دوستی کا نیا سفر

کراچی اور ممبئی کے سمندری راستے پر فیری سروس شروع کرنے کا فیصلہ خاصا حوصلہ مند ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 11, 2012
[email protected]

SUKKUR: پاکستان اور بھارت کے درمیان نئی ویزا پالیسی پر اتفاق جنگجو قوتوں کے لیے مایوسی اور خطے میں آباد کروڑوں لوگوں کے لیے خوشی اور زندگی کی امید ہے۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے معاہدے کے تحت 8 اقسام کے ویزے کے طریقہ کار کو آسان اور سہل بنادیا گیا ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 65 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ویزے سے مستثنیٰ قرار دینے، 5 مقامات کا سیاحتی ویزا دینے اور تاجروں اور سول سوسائٹی کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے فراہم کیے جائیں گے، تاجروں اور دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والے صنعتکاروں کے لیے بھی ویزے کے حصول میں خصوصی رعایت رکھی گئی ہے۔

2008 میں ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان کے غیر ریاستی اداکار Non State Actor کے ملوث ہونے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی اور اس کشیدگی سے دونوں ممالک کے وہ شہری جو دونوں ممالک میں آنے جانے کے خواہاں تھے براہِ راست متاثر ہوئے تھے، اب ان کو اپنے پیاروں سے ملنے میں کسی حد تک آسانی ہوجائے گی۔

ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے ویزا کا حصول امریکی ویزا لینے سے زیادہ مشکل ہوگیا تھا۔ بھارت نے 2009 اور 2010 میں تو ویزے دینے کی پالیسی اتنی سخت کردی تھی کہ صرف چند لوگوں کو ہی ویزا ملتا تھا۔ اس پالیسی کے تحت 20 ہزار سے کم آمدنی رکھنے والے افراد ویزے کے اہل نہیں تھے۔

ویزے کے لیے درخواست کرنے والے شخص کو اپنے یوٹیلٹی بل اور پولیس کا اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا تھا اور بھارت میں جو افراد اپنے رشتے دار کو اسپانسر کررہا ہوتا تھا اس کو بھی اپنے یوٹیلٹی بل، پولیس سے کلیئرنس اور انتظامی افسر کے تصدیق نامے کے ساتھ تمام دستاویزات وزارت داخلہ کو جمع کرانا ہوتے تھے۔ عمومی طور پر 6 ہفتے میں درخواست کا فیصلہ ہونا ہوتا تھا مگر یہ معاملہ طول پکڑ جاتا تھا۔

بھارت کے جو شہری پاکستان کے ویزے کے لیے درخواستیں دیتے تھے انھیں بھی ایسی ہی مشکل صورتحال سے گزرنا پڑتا تھا۔ جب تک سیکیورٹی ایجنسیاں کلیئرنس نہیں دیتیں ویزے کا عمل آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پاکستانی دفاتر میں کام کرنے کی روایت زیادہ بہتر نہیں ہے اس بنا پر ویزے کے معاملات مہینوں رکے رہتے تھے۔ بھارت کے مختلف شہروں سے لوگ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن بھیجتے تھے جہاں پاکستانی سفارتی عملہ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا تھا۔

جن لوگوں کے قریبی رشتے دار دونوں ممالک میں آباد نہ ہوں ان کی بھارت اور پاکستان کے دورے کی خواہش حسرت بن کر ہی رہ جاتی تھی۔ اسی طرح اساتذہ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین ورکشاپ اور کانفرنسوں میں شرکت کے دعوت نامے قبول کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے تھے کیونکہ ان پروگراموں کی تاریخوں تک ویزے کا فیصلہ نہیں ہوتا تھا۔

عمومی طور پر متعلقہ ہائی کمیشن اس نوعیت کی ویزا درخواستیں اپنے دارالحکومتوں میں خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر کو بھجوا دیتا تھا۔ تجربے کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں تو آخری وقت تک ان درخواستوں پر فیصلہ نہیں کرتیں۔

کراچی میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھارت کے اساتذہ، ادیبوں اور صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان صاحبان کو وزیر داخلہ رحمن ملک کی ذاتی مداخلت پر ویزے جاری کیے گئے اور پھر 5 دن کے ویزے کے ساتھ پولیس رپورٹنگ کی شرط لازمی کردی گئی۔

پولیس ہیڈ کوارٹر کے چکر لگانے کے خوف سے بھارت کے دو سینئر صحافیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا، ایک اور سینئر صحافی تیار ہوئے مگر انھیں پی آئی اے کا نئی دہلی میں تعینات عملہ نشست دینے پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔ اب اگر کانفرنسوں اور عملی مجالس میں شرکت کرنے والے اساتذہ، شاعروں، دانش وروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو ائیرپورٹ پر ویزے دینے کی سہولت فراہم کردی جائے تو دونوں ممالک کے درمیان روابط بہتر ہوجائیں گے۔

اس معاہدے کی ایک اہم بات سیاحت کے لیے 5 شہروں کے ویزے کا حصول ہے۔ بھارت میں بہت سارے لوگ موئنجو دڑو، ہڑپہ اور دیگر تاریخی مقامات دیکھنے کے خواہش مند ہیں، اسی طرح پاکستان کے خاصے لوگ تاج محل، فتح پور، دہلی کی جامع مسجد، راجستھان اور دوسرے تاریخی مقامات دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اگر اب سیاحتی ویزے کا اجرا ہوگا تو ہر سال لاکھوں افراد دونوں ممالک کا دورہ کرسکیں گے۔

اس معاہدے میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو صرف واہگہ سے ویزا دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ سہولت ہوائی سفر کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ کراچی اور ممبئی کے سمندری راستے پر فیری سروس شروع کرنے کا فیصلہ خاصا حوصلہ مند ہے۔ سیاحتی ویزے میں طالب علموں کو تعلیمی اداروں میں داخلے کی شق کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس شق سے پاکستانی طالب علم خاطر خواہ فائدہ اٹھاسکیں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ جب اگست 1947 میں دونوں ممالک آزاد ہوئے تو شہریوں کو سرحد پار کرنے کے لیے کسی قسم کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی مگر لیاقت نہرو معاہدے کے بعد دستاویزی پابندیاں عائد کرنے کا عمل شروع ہوا جو ستمبر 1985 تک جاری رہا۔ ستمبر 1965 کی جنگ میں تعلقات منقطع ہوئے۔

معاہدہ تاشقند کے بعد ویزے آسانی سے ملنے لگے مگر 1971 کی دسمبر کی جنگ میں پھر سب کچھ بند ہوگیا۔ بھٹو صاحب اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان جب تاشقند معاہدہ ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے اور آسانی سے ویزے ملنے لگے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979 میں کراچی میں بھارتی قونصل خانہ قائم ہوا مگر ممبئی میں پاکستانی قونصل خانے کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ 1990 تک دونوں ممالک کے شہریوں کو سفر کرنے میں کسی بڑی مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا مگر پھر پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں نے کراچی میں قائم بھارتی قونصل خانے پر اعتراضات شروع کردیے۔

دونوں ممالک نے سفارتکاروں کو اپنے اپنے ملک سے نکالنے کی پالیسی اختیار کی اور پھر جمہوری حکومت ایجنسیوں کے دبائو پر کراچی میں بھارتی قونصل خانہ بند کرنے پر مجبور ہوئی۔ دونوں ممالک کی ویزا پالیسی میں سخت شرائط شامل ہونا شروع ہوئیں۔ جب میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تو دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔

بھٹو صاحب کے دور میں تو سمجھوتہ ایکسپریس چلی تھی، میاں صاحب کے دور میں لاہور سے دہلی بس چلنے سے خاصی آسانی ہوئی جب جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلے کے لیے نئی تجاویز پیش کیں تو دونوں ممالک نے اپنے شہریوں پر سے عائد پابندیاں ختم کرنے پر اصولی طور پر اتقاق کیا۔ اس فیصلے کے تحت کھوکھراپار کا ریل کا راستہ کھلا، کراچی سے ہفتے میں ایک دن ریل گاڑی راجستھان جانے لگی۔

کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بس چلنے لگی اور دونوں ممالک نے اپنے ضلعی افسروں کو ویزا جاری کرنے کا اختیار دیا۔ عام خیال یہ تھا کہ مستقبل میں ممبئی میں پاکستانی قونصل خانہ قائم ہو جائے گا اور شہریوں سے رابطوں میں حائل رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔

جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا تھا کہ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے مگر ان کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد 6 نومبر 2008 کو ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا۔ غیر ریاستی کردار اس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کی آخری حد تک پہنچ گئے اور ویزے کے حصول پر نئی پابندیاں عائد ہوگئیں۔ 6 فروری 2011 کو دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کے درمیان ٹمپو بھوٹان میں ملاقات سے روابط قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی شرم الشیخ مصر میں ڈاکٹر من موہن سنگھ سے بات چیت میں مزید پیش رفت ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس سال کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرنے کا عندیہ دیا۔ اب تہران میں غیر جانبدار ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں صدر زرداری اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کے مذاکرات کے بعد حالات اتنے بہتر ہوگئے کہ دونوں ممالک ویزہ پالیسی میں نرمی پر حتمی طور پر متفق ہوگئے۔ مگر یہ اتفاق رائے ناکافی ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان کو ممبئی، کلکتہ اور مدراس میں قونصل خانے قائم کرنے کی فوری اجازت ملنی چاہیے، اس طرح بھارت کو بھی کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں قونصل خانے قائم کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ شہریوں کو بغیر پولیس رپورٹنگ کے ویزے جاری ہونے چاہئیں، اس کے ساتھ تعلیمی اور ثقافتی پروگرام شروع ہونے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں