صدارتی نظام
خود ہائبرڈ نظام بھی اس کی ہی ایک شکل ہے جو اس ملک کو اس دھانے پر لے آیا ہے
SAMUNDARI:
پھر سے چھڑی ہے بات صدارتی نظام کی۔ یوں یک بہ یک تیر آئی ہے دید پناہ میں وہ ساری رواداد جو اس نظام سے وابستہ ہے۔ اس سے پہلے اس دور حکومت میں جو قاتل قوانین متعارف ہوئے اس کے لیے اقتداری پارٹی اپنی پارلیمانی پارٹی کے لوگوں سے بھی رفاقت نہیں کرتی تھی،نہ کوئی جھوٹی ہی سہی فلور پر بحث ہوتی تھی ۔ پھر بھی جو ہوا سو ہوا، بل ڈوز ہوکے بل پاس ہوئے یا مشترکہ اجلاس ہوا۔
اس بار صدارتی نظام کی جو باز گشت چل نکلی ہے اس کے لیے کوئی بحث و مباحثہ نہ ایوانوں میں ہے نہ پری خانوں میں۔ چند چینل تو اشتہا ر بھی لے آئے ہیں۔ ایسے اشتہار کس نے دیے اس کا اتا پتا معلوم نہیں، کچھ بڑے بڑے تجزیے نگار بھی اس بات کو پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔
بات صدارتی نظام کی نہیں کہ وہ اچھا ہے یا برا ہے، اس کی بھی نہیں، وہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے یہ الگ بحث ہے مگر جس طرح یہ بات چھڑ گئی،وہ طریقہ ملتا جلتا ہے اس کڑی سے ہے جسکی روایت جنرل ایوب خان کے اپنے صدارتی ریفر نڈم میں پڑی تھی جس کو پھر جنرل ضیاء الحق میدان میں لے آئے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اس کام کو آگے بڑھایا پھر وہ سوئی آئین میں آرٹیکل 58(2)(b) کی شکل میں لگ بھگ پچیس سال لٹکتی رہی۔ وزیر اعظم پہ در پہ جاتے رہے، صدر صاحب 58(2)(b) کا اطلاق کرتے رہے۔
اس وقت بات جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام کوئی اور نہیں خود وزیر اعظم صاحب کررہے ہیں،ان کی ناک کے نیچے جو یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ تو یوں کہیے کہ یہ وزیر اعظم نہیں ہیں یہ تو وزیر اعظم نام کے ہیں یہ تو پھر ہائبرڈ نظام ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے نظر آتے ہیں لیکن کھانے کے نظر نہیں آتے۔سوال یہ ہے کہ اس کی اس وقت ضرورت پیش کیوں آئی۔ نہ ٹرپل ون بریگیڈ نے وزیر اعظم ہائوس کا محاصرہ کیا نہ پی ٹی وی کی دیوارپر چڑھائی ہوئی ، نہ عزیز ہم وطنو ہوا ،نہ ایل ایف او آیا۔
ہاں سیدھا راستہ یہ ہے کہ دوتہائی اکثریت سے صدارتی نظام آئین کا حصہ بنا ہی دیجیے، اگر دو تہاتی اکثریت مل جاتی ہے تو۔ صدارتی نظام کا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ یہ ہے کہ صدر کے انتخابات براہ راست ہوتے ہیں، حکومت کی باگ دوڑ صدر کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وزیر اعظم ہو نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اسے قومی اسمبلی کی اکثریت منتخب نہیں کرتی بلکہ سیدھا ووٹ ہوتا ہے ، یہاں تک وزیر اعظم بھی براہ راست ووٹ نہیں بلکہ منتخب نمایندگان قومی اسمبلی کی اکثریت کے عکاس ہوتے ہیں۔
یوں کہیے کہ خان صاحب کی طبیعت، رویہ، لہجہ اور حکومت چلانے کا انداز آمرانہ لگتاہے ،جس طریقے سے حزب اختلاف اور ذرایع ابلاغ کے معاملات دیکھے جارہے ہیں،اس سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے تاہم پارلیمنٹ اور حزب اختلاف کے وجود کی وجہ سے ہر جگہ من مانی نہیں ہوسکتی لیکن یوں بھی تو ہوسکتا ہے جو اسکندر مرزا کے ساتھ ہوا۔ انھوں پہلے ایوب خان کو وزیر دفاع بنایا پھر ان بیساکھیوں پر قومی اسمبلی کا بستر گول کیا اور پھر جب اسکندر مرزاکی ضرورت نہ رہی تو ایوب خان خود سامنے آگئے۔
اس بار تو جنرل ایوب بھی نہیں، نہ جنرل یحییٰ ہیں نہ جنرل ضیا الحق ہیں اور نہ جنرل پرویز مشرف۔ ادھر وزیر اعظم غیر مقبولیت کے زینے پر ہیں، کوئی لانگ مارچ لے کے بیٹھا ہے تو کوئی ان ہائوس تبدیلی۔ جو ان کا مینڈیٹ ہے، ا س پر طرح طرح کے سوال ہیں، مہنگائی ہے کہ اسکو کوئی لگام نہیں۔ دنیا پاکستان کو دیوالیہ کے قریب پاتے دیکھ رہی ہے ، کیا کسر رہتی ہے،ابکے ایک بار پھر یہ شوق پورا کیا جائے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
خان صاحب پہلے چین والا نظام لانا چاہتے تھے، پھر اس نظام سے اکتا گئے، پھر مہاتر محمد کے ملائشیا کی طرف گئے ، وہاں سے نکل کر یورپ کا چکر لگایا، ترکی کے اردوان کا نظام بھی اچھا لگا، ایران کا نظام بھی اچھا لگا۔ ریاست مدینہ کا نعرہ توان کی جیب میں ہر وقت موجود رہتا ہے ۔ ابھی ابھی رحمت العالمین اتھارٹی بھی لاچکے ہیں۔
طالبان کی طرف بھی جاچکے ہیں مگر ایف اے ٹی ایف بیچ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ کل تک افغانستان میں طالبان ان کے بقول غلامی کی زنجیر توڑ چکے تھے لیکن کیا جائے کہ اب کے بار نہ سعودی عرب ہے نہ یواے ای ہے۔ ہنڈی کا کاروبار ہے وہ بھی تعطل میں ہے، دنیا میں نئی صف بندیاں ہیں۔
ا ہمارے پاس مسئلے کا حل صدارتی نظام ہے یعنی امریکا کی طرح تین بڑے ادارے ۔ سینیٹ ، اسمبلی اور ایوان صدر۔ وہاں تو یہ کام انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہاں تو پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر ، پہلے نظریہ ضرورت پھر صدارتی نظام آتا ہے۔ ایوب صاحب والی حماقت نہ جنرل ضیاء نے کی ، نہ جنرل مشرف نے ۔ اسٹیبلشمنٹ امریکا کو ڈراتی رہی ۔ امریکا سرد جنگ میں الجھا رہا ۔ پاکستان میں آمروں کی چاندی رہی۔
جو بھی تھا بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹر بنا، پھر صدر بنا پھر، آئین دیا ، یوں صدارتی نظام، پارلیمانی نظام بنا۔ یہ ہوتا ہے عوامی نمایندہ، اسے پتہ تھا مضبوط پارلیمنٹ، مضبوط پاکستان۔ اب اگرکوئی لیڈر اور اس کی پارٹی دو تہائی اکثریت بھی لے لے تو وہ آئین میں ترمیم کرکے بھی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانا چاہے تو بھی نہ لاسکے گا، وہ اس لیے کہ سپریم کورٹ ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کرچکی ہے۔ جس کے تحت ہمارے آئین کے چار بنیادی ستون ہیں جس کو آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت جو دو تہائی اکثریت سے ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، وہ اختیار آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے پر لاگو نہیں ہوگا۔ ان چار ستونوں میں ایک ستون یہ بھی ہے کہ پاکستان میں نظام حکومت پارلیمانی ہوگا۔
اب اگر صدارتی نظام لانا ہے تو ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ ہے ماروائے آئین طریقہ، وہ ہے آئین کو Abeyance میں لے جانے کا طریقہ۔ اس کے تحت صوبوں کی خود مختاری بھی ختم ۔ گورنر ہوگا جو صدارتی نظام میں صدر کے احکامات صوبوں میں لاگو کرے گا وہ صوبائی اسمبلی کے پاس جوابدہ نہیں ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ صدر کو نکالنے کا کوئی بھی طریقہ کار مروج نہیں۔ ایوب کے گھر کا محاصرہ کیا گیا، یحیی کو بھی دھکے دے کر نکالا گیا، ضیاء الحق کے لیے ہوائی حادثے کا پلاٹ بنا۔
جنرل اور صدر مشرف سے پہلے فوج کے سربراہ کا عہدہ رخصت ہوا، بحران کو نکالنے کے لیے پلان مرتب ہوا۔ یہ سال اس ملک کے اندر سیاسی اعتبار سے فیصلہ کن ہے۔ صدارتی نظام اگر آیا تو وہ اور کچھ نہیں ماروائے آئین ہوگا ۔ یورپی یونین وغیرہ ہماری اشیاء خریدنے کا بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارے ملک انتہا پرستوں کا اثر ورسوخ اور بڑھے گا۔جیسے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے مذہبی کارڈ کا استعمال کیا۔خان صاحب اور ان کے رفقا بھی یہی کارڈ استعمال کررہے ہیں۔ صدارتی نظام ہمارے سیاسی پس منظر میں اقتدار پر قبضہ ہے۔
ایک ایسی طاقت کا جو عوام کے حق حکومت کی انکاری ہے۔خود ہائبرڈ نظام بھی اس کی ہی ایک شکل ہے جو اس ملک کو اس دھانے پر لے آیا ہے۔ اس سے پہلے صدارتی نظام کی وجہ سے ہم نے آدھا ملک گنوایا۔ یہ ملک سیاسی لیبارٹری ہے، طرح طرح کے تجربے جاری ہیں۔ چوہتر سال بعد بھی۔ یہ تجربے نہ اب کے ہندوستان میں نہ بنگلہ دیش میں ہورہے ہیں۔ ہم نے اس ملک کو تجربات کی نذر کردیا ، سیاسی قیادت کا گلا گھونٹ دیا۔ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا ۔ لوگوں پران ڈائریکٹ ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا اور شرفاء کو ٹیکس میں چھوٹ دے رکھی ہے۔
دنیا بہت تبدیل ہوچکی ہے،مسئلہ یہ ہے ، یہاں خود افغانستان میں طالبان تنہائی کا شکار ہیں۔ صدارتی نظام کی بات کو ٹرک کے پیچھے بتی لگانا نہیں ہے،بلکہ ہم اس ملک کو ایک بند گلی میں بند کرنے جارہے ہیں ۔ ہم کیا کریں، ہم مجبور ہیں ہم اقتدار کو عوام کے حقیقی نمایندوں کے حوالے نہیں کرسکتے، کیونکہ عوام کے یہ حقیقی نمایندے انتخابات میں جیت تو سکتے ہیں ۔ یہ عوام کو سڑکوں میں باہر لانے کی طاقت نہیں رکھتے اور ہم انتخابات کو مانتے نہیں ہیں۔