گھبرائیں مت

محب وطن پاکستانیوں کی موجودگی میں ہماری حالت اتنی ابتر کیوں ہو گئی ہے ...


Syed Talat Hussain February 16, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔ یہ مثل بریگیڈیئر باسط پر صادق آتی ہے ۔ پرسوں ان کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے ۔ دوسرے ساتھیوں کو بھی کوئی زخم تک نہ آیا۔ ایک کمانڈو کے کان کے نیچے ہلکی سی خراش آئی اور بس ۔ فون پر بریگیڈیئر باسط نے مجھے اس واقعے کی جو تفصیلات بتائیں وہ جادو نگری کی کسی کہانی سے مختلف نہیں ہیں۔ سڑک پر بیٹھے ہوئے حملہ آور کو انھوں نے پہلے سے دیکھ لیا تھا ۔ لیکن وہ چونکہ موڑ کے پاس موجود تھا لہذا گاڑی کو روکنا ممکن نہیں تھا ، انھوں نے حملہ آور کو اپنی آنکھوں کے سامنے پھٹتے ہوئے دیکھا مگر نہ کوئی چَھرا لگا اور نہ ہی بم کاٹکڑا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا بڑا حملہ اتنے قریب سے ہوا ہو اور کوئی نقصان نہ ہو۔ مگر ایسا ہی ہوا ۔ بریگیڈیئر باسط کا کہنا تھا کہ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ایک نہ نظر آنے والی دیوار ان کے اور حملہ آور کے درمیان آ گئی ہو ۔ دھماکا دیکھا بھی اور سنا بھی مگر صاف بچ گئے ۔ ان کے مطابق خدا کے گھر دو ماہ پہلے دی ہوئی حاضری اور ماں باپ کی دعائیں اس مشکل وقت میں ان کے کام آ گئیں۔اس میں کوئی شک نہیں دعائیں اور عبادات بڑے امتحان ٹال دیتی ہیں ۔ نیکی کی کثرت مشکل میں ڈھال بن جاتی ہے ۔

رینجرز کے کراچی میں آپریشن پر رپورٹنگ کے لیے میری ملاقات کئی مرتبہ بریگیڈیئر باسط سے ہوئی ۔ ان کی کام پر مکمل توجہ دینے کی عادت کافی متاثر کن ہے ۔ ہر وقت اپنی یونیفارم کی ساکھ کی فکر رکھنے والے بریگیڈیئر باسط طبیعتاً انتہائی خوش مزاج اور مختلف موضوعات پر گرفت رکھنے والے ہیں ۔ یقیناً پاکستان کے ہر شعبے میں ان جیسے اوصاف رکھنے والے کم نہیں ہیں۔ اگرچہ دوسرے اچھے لوگوں کی طرح یہ سامنے نہیں آتے ۔ محب وطن پاکستانیوں کی موجودگی میں ہماری حالت اتنی ابتر کیوں ہو گئی ہے ۔ اس حقیقت میں چھپی ہوئی حکمت میری ناقص سمجھ سے باہر ہے ۔ بر یگیڈیئر باسط کے توسط سے ڈی جی رینجرز جنرل رضوان سے بھی کراچی میں کئی مرتبہ ملاقات ہوئی ، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے کام کو کرنے کے لیے جس قسم کی ٹیم کی ضرورت ہر کمانڈر کو ہوتی ہے وہ جنرل رضوان کے پاس موجود ہے۔

اسی طرح اگر کسی ٹیم کو کامیاب ہونے کے لیے اچھے کپتان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کراچی رینجرز کو دستیاب ہے ۔ اگر پرسوں کے حملے میں کوئی نقصان ہو جاتا تو یقیناً اس کے اثرات کراچی کے حالات پر منفی اور انتہائی دور رس ہوتے۔ رینجرز پر یہ نشانہ پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیا ۔ جس روز وزیر اعظم نواز شریف اسمبلی میں اپنی امن اور دوستی تقریر فرما رہے تھے اس روز رینجرز پر ایک اور خود کش حملے میں تین اہلکار شہید ہو گئے تھے ۔ ایک اطلاع کے مطابق جنرل رضوان حملے کی جگہ سے اپنے ساتھیوں سمیت کچھ دیر پہلے ہی گزرے تھے۔کراچی رینجرز کے افسران اور جوان حیرت انگیز اور کرشماتی انداز میں ان حملوں کے بدترین اثرات سے تو بچ گئے مگر بدقسمتی سے پولیس کمانڈوز میں سے بہت سے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے ۔

