2020 میں UNODC کی طرف سے رپورٹ کیا گیا ہے جو کہ سال 2018 میں فراہم کردہ پچھلے اعداد و شمار سے 2 ملین زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں منشیات کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات میں سے ایک معاشی ترغیب ہے اور اس کی حوصلہ شکنی صرف مانگ کو کم کر کے کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آ گہی مہم میں بہتری اور انفرادی کوششوں کی ضرورت ہے جو لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں ان کے ساتھ مجرمانہ نہیں بلکہ مریض کی طرح سلوک کیا جانا چاہیے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انھیں نظر انداز کرنے سے درپیش مسائل کی شدت میں اضافہ ہی ہو گا۔

اگر ہم موجودہ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ہمارے پاس 150 سے کم لوگ ہیں جن کا ماڈل ایڈکشن ٹریٹمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز (MATRCs) میں کامیابی سے علاج کیا گیا اور 90 لاکھ منشیات استعمال کرنے والوں کے لیے ان مراکز کی کل تعداد 4 ہے۔ صورتحال کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے انسداد منشیات نے دارالحکومت میں جدید ترین بحالی مرکز تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے اور بعد میں اس ماڈل کو ہر صوبے میں نقل کیا جائے گا۔ دریں اثنا اس طرح کے خطرناک اعداد و شمار کے ساتھ ہمیں بحالی کے مقاصد کے لیے کم از کم ایک وارڈ وقف کرنے اور منشیات کے مریضوں کے علاج کو معمول پر لانے کے لیے اسپتالوں کی تعداد کی ضرورت ہے۔

منشیات کے خلاف اس جنگ میں نہ صرف منشیات کے استعمال سے وابستہ افراد اور خاندانوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیروز بھی ہیں جو اس ناسور کے اسمگلروں اور سپلائی کرنے والوں کے خلاف فرنٹ لائن پر جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ماضی قریب میں تفتان، بلوچستان کے قریب اسمگلروں کے خلاف آپریشن کے دوران اینٹی نارکوٹکس فورس تھانہ دالبدین کے دو اہلکار کانسٹیبل ڈرائیور امیر نواز خان اور کانسٹیبل محمد کامران نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سے جوان ہیں جنھوں نے ہمارے مستقبل کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔

انھوں نے قوم کو اس جان لیوا خطرے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی ہے اور اپنے پیاروں کو بھی چھوڑ گئے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان مضمرات کو سمجھیں جو منشیات کے استعمال سے وابستہ ہیں۔ قریبی خاندانوں سے لے کر اداروں تک، ہر طبقہ کو اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ہمیں مشترکہ طور پر منشیات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اپنے پیاروں کو اس جال سے بچانے کے لیے تین اقدامات استعمال کریں۔ (1) تعلیم: انھیں منشیات کے استعمال سے جڑے حقائق، اعداد و شمار اور اثرات بتائیں، (2) آگاہی: انھیں اپنے اردگرد کے ماحول سے آگاہ کریں اورصحیح اور غلط میں فرق کرنے میں ان کی مدد کریں، ہمارے نوجوانوں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر مقبول کلچر ''صحیح'' کلچر نہیں ہے۔ آخر میں (3) ری ہیبلیٹیشن۔

اگر آپ کسی کو دینی صحت کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے یا منشیات کے استعمال کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان تک پہنچیں، انھیں سنیں ،ان کی مدد کریں اور ان کی دیکھ بھال کر یں۔ ان لوگوں کو الگ تھلگ نہ کریں جو زندہ رہنے کی جد و جہد کر رہے ہیں، ان کے لیے اس کٹھن سفر کو آسان بنائیں۔ اگر ہم سب بحیثیت قوم یہ کام کریں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس مصیبت سے بچا کر انھیں صحت مند اور منشیات سے پاک معاشرہ فراہم کر سکتے ہیں، تاہم اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی اور منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو منشیات کی یہ جنگ باقی تمام جنگوں کو ختم کر دے گی کیونکہ یہ ہماری نوجوان نسلوں کو کھا جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں