صبر اور شکر کی زندہ مثال
امید واثق ہے کہ ایسا درد مند اور صابر و شاکر شخص پاکستان کے لیے مستقبل میں بھی ایک سرمایہ ثابت ہو گا
ان دنوں ملک بھر کا میڈیا پاکستان کے سیاسی نظام معیشت اور کورونا کی صورتحال پر تبصروں میں مصروف ہے، ان موضوعات سے ہٹ کر کسی اور عنوان پر کالم تحریر کرنا شاید روایات کے مطابق نہ ہو لیکن میں آج ایک ایسی شخصیت پر لکھنا چاہتا ہوں جس کو چند دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے اعزازی طور پر اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ مقرر کیا ہے۔
اس طرح وہ ایک سو ساٹھ ممالک میں مقیم ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے نمایندہ ہونگے۔ اس سے پہلے زلفی بخاری اس منصب پر فائز تھے۔ وہ ایک ارب پتی بزنس مین اور وزیراعظم کے قریبی دوست شمار کیے جاتے تھے لیکن راولپنڈی رنگ روڈ کے باعث وہ متنازع ہوئے اور بیرون ملک چلے گئے ۔
طارق محمود الحسن اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی ہیں تاہم وہ اس سے پہلے کسی سیاسی منصب پر فائز نہیں رہے۔وہ برطانیہ میں مقیم ایک صاحب ثروت بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخیر سماجی کارکن ہیں جو دینی اور روحانی علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔
طارق محمود الحسن اپنی فیملی کے ہمراہ 2018 میں عید الفطر منانے 16جون کو مانچسٹر سے لاہور پہنچے اور یہاں سے اپنے آبائی شہر کمالیہ کے لیے روانہ ہوئے، مخدوم صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ ایک الگ گاڑی میں سوار تھے جب کہ ان سے آگے جانیوالی کار میں ان کے تین بیٹے اور ڈرائیور تھے۔
بچوں کی گاڑی جب اوکاڑہ کینٹ کے قریب پہنچی تو ایک ٹریلر(مال بردار گاڑی) کو اور ٹیک کرتے ہوئے گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا اور بے قابو ہو کر سٹرک کے کنارے لگے درختوں سے اس طرح ٹکرائی کہ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں بیٹے موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ تیسرا بیٹا جو فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا شدید زخمی ہو گیا جو اب تک زیر علاج ہے۔اس حادثے میں سیٹ بلیٹ باندھنے کی وجہ سے ڈرائیور کی جان بچ گئی۔مخدوم طارق محمود الحسن اور ان کی اہلیہ نے اس دلخراش منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور زخمی بچوں کو راہ گیر وں کی مدد سے نکالا، یہ حادثہ 18جون کی شام تقریباً شام سات بجے پیش آیا۔
طارق صاحب سے میری ملاقات ہر سال تواتر سے برطانیہ میں میڈیا کانفرنس کے موقع پر ہوتی رہی ہے ۔کئی بار میں ان کے گھر بھی گیا اور ایسی محفل میں شریک ہوا جہاں درجنوں صاحب علم و فکر افراد ان سے دنیاوی اور دینی رہنمائی لینے آتے ہیں۔طارق صاحب نے ایام جوانی میں جو روحانی منازل طے کی ہیں، ان کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ وہ ایک صاحب فکر وعمل اور قیادت کی صلاحیتوں سے بھر پور انسان ہیں۔ و ہ کمالیہ کی سب سے بڑی روحانی خانقاہ شاہ بابا(سید محمد اکرم صادق) کے سجادہ نشین اور اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کے پاس اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔
وہ بتا رہے تھے کہ چند سال پہلے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے وہ انوسٹر ویزا پر برطانیہ گئے وہاں گھر خریدا ، کاروبار شروع کیا،اور تینوں بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کرایا ،زندگی خوشگوار اور پرسکون ڈگر پر چل رہی تھی کہ 18جون کو اس اندوہناک حادثے نے ان کی متاع حیات دو بیٹے سید زمان عمر 13سال اور سید محمد علی عمر 9سال پلک جھپکتے ہی ان سے لے لیے جب کہ تیسرا بیٹا سید ظہران عمر 12سال موت و حیات کی کشمکش میں چلا گیا۔
اس حادثے کے بعد مخدوم صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ان کا پہلا فقرہ تھا ''رائو بھائی کرچی کرچی(ریزہ ریزہ)ہو گیا ہوں، میں کہاں اس قابل تھا کہ رب کریم مجھے اتنی بڑی آزمائش میں ڈالتا۔ میرے لیے دعا کریں کہ میں اس آزمائش میں پورا اتر سکوں،بچوں کے غم میں نڈھال ہوں اور اہلیہ کی حالت دیکھ کر کچھ سجھائی نہیں دے رہا''۔طارق صاحب کہے جا رہے تھے...رائو صاحب زندگی کے اس امتحان کے دو پرچے بڑے سخت اور مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پر بھی پورا اترنا کڑا امتحان ہے۔ وہ پرچے ہیں ''صبر اور شکر'' ۔
اﷲ نے مجھے یہ دونوں پرچے بیک وقت حل کرنے کو دے دیے ہیں۔دو بچوں کی رحلت پر صبر کرنا اور ایک بچے کی جان بخشی پر شکر کرنا۔بس میرے لیے دعا کریں کہ میں اس امتحان میں سرخرو ہو جائوں اور رب کریم مجھے اور کوئی آزمائش نہ دے''۔گفتگو کے دوران طارق صاحب بتا رہے تھے کہ جب میں اپنے دونوں لخت جگروں کے جنازے میں شریک تھا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی مجھ سے سوال پوچھ رہا ہے کہ تم اگر اﷲ کی اسی رضا میں اپنی رضا شامل کر کے صبر کر لو تو اس کے عوض اﷲ سے کیا چاہو گے۔
وہ کہہ رہے تھے میں اس پیغام کو بچوں کی تدفین کے وقت بھی محسوس کر رہا تھا۔ اس لمحے مجھے ایک خیال آیا اورمیں نے رب کریم سے دعا کی کہ اے رب کائنات مجھے کچھ نہیں چاہیے بس مجھے صبر عطا کر اور ان معصوم بچوں کے مرقد پر جو بھی فاتحہ خوانی کے لیے آئے اور اپنے دکھ درد کے مداوے کے لیے دعا کرے ،ان کی دعائوں کو قبولیت عطا فرما اور ان کی جھولی کو بھر دے۔آمین
وہ کہے جا رہے تھے آپ کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دین اور دنیا دونوں کے ثمرات سے خوب نوازا ہے ۔مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے اس کہ رب کریم مجھے صبر اور شکر کی دولت سے نوازے۔ بس اب میری خواہش ہے کہ میں باقی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دوں۔ میں تلاش حق کا مسافر ہوں۔میں ان کی یہ ساری باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ اصل اثاثے مال و دولت اور مرتبے نہیں یہ تو ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہتے ہیں اصل دولت وزارت عظمیٰ کا منصب اور اربوں روپے کی جائیداد نہیں بلکہ وہ اولاد ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔
اﷲ پاک یہ متاع حیات بھی اگر کسی سے چھین لے تب بھی اسے زندگی تو گزارنی ہوتی ہے۔طارق محمود الحسن نے جس حوصلے اور صبر و شکر اور مثبت طرز فکر سے گزشتہ تین سال کے دوران اپنی زندگی گزاری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئے اس پس منظر میں ان کے لیے یہ عہدہ رب کریم کی جانب سے اﷲ ایک عنایت اور انعام ہے۔ امید واثق ہے کہ ایسا درد مند اور صابر و شاکر شخص پاکستان کے لیے مستقبل میں بھی ایک سرمایہ ثابت ہو گا۔
اس طرح وہ ایک سو ساٹھ ممالک میں مقیم ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے نمایندہ ہونگے۔ اس سے پہلے زلفی بخاری اس منصب پر فائز تھے۔ وہ ایک ارب پتی بزنس مین اور وزیراعظم کے قریبی دوست شمار کیے جاتے تھے لیکن راولپنڈی رنگ روڈ کے باعث وہ متنازع ہوئے اور بیرون ملک چلے گئے ۔
طارق محمود الحسن اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی ہیں تاہم وہ اس سے پہلے کسی سیاسی منصب پر فائز نہیں رہے۔وہ برطانیہ میں مقیم ایک صاحب ثروت بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخیر سماجی کارکن ہیں جو دینی اور روحانی علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔
طارق محمود الحسن اپنی فیملی کے ہمراہ 2018 میں عید الفطر منانے 16جون کو مانچسٹر سے لاہور پہنچے اور یہاں سے اپنے آبائی شہر کمالیہ کے لیے روانہ ہوئے، مخدوم صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ ایک الگ گاڑی میں سوار تھے جب کہ ان سے آگے جانیوالی کار میں ان کے تین بیٹے اور ڈرائیور تھے۔
بچوں کی گاڑی جب اوکاڑہ کینٹ کے قریب پہنچی تو ایک ٹریلر(مال بردار گاڑی) کو اور ٹیک کرتے ہوئے گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا اور بے قابو ہو کر سٹرک کے کنارے لگے درختوں سے اس طرح ٹکرائی کہ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں بیٹے موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ تیسرا بیٹا جو فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا شدید زخمی ہو گیا جو اب تک زیر علاج ہے۔اس حادثے میں سیٹ بلیٹ باندھنے کی وجہ سے ڈرائیور کی جان بچ گئی۔مخدوم طارق محمود الحسن اور ان کی اہلیہ نے اس دلخراش منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور زخمی بچوں کو راہ گیر وں کی مدد سے نکالا، یہ حادثہ 18جون کی شام تقریباً شام سات بجے پیش آیا۔