جمعرات کو ہونے والے ایک اور واقعے میں سندھ پولیس کے تیرہ کمانڈوز شہید ہو گئے ۔ حملہ ظاہراً ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا تھا ۔ تفصیلات کے مطابق خاص تربیت یافتہ گروپ کے یہ پولیس کمانڈوز جن کی تعداد 70 کے قریب تھی حسب طریقہ اہم شخصیات کی حفاظت پر متعین کیے جانے کے بعد بس میں بیٹھ کر سفر کا آغاز کرنے ہی والے تھے کہ یکدم دھماکا ہو گیا ۔ دھماکے کی براہ راست زد میں آنے والوں کا کچھ نہیں بچا ۔ جسموں کے پرخچے اڑ گئے ۔ نسبتا پیچھے والوں کو شدید زخم آئے ۔ ان میں سے کئی ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے ہیں ۔ کم زخمی بھی کوئی اتنے کم زخمی نہیں ہیں ۔ کسی کے کان کٹ گئے ہیں ، کسی کی آنکھ اڑ گئی ہے ، کسی کے ہاتھوں کی انگلیاں چلی گئی ہیں ، کسی کے جسم پر چمڑا جل جانے کی وجہ سے گہرے داغ پڑ گئے ہیں۔ بہرحال اس واقعے میں بھی خدا وند تعالی نے کرم کیا ۔ مزید جانی نقصان ہو سکتا تھا جو نہ ہوا۔جب محدود جگہ پر ایسا دھماکا ہوتا ہے تو اس کے کافی بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ 13 کی جگہ شہادتیں تیس بھی ہو سکتی تھیں۔ پولیس والوں کو خداوند تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور سندھ حکومت کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس نے فوری مالی مدد کا اعلان کر کے ان کا نقصان پورا کر دیا۔ منتخب حکومت ہو تو ایسی۔ جان تو آنی جانی چیز ہے اصل معاملہ مالی مدد کا ہے جو سندھ حکومت نے فوری طور پر طے کر دیا ۔

اس واقعے سے ایک دن پہلے پشاور کے ایک گائوں میں امن لشکر کے ممبران جو تقریبا ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،شہید کر دیے گئے ۔ بوقت فجر ان کے گھر پر حملے کے بعد عورتوں اور بچوں کو ایک کمرے میں بند کر کے مردوں کو کھیتوں میں لے جا کر گولیوں سے اڑا دیا گیا۔اخبار میں چھپی ہوئی ایک خبر کے مطابق نو سال کی ایک بچی کو اپنے والد کے قتل سمیت یہ تمام مناظر دکھائے گئے تاکہ وہ واپس جا کر سب کو بتا پائے کہ کیا ہوا تھا ۔ دوسرے واقعات کی بھرمار میں اس گائوں کی کہانی چھپ گئی ہے ۔ ہمیں علم نہیں ہے کہ متاثرہ خاندان کی خواتین کا کیا حال ہوا ہو گا ۔ بچے کس حالت میں ہوں گے ، میرا خیال ہے کہ عمران خان کی جاری کی ہوئی پریس ریلیز نے عورتوں اور بچوں کے زخم بہت حد تک مندمل کر دیے ہوں گے ۔ عظیم قائد نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بات چیت کے عمل کے خلاف سازش بھی قرار دیا ۔ مجھ پر یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مذمت واقعے کی کر رہے ہیں یا سازش کی ۔جو بھی کہا ہو گا ٹھیک کہا ہو گا عمران خان ہیں وہ غلط کیسے ہو سکتے ہیں ؟وزیر اعظم نواز شریف کی طرح جو ان تمام واقعات کے دوران غیر حاضر تھے ۔ مگر بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کے تحفظ کے لیے جانفشانی سے کام بھی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے ترکی، افغانستان اور پاکستان کو اکٹھا کرنا روز مرہ کے واقعات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اتنا ہی اہم جتنا کہ کرکٹ بورڈ کے مسائل کے حل کے لیے نجم سیٹھی جیسی ہردلعزیز شخصیت کی تعیناتی ہے۔ اسی قسم کے اقدامات کے ذریعے امن حاصل کر لیا جائے گا ۔ ہمیں ان واقعات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ زندگی آنی جانی ہے ۔ بریگیڈیئر باسط اور درجنوں کمانڈوز بچ گئے ہیں ۔ یہ ملک بھی بچ جائے گا۔ امن قائم ہو گا ۔ گھبرائیں مت ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں