مہنگائی اور رولنگ کلاس

پہلے سے امیر طبقات کو مزید نواز کر امیر بنانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی


Editorial January 24, 2022
پہلے سے امیر طبقات کو مزید نواز کر امیر بنانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: وزیراعظم عمران خان نے وزیر خزانہ شوکت ترین کو ٹیلی فون کرکے انھیں مہنگائی سے متاثرہ متوسط طبقے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو تین برس میں5.37 فیصد کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) حاصل کرنے پر مبارکباد دی،جس سے وزیراعظم کے بقول روزگار کے خاطر خواہ مواقع پیدا ہوئے اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا۔

وزیراعظم عمران خان کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ عوام مہنگائی سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور وہ اس ضمن میں مہنگائی میں کمی کے خواہش مند بھی ہیں ۔ موجودہ حکومت کی جانب سے شوکت ترین کو وزیرِ خزانہ بنانے کے بعد معیشت کو توسیع پسندانہ خطوط پر استوار کیا گیا تھا، کسی حد تک شوکت ترین نے معیشت کو وسعت دینے اور کھپت میں اضافہ کرکے ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے مگر روپے کی قدر میں شروع ہونے والی گراوٹ اور بنیادی شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوسکتی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں 60 ملین سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں ،جب کہ کورونا اورمعاشی سست روی کی وجہ سے ایک کروڑ اسی لاکھ لوگ مزید غربت کا شکار ہوئے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ملکی معیشت میں رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کی حامل ہے اور یہ صنعت بوم پر ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبہ بھی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ تعمیراتی مٹیریل مسلسل مہنگا ہورہا ہے ۔ بلڈنگ مٹیریل کا سرکاری طور پرکوئی متعین نرخ نامہ نہیں ہے ۔ جس کی جو مرضی ہے، وہ نرخ طے کرلیتا ہے۔ اسٹیل کے نرخایک برس میں کئی گنا بڑھ چکے ہیں ، سیمنٹ کے نرخ بھی ایک برس کے دوران تقریباً ڈبل ہوگئے ہیں ، لکڑی، پینٹ ، مختلف قسم کے پائپ، بجری یا کرش، سینٹری فٹنگز ، ہارڈ ویئر کا سامان ، ماربل اور ٹائلز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا.

کنسٹرکشن لیبر بھی مہنگی ہے جب کہ آرکیٹکچرفرمز کے ریٹ بھی بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کو بحران کا شکار کردیا گیا ہے ۔ عام آدمی کے لیے اپنے گھر کی تعمیر اب صرف ایک خواب ہی بن چکا ہے ۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی سست روی کا شکار ہے کیونکہ اسٹامپ پیپرز پر ڈیوٹی،ڈی سی ریٹس میں اضافہ اور دیگر ٹیکسز کی وجہ سے زمین اور جائیداد کی خرید و فروخت میں سست روی دیکھنے میں آرہی ہے۔

ادویات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ادویات کے خام مال پر 17.5 فیصد ٹیکس کے بعد متعدد دوائیں مہنگی ہوگئی ہیں، مہنگی ہونے والی دواؤں میں بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور معدے کی تیزابیت کی دوائیں شامل ہیں۔جسم کے درد کو فوری دور کرنے والے انجکشن بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے سامنے ایسے افراد دیکھے جاسکتے ہیں، جو مہنگی دوائیاں نہیں خرید سکتے اور ہاتھ میں پرچہ لیے کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔

کئی افراد ایسے بھی ہیں، جو بیمار بچوں کو لے کر ہاتھ میں ڈاکٹر کی دوائیوں یا ٹیسٹ کا نسخہ لیے گھومتے ہیں اور کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں نوسرباز اور فراڈیے بھی شامل ہوں لیکن ایسے افراد بھی ہوں گے جو واقعی دوا خریدنے اور میڈیکل ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ ملک کی ایک بڑی آبادی غریب ہے، کورونا کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

غریب لوگ پہلے ہی علاج معالجے پر اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ خرچ کر رہے ہیں کیونکہ اچھی خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اب زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب علاقوں میں شرح اموات بڑھیں گی۔کیونکہ مزید ٹیکس ادویات کی قیمتوں پر لگے گا اور سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دواؤں کی تیاری میں خود سرمایہ کاری کرے اور عوام کو سستی دوائیوں کی فراہمی یقینی بنائے۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں اُنیس فیصد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 38 فیصد جب کہ گیس سلنڈر کی قیمت میں پچاس فیصد اضافہ ہواہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر متوسط طبقہ اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ غریب آدمی تو اس مہنگائی کی دلدل میں پھنسا جا رہا ہے اور بالآخر ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو سال میں خودکشی کی شرح تین سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

پہلے ایک سال بعد بجٹ آتا تھا اب تو پورا سال بجٹ آتا رہتا ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا جاتا۔ حکومت کہتی ہے کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہورہی ہے لیکن حکومت کو پاکستان میں مہنگائی کے ایشو پر بات کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کا موازنہ یورپ،امریکا،لاطینی امریکا کے ارجنٹائن، پیرو،یورا گوئے اور پیراگوئے ، جنوبی کوریا، تائیوان ، چین اور جاپان کے ساتھ نہیں کیا جاسکتاہے،پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی معیشت کی بات کرنی چاہیے اور عوام کو بتانا چاہیے کہ مہنگائی اور افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے ، انھوں نے کون کون سے قوانین بنائے اور مختلف اشیاء اور دیگر آئٹمز کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کونسے ٹیکسز میں کمی کی ہے اور مستقبل میں ان کے پاس کیا منصوبے موجود ہیں۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے کی حکمران اشرافیہ میں پستی و گراوٹ کا احساس ہی باقی نہ رہے، وہ عوام کی بھلائی کے لیے کوئی منصوبہ یا پالیسی نہیں بنا سکتی۔ پارلیمان کا کردار بھی خاموش تماشائی کی طرح ہے۔ اوپری سطح پر کک بیکس، اقربا پروری،دوست نوازی کو اگر نظرانداز کرکے شاہراہوں اور گلی محلوں پر نظر دوڑائیں تو ملک میں چوری، ڈکیتی، اغوا اور قتل کی خبریںمعمول بنتی جارہی ہیں۔ پولیس کی تربیت و ذہانت کا معیار انتہائی پست ہوچکا ہے۔

عدالتوں میں صورتحال بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔عوام کو سروسز فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے، یہ سب اس لیے کہ سیاسی، کاروباری اور ریاستی نوکرشاہی پر مشتمل رولنگ کلاس ذہنی افلاس اور نظریات کی خود فریبی کا شکار ہوچکی ہے۔ رولنگ کلاس کی کم فہمی، مبہم نظریات اور نااہلی نے پورے معاشرے کو ایک ایسے جنگل میں تبدیل کردیا ہے جس کا ہر باسی دوسرے کی گردن پر سوار ہوکر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

کیا یہ ندامت کا باعث نہیں ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس کا ایک بڑا درآمدی ملک بن گیا ہے۔ ادرک، پیاز، ٹماٹر، مختلف پھل، عمارتی لکڑی، چینی، گندم بھی درآمد کرنی پڑ جاتی ہے۔ آٹے کی قیمت 40 روپے سے بڑھ کر 80، 85 روپے فی کلو گرام تک پہنچ چکی ہے۔ وزیرِاعظم نے تاریخی عوامی ریلیف پیکیج کا اعلان تو کیا ہے مگر ایک غریب اور مزدور کو اس سے استفادہ کرنے کے لیے پہلے اچھا سا موبائل خریدنا ہوگا ،جو اس کی طاقت سے باہر ہے۔

حکومت کو لوگوں کو ناامیدی اور ذہنی فرسٹریشن سے نکالنے کے لیے معاشی اصلاحات کا رخ مڈل کلاس اور غریب طبقات کی طرف موڑنا ہوگا۔ پہلے سے امیر طبقات کو مزید نواز کر امیر بنانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ملک کا جو طبقہ سرکاری مراعات کھا کھا کر بغیر محنت اور کاروبار کے امیر اور موٹا ہوگیاہے، اس کی مراعات و استحقاقی اختیارات ختم کردیے جائیں تو ملک کی معیشت مستحکم ہوجائے گی اور عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ واپس کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔اگر ارباب اختیار اور رولنگ کلاس نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ملک کے معاشی ومعاشرتی حالات مزید خراب ہوجائیں گے اور حکومت کے لیے حالات سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں