صدارتی نظام کے نفاذ کا مطالبہ چہ معنی دارد
پاکستان میں آج تک صحیح صدارتی نظام نافذ نہیں ہوا ہے
کنفیوژن اور انتشار شاید ہماری قومی گھٹی میں پڑا ہے۔ ہم بحیثیتِ مجموعی کسی ایک نظامِ حکومت کی برکات سمیٹنے کے لیے متفق ہی نہیں ہو رہے۔ بانیانِ پاکستان نے واضح الفاظ اور اپنے غیر مبہم کردار سے عیاں کر دیا تھا کہ نئی مملکتِ خداداد ، پاکستان، کا نظامِ حکومت پارلیمانی ہی ہوگا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایسے ماہرِ قانون اور قانون کے پاسدار عظیم انسان نے پارلیمانی نظامِ حکومت ہی کو پاکستان کے لیے مفید قرار دیا۔ پاکستان کو مگر ''لیبارٹری'' سمجھنے والے چند طاقتور حضرات آئے روز یہاں نت نئے تجربات کرنے کے خواہاں ہیں۔
ایسے اشخاص اور گروہ ملکِ عزیز میں وزیر اعظم کی جگہ صدر صاحب کو سامنے لا کر اب ایک نیا تجربہ پھر سے کرنے کے طلبگار ہیں۔ ملک میں کئی اطراف سے ، پُراسرار انداز میں، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت کو ''متعارف'' کروانے کا مطالبہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ موجود حکومت کی کمزوری اور نامقبولیت کا تاثر گہرا ہُوا ہے تو ساتھ ہی ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ آخر اس مطالبے کا مطلب کیا ہے ؟
ہم تو سمجھتے تھے کہ پاکستان میں پہلے بھی چار بار صدارتی نظام کے نفاذ کا (تلخ) تجربہ ہو چکا ہے۔ جنرل صدر ایوب خان کی شکل میں، جنرل صدر یحییٰ خان کی صورت میں ، جنرل صدر ضیاء الحق اور جنرل صدر پرویز مشرف کی بھیس میں۔ لیکن اب پی ٹی آئی حکومت کے ایک وزیر ارشاد فرما رہے ہیں کہ ''آج تک پاکستان میں صحیح صدارتی نظامِ حکومت نافذ ہی نہیں ہُوا ۔'' اس انکشاف نے ہم سب کو حیران اور پریشان کر دیا ہے ۔
نجانے صحیح اور غلط صدارتی نظامِ حکومت کی تعریف (Definition) کیا ہوتی ہے ؟اگر ماضی قریب میں پاکستان میں بروئے کار آنے والے صدارتی نظامِ حکومت اور صدور پاکستانی عوام اور مملکتِ خداداد کے لیے اتنے ہی مفید اور ثمر آور ہوتے تو سادہ سی بات ہے کہ ملک میں آج بھی صدارتی نظام ہی کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ ایسا مگر ہُوا نہیں۔ صدارتی نظام کو اپنا بوریا بستر گول کرکے اس کی جگہ پارلیمانی نظام کو جگہ دینی پڑی ۔ ایک تاثر یہ بن رہا ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان درپردہ ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کے خواہشمند ہیں ۔ اُن کے وزرا بھی یہی گیت گا رہے ہیں۔
گزشتہ روز وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور، جناب علی محمد خان، نے اپنے ایک انٹرویو میں صدارتی نظام کے نفاذ کے بارے میں اُٹھنے والے غلغلے پر تبصرہ کرتے ہُوئے یوں کہا: '' صدارتی اور پارلیمانی دونوں نظام جمہوری ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔پاکستان میں آج تک صحیح صدارتی نظام نافذ نہیں ہوا ہے۔ حکومتی یا کابینہ کی سطح پر صدارتی نظام آزمانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ صدارتی نظام کا ایشو سوشل میڈیا سے شروع ہوا۔ پاکستان میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں آزمائے گئے لیکن دونوں کے ثمرات نہیں آئے۔
پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کبھی بھی نہیں رہا۔صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ حکومت نے اسلامی صدارتی نظام پر کسی ریفرنڈم کا فیصلہ نہیں کیا۔ فیصلہ عوام نے کرناہے۔ ملک کے لیے جو نظام بہتر ہو، وہی ہونا چاہیے''علی محمد خان مزید کہتے ہیں '' پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت کسی جماعت کی بھی ہو،اُسے باقی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کے مقابلہ میں کم ووٹ ملے ہوتے ہیں۔اسلامک صدارتی نظام میں ملنے والا ہر ووٹ اہمیت رکھے گا۔
