امن مخالف کارروائیاں روکی جائیں
نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے فیصلے نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
پاکستان کی اولین ضرورت اس وقت سیاسی اتفاق رائے اور فوری امن وامان کا قیام ہے،حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں امن قائم ہو تاکہ ہماری معاشی واقتصادی سرگرمیاں فعال ہوں اور پاکستان کے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آئے ۔ نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے فیصلے نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ہمارا امیج اقوام عالم میں متاثر ہوچکا ہے، منفی کارروائیوں کے باعث معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام جب کہ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی حد تو یہ ہے کہ پاکستانی صنعتکار بھی اپنا سرمایہ بیرونی ممالک میں منتقل کررہے ہیں ، بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح نے ہر خاندان کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم اس وقت پرامید نظروں سے حکومت اور طالبان کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کے عمل کو دیکھ رہی ہے ،ملت کا ہر فرد چاہتا ہے کہ ملک میں امن قائم ہوجائے لیکن کسی وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی غرض سے کچھ نادیدہ قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں ۔
گزشتہ روز حکومتی اورطالبان کمیٹی اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق ارکان نے امن منافی سرگرمیوں پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں مذاکراتی عمل پر انتہائی منفی اثرات ڈالیں گی اور امن مذاکرات کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ مسائل کا افہام وتفہیم سے ہی نکالا جاسکتا ہے نہ کہ ایک اندھی جنگ لڑی جائے جس میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے ، مقتدر شخصیات پرمشتمل کمیٹی قوم کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم سمیت پوری قوم کی خواہش ہے کہ یہ مذاکراتی عمل کامیابی سے ہمکنار ہو، مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام انتہائی ضروری ہے جس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ متشدد کارروائیوں سے گریز ہی مذاکرات کو کامیاب بنا سکتا ہے۔سب کو مل کر پاکستان کو ایک ترقی یافتہ مملکت بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گزشتہ روز حکومتی اورطالبان کمیٹی اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق ارکان نے امن منافی سرگرمیوں پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں مذاکراتی عمل پر انتہائی منفی اثرات ڈالیں گی اور امن مذاکرات کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ مسائل کا افہام وتفہیم سے ہی نکالا جاسکتا ہے نہ کہ ایک اندھی جنگ لڑی جائے جس میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے ، مقتدر شخصیات پرمشتمل کمیٹی قوم کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم سمیت پوری قوم کی خواہش ہے کہ یہ مذاکراتی عمل کامیابی سے ہمکنار ہو، مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام انتہائی ضروری ہے جس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ متشدد کارروائیوں سے گریز ہی مذاکرات کو کامیاب بنا سکتا ہے۔سب کو مل کر پاکستان کو ایک ترقی یافتہ مملکت بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