تشددکے عمل کا تاریخی تناظرآخری حصہ

اعصابی اورذہنی طورپرناکارہ کرنیوالی، مفلوج کرنیوالی، بے بنیاد خوف میں مبتلا کرنیوالی نئی دوائیں اورگیسیں تیارہورہی ہیں

zahedahina@gmail.com

لاہور:
یوں تو انسانی تاریخ میں لاتعداد مرد، عورتیں اور بچے سیاسی ایذا دہی اور عقوبتوں کا نشانہ بنے لیکن کہا جاتا ہے کہ دنیا کی شدید ترین سزائیں اس فرانسیسی باشندے کے حصے میں آئیں جسکا نام رابرٹ فرانکوئس ڈیمنز تھا۔

ڈیمنز فرانس کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور طبقہ امرا اور شاہ فرانس کی فضول خرچیوں ، عیاشیوں اور بدمعاملگیوں کے سبب ان سے انتہائی نفرت کرتا تھا۔ اس نفرت کے رد عمل میں اس نے سرپھروں کی ایک جماعت تیارکر لی اور فرانس کا رابن ہڈ کہلانے لگا۔ اس کی مخالفانہ سرگرمیاں اتنی بڑھیں کہ فرانس کی پولیس اس کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی۔

کچھ عرصے کے لیے اس نے روپوشی اختیارکی اور پھر واپس فرانس آیا تو 5 جنوری 1757 کو اس نے شاہ فرانس لوئی پانز دہم پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا۔ ڈیمنز فوراً ہی پکڑا گیا اور گرفتاری کے ساتھ ہی اس پر شدید ایذا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسے لوہے کے ایک پہیے میں باندھ کر ہوا میں معلق کردیا گیا اور نیچے آگ لگائی گئی اور پھر اس سے کہا گیا کہ وہ قتل کی اس سازش میں شریک دوسرے لوگوں کے نام بتائے، لیکن فرانسیسی حکام اس کی زبان نہ کھلوا سکے۔

آخر کار 18 مئی 1757 میں بیس ہزار افراد کی موجودگی میں اسے ایک چبوترے پر لٹاکر اس کے سینے اور کولہوں کو لوہے کی زنجیروں سے جکڑ دیا گیا اور ہاتھ آزاد رکھے گئے اور پھر دو جلادوں نے اس کا سیدھا ہاتھ مضبوطی سے تھاما، اس ہاتھ میں اسے وہ خنجر پکڑا دیا گیا جس سے اس نے شاہ پر حملہ کیا تھا۔ ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں گندھک کی خاصی بڑی مقدار رکھ کر مٹھی بندھ کردی گئی اور بندھ مٹھی کو باریک زنجیروں سے جکڑ دیا گیا۔ پھرگندھک کو آگ دکھائی گئی اور چند ہی لمحوں میں ڈیمنز کا ہاتھ جل کر خاکستر ہوگیا۔

عقوبت دینے والوں کو شاید یہ سزا کم محسوس ہوئی۔ تب ہی انھوں نے اس کے بازئوں کو پہلے فولادی چمٹوں سے داغا ، پھر جلے ہوئے گوشت پر کھولتا ہوا موم ڈالا گیا۔ اس کے بعد زخموں میں ابلتی ہوئی گندھک اور پگھلا ہوا سیسہ ٹپکایا گیا۔

اس تمام تشدد کو سہنے کے باوجود ڈیمنز نے جب زبان نہیں کھولی تو اس کے بدن کی زنجیریں کھول دی گئیں۔ پھر چار گھڑ سوار آئے۔ بہت ہی مضبوط رسے ڈیمنز کی کہنیوں اور اس کے گھٹنوں کے جوڑوں سے ذرا اوپر انتہائی مضبوطی سے باندھ دیے گئے۔ پھر ان رسوں کو گھوڑوں سے منسلک زنجیروں میں باندھ دیا گیا۔

افسر اعلیٰ کے اشارے پر چاروں گھڑ سوار چار مختلف سمتوںکو اپنے گھوڑے لے کر لپکے اس طرح بار بار کی کھینچا تانی سے ڈیمنزکا بدن چار حصوں میں تقسیم ہوگیا اور اس بدبخت انسان نے ریاستی عقوبت کے بھیانک چنگل سے نجات پائی اور ان تمام سزائوں کو دیکھنے والے بیس ہزار شہری سروں کو جھکائے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔


اٹھارہویں صدی میں جب روشن خیالی کے دور کا آغاز ہوا۔ تو Sayle، والیٹر، Beccari روسو، بنتھم اور دوسرے یورپی مفکروں اور دانشوروں نے ان عقوبتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور آہستہ آہستہ ریاست کو اس بات کا احساس ہوا کہ طاقت کا یہ ننگا استعمال اس کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اور انقلاب فرانس ایسے دوسرے انقلاب رونما ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ پہلے تو مذہبی مخالفین پر تشدد کا سلسلہ بہت کم ہوگیا، اس کے ساتھ ہی سیاسی مخالفین پر تشدد کے طور طریقے بدلے گئے اور برسرعام سزا دینے کے بجائے درپردہ ایذا دہی کا رواج بڑھا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور ریاستی ایذا دہی کا شکار ہونے والوں کے لیے آئینی اور قانونی جنگ لڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا چنانچہ بڑے پیمانے پر ہونے والی ان سرگرمیوں کے سبب ریاستوں کو طاقت کے مظاہرے میں کچھ کمی کرنی پڑی۔

دانشوروں اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم عمل رہنے والوں کا خیال تھا کہ بیسویں صدی جو انسانی شعور اور دانش کی اور سائنسی کامرانیوں کی درخشاں ترین صدی ہے اس کے دوران عقوبتوں اور غیر انسانی اذیتوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی ایذا دہی کی تاریخ کی سیاہ ترین صدی ہے۔ یہ بدبختی اسی صدی کے حصہ میں آئی کہ اس کے دوران ریاستی ایذا دہی اپنے عروج کو پہنچ گئی اور اس نے نہ صرف یہ کہ ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلی بلکہ تشدد ایک ''صنعت'' میں تبدیل ہوگئی۔

ایذا دہی کا منضبط اور منظم استعمال آج ریاست کے ہاتھوں میں طاقتور ترین ہتھیار ہے جسے وہ اپنے استحکام کے لیے استعمال کررہی ہے۔ دنیا نے ایذا دہی کے خاتمے اور انسانی حقوق کے پاسداری کے لیے بیسویں صدی میں جتنے اعلان نامے مرتب کیے اور جس قدر قوانین بنائے ان کی نظیر نہیں ملتی لیکن اسی صدی میں فاشسٹ جرمنی میں چالیس لاکھ یہودیوں کو ریاستی اہلکاروں اور افسروں کی مدد سے بہیمانہ اور غیر انسانی سلوک کے بعد موت کے گھاٹ اتار اگیا۔

یہی وہ صدی ہے جب اجتماعی قبریں وجود میں آئیں۔ اسی صدی میں انسان نے سیاسی دشمنی کے سبب سب سے پہلے اور سب سے بھیانک ایٹمی جرم کا ارتکاب کیا اور دنیا کے دو شہر چند سیکنڈ میں انتہائی اذیتناک اجتماعی موت سے دوچار ہوئے اور زندہ بچ رہنے والوں نے سسک سسک کر زندگی گزاری۔ اسی صدی میں کوریا ، ویتنام ، ایران، عراق، جنوبی افریقا اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی مخالفین پر منظم ریاستی ایذا دہی روا رکھی گئی۔

اس صدی نے ایذا دہی کو چونکہ صنعت کی شکل دے دی ہے چنانچہ انسانیت اس گھنائونے جرم میں اتنے بڑے پیمانے پر ملوث ہوگئی ہے جس کا بادی النظرمیں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت ریاستوں میں ایذا دہی کو حکومت کا کاروبار چلانے کے لیے لازم خیال کیا جاتا ہے چنانچہ تمام ملکوں کے درمیان ایذا دہی کے طریقوں اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ ایک معمول کی بات ہے۔

دنیا بھر کی ریاستوں کو ایذا رسانی کے آلات اور اوزاروں کی اتنے بڑے پیمانے پر ضرورت ہے کہ ان کی فراہمی منافع بخش کاروبار بن گئی ہے چنانچہ انھیں بنانے کے لیے بڑی بڑی فیکٹریاں دن رات کام کررہی ہیں۔ اس طرح ان میں کام کرنیوالے مزدور بلاواسطہ طور پر ایذا دہی کی ترویج میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ایذا دہی کے جسمانی پہلو سے زیادہ اب نفسیاتی پہلوئوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ برین واشنگ تو ایک بہت پرانی اصطلاح ہوچکی ہے۔

اعصابی اور ذہنی طور پر ناکارہ کرنیوالی، مفلوج کرنیوالی، بے بنیاد خوف میں مبتلا کرنیوالی نئی دوائیں اور گیسیں تیار ہورہی ہیں۔ ان کی تیاری میں ڈاکٹر اور سائنسدان، لیبارٹریوں میں کام کرنیوالے، ٹیکنیشن، ماہرین نفسیات اور نیوروسرجنز شامل ہیں۔ ایذاپہنچانے والے آلات، دوائوں اور گیسوں کو درآمد اور برآمد کرنیوالے ادارے، ان دوائوں اور آلات کی تشہیر کرنیوالی ایڈور ٹائزنگ کمپنیاں، ان جسمانی اور نفسیاتی سزائوں کو اپنے اخباروں کی اشاعت میں اضافے یا حکمرانوں کی ہیبت وجبروت میں اضافے کے لیے اچھالنے والے صحافی، کوڑوں کی سزائوں، سنگساریوں، ہاتھ کاٹنے، پھانسی دینے یا ایذا دہی کی دوسری کارروائیوں کی ریکارڈنگ کرنیوالے ریڈیو اور ٹی وی کے کارکن حد تو یہ ہے کہ ان سزائوں کا نظارہ کرنیوالے عوام ، غرض یہ کہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ نہ چاہتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر اس عمل کا بلاواسطہ یا بلواسطہ ایک حصہ بن گیا ہے۔
Load Next Story