طارق صاحب سے میری ملاقات ہر سال تواتر سے برطانیہ میں میڈیا کانفرنس کے موقع پر ہوتی رہی ہے ۔کئی بار میں ان کے گھر بھی گیا اور ایسی محفل میں شریک ہوا جہاں درجنوں صاحب علم و فکر افراد ان سے دنیاوی اور دینی رہنمائی لینے آتے ہیں۔طارق صاحب نے ایام جوانی میں جو روحانی منازل طے کی ہیں، ان کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ وہ ایک صاحب فکر وعمل اور قیادت کی صلاحیتوں سے بھر پور انسان ہیں۔ و ہ کمالیہ کی سب سے بڑی روحانی خانقاہ شاہ بابا(سید محمد اکرم صادق) کے سجادہ نشین اور اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کے پاس اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔
وہ بتا رہے تھے کہ چند سال پہلے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے وہ انوسٹر ویزا پر برطانیہ گئے وہاں گھر خریدا ، کاروبار شروع کیا،اور تینوں بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کرایا ،زندگی خوشگوار اور پرسکون ڈگر پر چل رہی تھی کہ 18جون کو اس اندوہناک حادثے نے ان کی متاع حیات دو بیٹے سید زمان عمر 13سال اور سید محمد علی عمر 9سال پلک جھپکتے ہی ان سے لے لیے جب کہ تیسرا بیٹا سید ظہران عمر 12سال موت و حیات کی کشمکش میں چلا گیا۔
اس حادثے کے بعد مخدوم صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ان کا پہلا فقرہ تھا ''رائو بھائی کرچی کرچی(ریزہ ریزہ)ہو گیا ہوں، میں کہاں اس قابل تھا کہ رب کریم مجھے اتنی بڑی آزمائش میں ڈالتا۔ میرے لیے دعا کریں کہ میں اس آزمائش میں پورا اتر سکوں،بچوں کے غم میں نڈھال ہوں اور اہلیہ کی حالت دیکھ کر کچھ سجھائی نہیں دے رہا''۔طارق صاحب کہے جا رہے تھے...رائو صاحب زندگی کے اس امتحان کے دو پرچے بڑے سخت اور مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پر بھی پورا اترنا کڑا امتحان ہے۔ وہ پرچے ہیں ''صبر اور شکر'' ۔
اﷲ نے مجھے یہ دونوں پرچے بیک وقت حل کرنے کو دے دیے ہیں۔دو بچوں کی رحلت پر صبر کرنا اور ایک بچے کی جان بخشی پر شکر کرنا۔بس میرے لیے دعا کریں کہ میں اس امتحان میں سرخرو ہو جائوں اور رب کریم مجھے اور کوئی آزمائش نہ دے''۔گفتگو کے دوران طارق صاحب بتا رہے تھے کہ جب میں اپنے دونوں لخت جگروں کے جنازے میں شریک تھا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی مجھ سے سوال پوچھ رہا ہے کہ تم اگر اﷲ کی اسی رضا میں اپنی رضا شامل کر کے صبر کر لو تو اس کے عوض اﷲ سے کیا چاہو گے۔
وہ کہہ رہے تھے میں اس پیغام کو بچوں کی تدفین کے وقت بھی محسوس کر رہا تھا۔ اس لمحے مجھے ایک خیال آیا اورمیں نے رب کریم سے دعا کی کہ اے رب کائنات مجھے کچھ نہیں چاہیے بس مجھے صبر عطا کر اور ان معصوم بچوں کے مرقد پر جو بھی فاتحہ خوانی کے لیے آئے اور اپنے دکھ درد کے مداوے کے لیے دعا کرے ،ان کی دعائوں کو قبولیت عطا فرما اور ان کی جھولی کو بھر دے۔آمین
وہ کہے جا رہے تھے آپ کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دین اور دنیا دونوں کے ثمرات سے خوب نوازا ہے ۔مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے اس کہ رب کریم مجھے صبر اور شکر کی دولت سے نوازے۔ بس اب میری خواہش ہے کہ میں باقی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دوں۔ میں تلاش حق کا مسافر ہوں۔میں ان کی یہ ساری باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ اصل اثاثے مال و دولت اور مرتبے نہیں یہ تو ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہتے ہیں اصل دولت وزارت عظمیٰ کا منصب اور اربوں روپے کی جائیداد نہیں بلکہ وہ اولاد ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔
اﷲ پاک یہ متاع حیات بھی اگر کسی سے چھین لے تب بھی اسے زندگی تو گزارنی ہوتی ہے۔طارق محمود الحسن نے جس حوصلے اور صبر و شکر اور مثبت طرز فکر سے گزشتہ تین سال کے دوران اپنی زندگی گزاری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئے اس پس منظر میں ان کے لیے یہ عہدہ رب کریم کی جانب سے اﷲ ایک عنایت اور انعام ہے۔ امید واثق ہے کہ ایسا درد مند اور صابر و شاکر شخص پاکستان کے لیے مستقبل میں بھی ایک سرمایہ ثابت ہو گا۔