محنت کش مسائل کے بھنور میں

جن اداروں میں خواتین کو رات میں کام کے لیے روکا جاتا ہے وہاں ان کو مرد مزدوروں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے

zb0322-2284142@gmail.com

سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا ظالم اور استحصال کرنے والا نظام ہے کہ وہ انسان کی زندگی بچانے والی اشیا یعنی ادویات کو مہنگا کرکے اپنا منافع لوٹنے سے باز نہیں آتا۔ یہی ہمارے پاکستان کی دوا سازکمپنیاں کر رہی ہیں۔ 100 کے لگ بھگ دوا ساز کمپنیوں نے کورونا وبا کے دوران بے تحاشا منافع کمایا لیکن ملازمین کوکچھ نہیں دیا۔ دو سالوں میں 311 فیصد دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔

پاکستان میں کل 700 دوا ساز کمپنیاں ہیں۔ اپنے ملک کے علاوہ 60 بیرونی ملکوں کو بھی دوا برآمد کرتی ہیں۔ ان کی سالانہ فروخت 560 ارب روپے سے زائد ہے۔ براہ راست کام کرنے والے مزدور ایک لاکھ سے زائد ہیں جن کے ساتھ 10 لاکھ لوگ منسلک ہیں ، یہاں وہ یونین سازی کے حق سے محروم ہیں۔ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے کہ انھیں یونین سازی کا حق دیا جائے پھر بھی انھیں اس بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں 90 فیصد مزدور غیر مستقل ہیں جو ٹھیکیداری نظام کے ماتحت ہیں۔

کورونا وبا کے ماحول میں بھی غیر صحت مند جگہوں پہ دوائیں بنائی جا رہی ہیں۔ جو صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ مزدوروں کی اکثریت کو سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی کے جاری کردہ کارڈ نہیں دیے جاتے۔ ٹھیکیداروں کے ذریعے سیسی اور ای او بی آئی میں غیر قانونی طور پرکنٹری بیوشن جمع کروایا جاتا ہے تاکہ ادارے سے مزدوروں کا تعلق ثابت نہ ہو سکے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ لائف سیونگ کے اداروں میں مستقل ملازمین رکھے جائیں۔ مزدوروں کو براہ راست ملازمت پر رکھنے کے بجائے پروڈکشن سپورٹ افسر کے نام پر بھرتی کیا جاتا ہے۔

ورکرز ویلفیئر ادارے مکمل طور پر بدعنوانی کا گڑھ بن چکے ہیں۔ جہیز گرانٹ، تعلیمی اسکالرشپ اور ڈیتھ گرانٹ بھی رشوت کے بغیر نہیں دی جاتی۔ جو مکانات 2013 میں مزدوروں کے لیے الاٹ کیے گئے تھے وہ آج تک ان کے حوالے نہیں کیے گئے۔ سندھ میں 5 فیصد ورکرز پارٹیشن فنڈ پر قانون سازی کرکے رقم کی تقسیم کا آغاز کردیا گیا ہے جب کہ دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں ہوا۔ سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں جہیز گرانٹ کی رقم ایک سے دو لاکھ، ڈیتھ گرانٹ 5 سے 6 لاکھ، تعلیمی اسکالر شپ، کتابوں، یونیفارم، جوتے اور پاکٹ منی کو ڈبل کردیا گیا ہے۔ سندھ میں بھی ایسا ہی کیا جائے۔

انشورنس کے علاوہ سیسی کارڈز بھی ایشو کیا جائے۔ دوا ساز کمپنیوں میں ہنرمند اور غیر ہنرمند کو یکساں تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ چار گھنٹے کے اوور ٹائمز کو اب 3 گھنٹے کردیا گیا ہے۔ جن اداروں میں پاکٹ یونین ہیں، اگر مزدور کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو انتظامیہ یونین سے بات کرنے کو کہتی ہے جب کہ وہ یونین سیٹھوں کی منظور نظر یونین ہوتی ہے۔ سن کوٹے پر عمل کرنے کے بجائے اسے تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے۔ جن اداروں میں آزاد یونین ہیں وہاں ان کی راہوں میں رکاوٹ اور انتقامی کارروائی کی جاتی ہے۔


جن اداروں میں خواتین کو رات میں کام کے لیے روکا جاتا ہے وہاں ان کو مرد مزدوروں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ بعض اداروں میں 22 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اور اعلیٰ معیار کے ہنرمند مزدوروں سے نو گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ فارمیسی کا کام عام مزدوروں سے لیا جاتا ہے، ایسے عمل سے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اگر ملاوٹ غلط چیزوں کی ہوگئی تو عوام کو شدید نقصان ہو سکتا ہے یہاں تک کہ کینسر بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ کام کی نوعیت کو صحت مندرکھنے کے لیے GMP پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

