کرپشن پر گرفت اور انصاف
ان تمام معاملات کی پڑتال کرنیوالوں اور فراڈی امراء کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے
FAISALABAD:
عرصے کا تعیّن نہیں ہو سکتا کہ خدائے بزرگ و برتر نے کتنی صدیاں قبل انسان کو زمین پر اُتارا ہوگا، درمیانی تمام صدیوں کو چھوڑ کر ہم موجودہ صدی پر آجاتے ہیں تاکہ صرف آج کے انسان کی خصلت کو پیش ِ نظر رکھ کر بات آگے بڑھائیں۔ چلیں آج صرف دیانت اور کرپشن کے موضوع کو چھیڑتے ہیں۔
دیانت ایک ایسی خوبی ہے جو نہ صرف خدائی عطیہ ہے بلکہ Demand ہے اور بددیانتی خدا کے نزدیک بھی انتہائی نا پسندیدہ اور قابل گرفت ہے۔ بد دیانتی کا حساب لینے کے لیے خدا ہی نے انسانوں بلکہ انھی کے منتخب کردہ حکمرانوں کو مامور کیا ہے۔ کرپشن اور دیانت کے حوالے ہی سے گزشتہ روز اپنے قریبی دوست سے جو درمیانے درجے کا دُکاندار ہے ، ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ گزشتہ دو سال سے مہنگائی کا رونا ہے، اِن دنوں گرانی ساری دنیا میں پائی جاتی ہے، تم بتائو کیا یہ سچ ہے؟
میرا یہ دوست مجھ سے کبھی غلط بیانی نہیں کرتا۔ وہ کہنے لگا، مہنگائی تو ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں لیکن جس قدر اس شور کا فائدہ چھوٹے سے لے کر بڑے دوکانداروں اور کاروباریوں نے اُٹھایا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے اور ان کاروباریوں میں خود میں بھی شامل ہوں کیونکہ اس منافع خوری میں مور دِ الزام حکومت کو ٹھہراکر ہم گاہک سے بھی بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور گاہک بھی حکومت کو گالی دینے میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس گرانی میں ہم برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
اس کے بعد میرے اس دوست نے اپنے موبائل فون سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کی جو اسپیکر اسمبلی بھی رہا ، ٹی وی چینل کے ایک اہم شخص کے ساتھ اپنے شوق کی گفتگو بھی سنائی جو Live اور دلچسپ تھی۔ اس ممبر اسمبلی کا شوق نایاب اور مہنگی ترین رائفلز (Guns)خرید کر جمع کرنا تھا۔ باتیں کرنے کے ساتھ وہ سوال کرنیوالے کو رائفلز دکھا کر اپنے شوق کی قیمت بھی بتاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ذخیرے میںچالیس پچاس لاکھ کی متعدد رائفلز کے علاوہ ''ہالینڈ اینڈ ہالینڈ'' کی ڈیڑھ دوکروڑ روپے قیمت والی نایاب رائفلز بھی موجود ہیں۔
یہ انٹرویو لینے والی بھی ایک معروف شخصیت تھی۔ کالم کے اس حصے پر پہنچ کر ذہن میں آتا ہے کہ یہ ایک غریب ملک کی سچی کہانی ہے جس میں صوبائی اسمبلی کا منتخب نمایندہ جسے غریب ووٹروں نے اپنی فلاح کے لیے اسمبلی میں جا کران کی بھلائی اور غربت دورکرنے کے لیے بھیجا ہے، اپنی کروڑوں روپے کی رائفلزکے بارے میں بتا رہا ہے کہ وہ اس کی دلچسپی کے کھلونے ہیں۔
ہر ملک میں امیر، اعلیٰ طبقہ ہوتا اور غریب طبقاتی طور پر سب سے نیچے ہوتے ہیں۔ دو کیٹیگریز ان کے علاوہ ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو دولت مند لیکن اپنی غلطیوں، حماقتوں یا کسی عیار کی چال کے سبب دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا وہ ذہین اور سمجھدارجو اپنی محنت اور دیانت کے سہارے امیراور دولت مندہو گئے لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے جو عیاری، بدمعاشی ، فراڈ، دھوکا دہی اور کرپشن کے ذریعے دولت سمیٹنے میں کسی ریاستی اور سیاسی با اختیار کے پارٹنر بن کر ار ب پتی ہو گئے۔
ہمارے اور کئی دوسرے ممالک میں اس تیسری قسم کے فراڈ ی امراء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس اضافے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کی دُمڑی بھی اس فراڈ میں نہیں لگتی اور دولت کے انبار ان کی تحویل میں آ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ اس دولت کو اس ہوشیاری سے چھپا لیتے یا بیرون ملک ٹرانسفر کر دیتے ہیں کہ اس دولت کا سراغ نہیں لگتا۔ تیسری وجہ یہ کہ جس بھی اصل فراڈیے یا ادارے نے اس دولت کے حصول میں دوسرے فراڈیے کی مدد کی ہوتی ہے وہ خود بھی اس میں زیادہ Share کا حصہ دار ہوتا ہے۔ یوں ان دونوں کا معاہدہ کھائو اور کھلائو کے اصول پر کاربند ہونے کی وجہ سے کسی بھی ایجنسی کی گرفت میں نہیں آتا۔
اس مالِ مفت سے لبریز کاروبار سے اکثر لوگ ناواقف ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو بڑے بڑے سرکاری مفاد ِ عامہ کے منصوبے زیر تکمیل نظر آتے ہیں تو وہ ان کو پھر مکمل ہوتے دیکھتے اور ان کو استعمال کرتے اور سہولت پاکر خوشی اور آسودگی پانے کی حد تک ذہن اور نظروں کا استعمال کرتے ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اس عظیم منصوبے کابجٹ کیسے بنا اور کتنا تھا۔ انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ سرکاری خزانے کا اس منصوبے پر کاغذوں پر کتنا خرچ دکھایاگیا ہے اور کتنا حقیقتاً خرچ ہوا ہے۔
کاغذوں میں اور حقیقتاً کتنا فرق رہا۔ ان تمام معاملات کی پڑتال کرنیوالوں اور فراڈی امراء کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے حالانکہ جن نے سرکاری افسروں اور سیاسی حکمران نے اس منصوبے کی منظوری اور اجازت دی ہوتی ہے وہ کسی اور دنیا کا باشندے نہیں ہوتے ۔ ایک پبلک سرونٹ کہلاتا جب کہ دوسرا عوام کا منتخب نمایندہ ۔
چند روز پہلے خبر تھی کہ موجودہ حکومت کے نوٹس میں لایا گیا ہے کہ فوجداری اور سول مقدمات فیصلے کی منزل تک پہنچنے میں اتنا طویل عرصہ لیتے ہیں کہ بے قصور ملزم بھی عدالت کی حاضریوں میں دس پندرہ سال کے بعد بمشکل انصاف پاتا ہے جس کا ذمے دار وکیل اور مقدمہ دائر کرنے والا تو ہوتا ہی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے داری کا تعین کرنے اس جملے کو پڑھ سکتے ہیں : Justice delayed is justice denied
اگر یہ خبر سچ ہے کہ عمران خاں کی حکومت کے کسی عہدیدار نے التوا درالتوا کا شکار مقدمات پر جواب دہی کا ارادہ کیا ہے تو یہ نیکی سے زیادہ فرض کی ادائیگی ہو گا۔
عرصے کا تعیّن نہیں ہو سکتا کہ خدائے بزرگ و برتر نے کتنی صدیاں قبل انسان کو زمین پر اُتارا ہوگا، درمیانی تمام صدیوں کو چھوڑ کر ہم موجودہ صدی پر آجاتے ہیں تاکہ صرف آج کے انسان کی خصلت کو پیش ِ نظر رکھ کر بات آگے بڑھائیں۔ چلیں آج صرف دیانت اور کرپشن کے موضوع کو چھیڑتے ہیں۔
دیانت ایک ایسی خوبی ہے جو نہ صرف خدائی عطیہ ہے بلکہ Demand ہے اور بددیانتی خدا کے نزدیک بھی انتہائی نا پسندیدہ اور قابل گرفت ہے۔ بد دیانتی کا حساب لینے کے لیے خدا ہی نے انسانوں بلکہ انھی کے منتخب کردہ حکمرانوں کو مامور کیا ہے۔ کرپشن اور دیانت کے حوالے ہی سے گزشتہ روز اپنے قریبی دوست سے جو درمیانے درجے کا دُکاندار ہے ، ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ گزشتہ دو سال سے مہنگائی کا رونا ہے، اِن دنوں گرانی ساری دنیا میں پائی جاتی ہے، تم بتائو کیا یہ سچ ہے؟
میرا یہ دوست مجھ سے کبھی غلط بیانی نہیں کرتا۔ وہ کہنے لگا، مہنگائی تو ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں لیکن جس قدر اس شور کا فائدہ چھوٹے سے لے کر بڑے دوکانداروں اور کاروباریوں نے اُٹھایا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے اور ان کاروباریوں میں خود میں بھی شامل ہوں کیونکہ اس منافع خوری میں مور دِ الزام حکومت کو ٹھہراکر ہم گاہک سے بھی بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور گاہک بھی حکومت کو گالی دینے میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس گرانی میں ہم برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
اس کے بعد میرے اس دوست نے اپنے موبائل فون سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کی جو اسپیکر اسمبلی بھی رہا ، ٹی وی چینل کے ایک اہم شخص کے ساتھ اپنے شوق کی گفتگو بھی سنائی جو Live اور دلچسپ تھی۔ اس ممبر اسمبلی کا شوق نایاب اور مہنگی ترین رائفلز (Guns)خرید کر جمع کرنا تھا۔ باتیں کرنے کے ساتھ وہ سوال کرنیوالے کو رائفلز دکھا کر اپنے شوق کی قیمت بھی بتاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ذخیرے میںچالیس پچاس لاکھ کی متعدد رائفلز کے علاوہ ''ہالینڈ اینڈ ہالینڈ'' کی ڈیڑھ دوکروڑ روپے قیمت والی نایاب رائفلز بھی موجود ہیں۔
یہ انٹرویو لینے والی بھی ایک معروف شخصیت تھی۔ کالم کے اس حصے پر پہنچ کر ذہن میں آتا ہے کہ یہ ایک غریب ملک کی سچی کہانی ہے جس میں صوبائی اسمبلی کا منتخب نمایندہ جسے غریب ووٹروں نے اپنی فلاح کے لیے اسمبلی میں جا کران کی بھلائی اور غربت دورکرنے کے لیے بھیجا ہے، اپنی کروڑوں روپے کی رائفلزکے بارے میں بتا رہا ہے کہ وہ اس کی دلچسپی کے کھلونے ہیں۔
ہر ملک میں امیر، اعلیٰ طبقہ ہوتا اور غریب طبقاتی طور پر سب سے نیچے ہوتے ہیں۔ دو کیٹیگریز ان کے علاوہ ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو دولت مند لیکن اپنی غلطیوں، حماقتوں یا کسی عیار کی چال کے سبب دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا وہ ذہین اور سمجھدارجو اپنی محنت اور دیانت کے سہارے امیراور دولت مندہو گئے لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے جو عیاری، بدمعاشی ، فراڈ، دھوکا دہی اور کرپشن کے ذریعے دولت سمیٹنے میں کسی ریاستی اور سیاسی با اختیار کے پارٹنر بن کر ار ب پتی ہو گئے۔
ہمارے اور کئی دوسرے ممالک میں اس تیسری قسم کے فراڈ ی امراء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس اضافے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کی دُمڑی بھی اس فراڈ میں نہیں لگتی اور دولت کے انبار ان کی تحویل میں آ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ اس دولت کو اس ہوشیاری سے چھپا لیتے یا بیرون ملک ٹرانسفر کر دیتے ہیں کہ اس دولت کا سراغ نہیں لگتا۔ تیسری وجہ یہ کہ جس بھی اصل فراڈیے یا ادارے نے اس دولت کے حصول میں دوسرے فراڈیے کی مدد کی ہوتی ہے وہ خود بھی اس میں زیادہ Share کا حصہ دار ہوتا ہے۔ یوں ان دونوں کا معاہدہ کھائو اور کھلائو کے اصول پر کاربند ہونے کی وجہ سے کسی بھی ایجنسی کی گرفت میں نہیں آتا۔
اس مالِ مفت سے لبریز کاروبار سے اکثر لوگ ناواقف ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو بڑے بڑے سرکاری مفاد ِ عامہ کے منصوبے زیر تکمیل نظر آتے ہیں تو وہ ان کو پھر مکمل ہوتے دیکھتے اور ان کو استعمال کرتے اور سہولت پاکر خوشی اور آسودگی پانے کی حد تک ذہن اور نظروں کا استعمال کرتے ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اس عظیم منصوبے کابجٹ کیسے بنا اور کتنا تھا۔ انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ سرکاری خزانے کا اس منصوبے پر کاغذوں پر کتنا خرچ دکھایاگیا ہے اور کتنا حقیقتاً خرچ ہوا ہے۔
کاغذوں میں اور حقیقتاً کتنا فرق رہا۔ ان تمام معاملات کی پڑتال کرنیوالوں اور فراڈی امراء کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے حالانکہ جن نے سرکاری افسروں اور سیاسی حکمران نے اس منصوبے کی منظوری اور اجازت دی ہوتی ہے وہ کسی اور دنیا کا باشندے نہیں ہوتے ۔ ایک پبلک سرونٹ کہلاتا جب کہ دوسرا عوام کا منتخب نمایندہ ۔
چند روز پہلے خبر تھی کہ موجودہ حکومت کے نوٹس میں لایا گیا ہے کہ فوجداری اور سول مقدمات فیصلے کی منزل تک پہنچنے میں اتنا طویل عرصہ لیتے ہیں کہ بے قصور ملزم بھی عدالت کی حاضریوں میں دس پندرہ سال کے بعد بمشکل انصاف پاتا ہے جس کا ذمے دار وکیل اور مقدمہ دائر کرنے والا تو ہوتا ہی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے داری کا تعین کرنے اس جملے کو پڑھ سکتے ہیں : Justice delayed is justice denied
اگر یہ خبر سچ ہے کہ عمران خاں کی حکومت کے کسی عہدیدار نے التوا درالتوا کا شکار مقدمات پر جواب دہی کا ارادہ کیا ہے تو یہ نیکی سے زیادہ فرض کی ادائیگی ہو گا۔