اگر اب ملک میں صدارتی نظام آیا تو جمہوری انداز میں الیکشن کے ذریعہ مقابلہ ہوگا۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جمہوری عمل کے ذریعہ صدر منتخب نہیں ہُوئے تھے۔ پارلیمانی نظام میں چند کام کرلیے جائیں تو یہ بھی ڈیلیور کرسکتا ہے''۔ وزیر موصوف نے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ ''کونسے چند کام '' ایسے ہیں کہ جو کر لیے جائیں تو یہ نظام بھی ڈیلیور کر سکتا ہے۔
جناب علی محمد خان کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی خواہش کا جذبہ ٹھاٹھیں ماررہا ہے ۔ یہی حال تقریباً کئی دوسرے وفاقی وزراء کا ہے ۔ اس غیر آئینی مطالبے میں بعض ریٹائرڈ ہستیاں بھی شامل ہیں۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جس شئے کی پاکستان کے آئین میں سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے، اس کا مطالبہ کرکے ملک بھر میں انتشار اور افتراق پھیلانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ؟ پہلے حکومتی سطح پر ''ایک پیج'' کا الاپ کورس کی شکل میں مسلسل ساڑھے تین سال گایا جاتا رہا ہے اور اب اچانک ملک میں صدارتی نظام لاگو کرنے کی لایعنی باتوں کا شور اُٹھا دیا گیا ہے ۔
اپوزیشن کی ساری جماعتیں بیک زبان مگر صدارتی نظام کی مخالفت کرتی سنائی دے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا لہجہ البتہ بین السطور سا نظر آتا ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ صدارتی نظام کے نفاذ کے مطالبے میں پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی کی ہمنوا ہے اور کبھی وہ مخالفانہ کیمپ میں کھڑی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب،جناب لطیف کھوسہ، کا اس ضمن میں کہنا ہے :'' یہ بات درست ہے کہ پارلیمانی نظام میں اقلیتی حکومت بنتی ہے۔ الیکشن میں 30ہزار ووٹ لینے والا جیت جاتا ہے جب کہ اس کے مخالف امیدواروں کے مجموعی ووٹ ایک لاکھ بھی ہوسکتے ہیں۔
صدارتی نظام میں اگر صدر نے بدمست ہاتھی کی طرح رویہ رکھنا ہے تو ایسا صدارتی نظام نہیں چل سکتا۔ پارلیمانی نظام میں انتخابی حلقوں کی سیاست ختم کرنا ہوگی۔انتخابی حلقوں کی سیاست نے ملک میں پیسوں سے ووٹ خریدنے کی روایت ڈال دی ہے''۔ اب بھلا ایسے بیان کے کیا معنی اور مطالب کشید کیے جائیں ؟ یہ تو کنفیوژن کی ایک تازہ ترین مثال ہے اور اس میں پیپلز پارٹی کا چہرہ بھی منعکس ہوتا ہے ۔
نون لیگ البتہ کھل کر اور سینہ ٹھونک کر صدارتی نظام کے نفاذ کی مخالفت کررہی ہے ۔ کسی بھی ابہام کے بغیر ۔ نون لیگ کے تاحیات قائد جناب محمد نواز شریف نے بھی لندن میں بیٹھ کر اس مطالبے کی مخالفت کی ہے ۔ چند دن پہلے نون لیگ کے کئی رہنما (مثلاً:چوہدری جعفر اقبال، عشرت اشرف، ندیم خادم وغیرہ) جناب نواز شریف سے ملے تو ملاقات میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے غلغلے کا ذکر بھی چھڑا۔ جناب نواز شریف نے اس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا:'' ہم پارلیمانی نظام کو سبو تاژ نہیں ہونے دیں گے ۔ کچھ لوگ ملک میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے اب صدارتی نظام کو بروئے کار لانے کے متمنی ہیں۔ ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔''
قومی اسمبلی کے تازہ ترین اجلاس میں بھی صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دی گئی ہے۔ اس بازگشت کو دیکھنے اور سُننے والے واضح طور پر جانچ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے وہ کون لوگ ہیں جو صدارتی نظام کے حامی ہیں اور کون اس کے مخالف سمت میں کھڑے ہیں ۔
اس موضوع پر مقتدر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان الفاظ کی خوب گولہ باری بھی ہُوئی ہے۔ اس ''جنگ'' میں نون لیگ کے ارکانِ اسمبلی صاف الفاظ میں، اپنے قائد کے تتبع میں، صدارتی نظام کی زبردست مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔ سب سے گرجدار آواز ایم این اے اور سابق نون لیگی وفاقی وزیر ، جناب احسن اقبال، کی سنائی دی گئی ہے۔ انھوں نے بجا طور پر اور مدلل اسلوب میں کہا ہے کہ '' صدارتی نظام کو جتنا پاکستان نے بھگتا ہے، کسی اور نے نہیں بھگتا۔'' ان الفاظ میں کئی معنوں کا جہان مخفی ہے۔ پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ذہن بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے ملک میں صدارتی نظام سے کتنے بڑے بڑے نقصانات اُٹھائے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایسے ماہرِ قانون اور قانون کے پاسدار عظیم انسان نے پارلیمانی نظامِ حکومت ہی کو پاکستان کے لیے مفید قرار دیا۔ پاکستان کو مگر ''لیبارٹری'' سمجھنے والے چند طاقتور حضرات آئے روز یہاں نت نئے تجربات کرنے کے خواہاں ہیں۔
ایسے اشخاص اور گروہ ملکِ عزیز میں وزیر اعظم کی جگہ صدر صاحب کو سامنے لا کر اب ایک نیا تجربہ پھر سے کرنے کے طلبگار ہیں۔ ملک میں کئی اطراف سے ، پُراسرار انداز میں، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت کو ''متعارف'' کروانے کا مطالبہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ موجود حکومت کی کمزوری اور نامقبولیت کا تاثر گہرا ہُوا ہے تو ساتھ ہی ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ آخر اس مطالبے کا مطلب کیا ہے ؟
ہم تو سمجھتے تھے کہ پاکستان میں پہلے بھی چار بار صدارتی نظام کے نفاذ کا (تلخ) تجربہ ہو چکا ہے۔ جنرل صدر ایوب خان کی شکل میں، جنرل صدر یحییٰ خان کی صورت میں ، جنرل صدر ضیاء الحق اور جنرل صدر پرویز مشرف کی بھیس میں۔ لیکن اب پی ٹی آئی حکومت کے ایک وزیر ارشاد فرما رہے ہیں کہ ''آج تک پاکستان میں صحیح صدارتی نظامِ حکومت نافذ ہی نہیں ہُوا ۔'' اس انکشاف نے ہم سب کو حیران اور پریشان کر دیا ہے ۔
نجانے صحیح اور غلط صدارتی نظامِ حکومت کی تعریف (Definition) کیا ہوتی ہے ؟اگر ماضی قریب میں پاکستان میں بروئے کار آنے والے صدارتی نظامِ حکومت اور صدور پاکستانی عوام اور مملکتِ خداداد کے لیے اتنے ہی مفید اور ثمر آور ہوتے تو سادہ سی بات ہے کہ ملک میں آج بھی صدارتی نظام ہی کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ ایسا مگر ہُوا نہیں۔ صدارتی نظام کو اپنا بوریا بستر گول کرکے اس کی جگہ پارلیمانی نظام کو جگہ دینی پڑی ۔ ایک تاثر یہ بن رہا ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان درپردہ ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کے خواہشمند ہیں ۔ اُن کے وزرا بھی یہی گیت گا رہے ہیں۔
گزشتہ روز وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور، جناب علی محمد خان، نے اپنے ایک انٹرویو میں صدارتی نظام کے نفاذ کے بارے میں اُٹھنے والے غلغلے پر تبصرہ کرتے ہُوئے یوں کہا: '' صدارتی اور پارلیمانی دونوں نظام جمہوری ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔پاکستان میں آج تک صحیح صدارتی نظام نافذ نہیں ہوا ہے۔ حکومتی یا کابینہ کی سطح پر صدارتی نظام آزمانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ صدارتی نظام کا ایشو سوشل میڈیا سے شروع ہوا۔ پاکستان میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں آزمائے گئے لیکن دونوں کے ثمرات نہیں آئے۔
پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کبھی بھی نہیں رہا۔صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ حکومت نے اسلامی صدارتی نظام پر کسی ریفرنڈم کا فیصلہ نہیں کیا۔ فیصلہ عوام نے کرناہے۔ ملک کے لیے جو نظام بہتر ہو، وہی ہونا چاہیے''علی محمد خان مزید کہتے ہیں '' پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت کسی جماعت کی بھی ہو،اُسے باقی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کے مقابلہ میں کم ووٹ ملے ہوتے ہیں۔اسلامک صدارتی نظام میں ملنے والا ہر ووٹ اہمیت رکھے گا۔
اگر اب ملک میں صدارتی نظام آیا تو جمہوری انداز میں الیکشن کے ذریعہ مقابلہ ہوگا۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جمہوری عمل کے ذریعہ صدر منتخب نہیں ہُوئے تھے۔ پارلیمانی نظام میں چند کام کرلیے جائیں تو یہ بھی ڈیلیور کرسکتا ہے''۔ وزیر موصوف نے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ ''کونسے چند کام '' ایسے ہیں کہ جو کر لیے جائیں تو یہ نظام بھی ڈیلیور کر سکتا ہے۔
جناب علی محمد خان کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی خواہش کا جذبہ ٹھاٹھیں ماررہا ہے ۔ یہی حال تقریباً کئی دوسرے وفاقی وزراء کا ہے ۔ اس غیر آئینی مطالبے میں بعض ریٹائرڈ ہستیاں بھی شامل ہیں۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جس شئے کی پاکستان کے آئین میں سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے، اس کا مطالبہ کرکے ملک بھر میں انتشار اور افتراق پھیلانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ؟ پہلے حکومتی سطح پر ''ایک پیج'' کا الاپ کورس کی شکل میں مسلسل ساڑھے تین سال گایا جاتا رہا ہے اور اب اچانک ملک میں صدارتی نظام لاگو کرنے کی لایعنی باتوں کا شور اُٹھا دیا گیا ہے ۔
اپوزیشن کی ساری جماعتیں بیک زبان مگر صدارتی نظام کی مخالفت کرتی سنائی دے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا لہجہ البتہ بین السطور سا نظر آتا ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ صدارتی نظام کے نفاذ کے مطالبے میں پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی کی ہمنوا ہے اور کبھی وہ مخالفانہ کیمپ میں کھڑی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب،جناب لطیف کھوسہ، کا اس ضمن میں کہنا ہے :'' یہ بات درست ہے کہ پارلیمانی نظام میں اقلیتی حکومت بنتی ہے۔ الیکشن میں 30ہزار ووٹ لینے والا جیت جاتا ہے جب کہ اس کے مخالف امیدواروں کے مجموعی ووٹ ایک لاکھ بھی ہوسکتے ہیں۔
صدارتی نظام میں اگر صدر نے بدمست ہاتھی کی طرح رویہ رکھنا ہے تو ایسا صدارتی نظام نہیں چل سکتا۔ پارلیمانی نظام میں انتخابی حلقوں کی سیاست ختم کرنا ہوگی۔انتخابی حلقوں کی سیاست نے ملک میں پیسوں سے ووٹ خریدنے کی روایت ڈال دی ہے''۔ اب بھلا ایسے بیان کے کیا معنی اور مطالب کشید کیے جائیں ؟ یہ تو کنفیوژن کی ایک تازہ ترین مثال ہے اور اس میں پیپلز پارٹی کا چہرہ بھی منعکس ہوتا ہے ۔
نون لیگ البتہ کھل کر اور سینہ ٹھونک کر صدارتی نظام کے نفاذ کی مخالفت کررہی ہے ۔ کسی بھی ابہام کے بغیر ۔ نون لیگ کے تاحیات قائد جناب محمد نواز شریف نے بھی لندن میں بیٹھ کر اس مطالبے کی مخالفت کی ہے ۔ چند دن پہلے نون لیگ کے کئی رہنما (مثلاً:چوہدری جعفر اقبال، عشرت اشرف، ندیم خادم وغیرہ) جناب نواز شریف سے ملے تو ملاقات میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے غلغلے کا ذکر بھی چھڑا۔ جناب نواز شریف نے اس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا:'' ہم پارلیمانی نظام کو سبو تاژ نہیں ہونے دیں گے ۔ کچھ لوگ ملک میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے اب صدارتی نظام کو بروئے کار لانے کے متمنی ہیں۔ ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔''
قومی اسمبلی کے تازہ ترین اجلاس میں بھی صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دی گئی ہے۔ اس بازگشت کو دیکھنے اور سُننے والے واضح طور پر جانچ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے وہ کون لوگ ہیں جو صدارتی نظام کے حامی ہیں اور کون اس کے مخالف سمت میں کھڑے ہیں ۔
اس موضوع پر مقتدر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان الفاظ کی خوب گولہ باری بھی ہُوئی ہے۔ اس ''جنگ'' میں نون لیگ کے ارکانِ اسمبلی صاف الفاظ میں، اپنے قائد کے تتبع میں، صدارتی نظام کی زبردست مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔ سب سے گرجدار آواز ایم این اے اور سابق نون لیگی وفاقی وزیر ، جناب احسن اقبال، کی سنائی دی گئی ہے۔ انھوں نے بجا طور پر اور مدلل اسلوب میں کہا ہے کہ '' صدارتی نظام کو جتنا پاکستان نے بھگتا ہے، کسی اور نے نہیں بھگتا۔'' ان الفاظ میں کئی معنوں کا جہان مخفی ہے۔ پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ذہن بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے ملک میں صدارتی نظام سے کتنے بڑے بڑے نقصانات اُٹھائے ہیں۔