پہلے ادویات کی مینوفیکچرنگ کے لیے خام مال بیلجیم اور جرمنی سے لیا جاتا تھا۔ اب لاگت کم کرنے کے لیے چین اور ہندوستان سے لیا جاتا ہے جس میں منافع کی شرح بڑھ جائے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مزدوروں نے یہ اعلان کیا کہ وہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سے منسلک ہو کر جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال معذور محنت کشوں کے ساتھ ہوتا ہے جنھیں خصوصی افراد بھی کہا جاتا ہے۔ حکومت نے ان کے لیے جو کوٹہ سسٹم بنایا ہوا ہے اس پر قطعی کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ کام کے ماحول کے لیے 20 سے 25 فیصد الاؤنس دیا جاتا ہے وہ معذور لوگوں کو نہیں دیا جاتا۔

حکومت نے 2000 روپے ماہانہ ٹرانسپورٹ کے لیے دینے کا اعلان کیا ہے وہ کم ہے اسے بڑھایا جائے۔ معذور افراد کو 16 یا 18 گریڈ تک نہیں جانے دیا جاتا خواہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں۔ جن کی ملازمتیں 30 سال کی ہو چکی ہیں اور جو ایم اے، ایل ایل بی وغیرہ کرچکے ہیں انھیں 17 گریڈ دیا جائے۔ خصوصی افراد کے لیے CNIC اور پاسپورٹ خصوصی طور پر فراہم کیا جائے۔ یہ مسائل صرف پاکستان میں آج سے نہیں بلکہ دنیا بھر میں صدیوں سے موجود ہیں۔ صرف استحصال کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے۔

محنت کشوں کے معروف رہنما پرودھون نے نپولین بوناپارٹ پر تنقید کی تو انھیں قید میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہ 1848 تا 1852 تک قید میں رہے۔ رہائی کے بعد متعدد کتابیں لکھیں جن میں (Justice in Revolution) ''انقلاب میں انصاف'' ، پھر کیتھولک چرچ پر تنقید کرنے پر 1858 میں جلاوطن کردیا گیا۔ 1858-62 تک بیلجیم میں جلاوطن رہے۔ ان کی ایک مشہور کتاب (War and Peace) ''جنگ اور امن'' 1861 میں شایع ہوئی۔ ان کی اس کتاب پر لیوٹالسٹائی نے پرودھون کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ پھر 1863 میں فرانس واپس آگئے۔

پرودھون 1865 میں 19 جنوری کو پاس، فرانس میں انتقال کرگئے۔ انھیں پیرس کے سیمنٹری آف مونٹ پرنسی میں دفنایا گیا۔ پرودھون پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو انارکسٹ ہونے کا دعویٰ کیا۔ وہ انفرادی اور سماجی انارکزم پر یقین رکھتا تھا۔ پیترکروپوتکن اور ٹکران نے ان کی انفرادی اور سماجی انارکزم کی تنقید کی۔ان کا کہنا تھا کہ سوشل ازم میں کوئی حکومت نہیں ہوگی اور ریاست کا خاتمہ شرط ہے۔ (The General Idea of Revolution) ''انقلاب کا عام خیال'' میں کہا کہ سماج کو بغیر اقتدار کے چلانا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کا حکم چلانا، سزا دینا، ٹیکس وصول کرنا، اسٹیمپ لگوانا، چند لوگوں کا سب کی نگرانی کرنا، اخلاقیات اور انسانیت کی تذلیل اور تضحیک ہے۔ آئین اور قانون کے نام پر عوام کو حکومتیں لوٹتی ہیں اور اذیت دیتی ہیں۔ انھیں کولہو کا بیل بنا دیتی ہے۔ پرودھون نے فیڈریشن کی تھیوری پیش کی جسے پیرس کمیون نے عمل کرکے دکھایا۔ فیڈریشن درحقیقت میونسپلٹیوں سے نمایندے چن کر فیڈریشن کی تکمیل ہوتی ہے۔ اصل فیصلے میونسپلٹیاں ہی کرتی ہیں۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فیڈریشن حکومت کا مرکز بن جاتا ہے اور میونسپلٹیاں مردہ گھوڑا بن جاتی ہیں۔ پرودھون نے غیر مرکزیت کے اصولوں کا اعلان کیا۔
Load Next Story