بھتا وصولی کے انداز۔۔۔

شریفانہ طریقے سے بھتہ وصول کرنے والوں میں سرفہرست وہ ہیں جنھیں عرف عام میں مسیحا کہا جاتا ہے...

''بھتے'' کا لفظ سنتے ہی زور زبردستی سے چھینی گئی وہ موٹی رقم ذہن میں آتی ہے جو جرائم پیشہ افراد اسلحہ اور بدمعاشی کے زور پر حاصل کرکے عیش کرتے ہیں۔ لیکن ''بھتہ وصولی'' کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں۔ جنھیں نہایت شریفانہ نام دے کر انھیں قانونی تحفظ عطا کردیا گیا ہے۔ لیکن ہم سب اسے دینے پہ اس لیے مجبور ہیں کہ اس ملک میں جہاں لایعنی بحثوں میں الجھا کر اصل مسائل کی طرف سے پہلو تہی کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں اور آیندہ بھی جاری رہیں گی۔ لیکن کوئی مثبت نتیجہ پھر بھی برآمد نہیں ہوگا۔۔۔وجہ سب جانتے ہیں۔ اب اس مملکت خداداد میں سب کچھ بہت واضح اور صاف صاف لکھا نظر آرہا ہے۔ یہ پانی پہ لکھی تحریر نہیں ہے، جو کسی جادو گر ہی کو دکھائی دیتی ہو، تمام تر منظر پوری طرح عیاں ہے۔ سارا منظر نامہ، اسکرپٹ، مکالمے اور اداکاری کرنے والی کٹھ پتلیاں، سب بے نقاب ہیں۔ ان کٹھ پتلیوں کو نچانے والے ہاتھ اور ان ہاتھوں کی ڈوریاں کہاں کہاں تک ہیں، یہ بھی لوگ بخوبی جانتے ہیں۔

پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے عوام یہ بھی جان گئے ہیں کہ ٹیلی ویژن اسکرین پہ اپنی اپنی کرسیوں پہ بیٹھی تنخواہ دار کٹھ پتلیوں کے سر پر کس کی ٹوپی، کس کی پگڑی اور کس کا کلاہ ہے۔ان کے کانوں میں لگے خفیہ مائیک سے انھیں کون اور کیا ہدایات دے رہا ہے۔ لب لباب یہ کہ کسی بھی طرح عوام کو مہنگائی کی مشین میں کس کر ان کا تیل نکالا جائے، حکمرانوں کو خزانے بھر لے جائیں اور عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جائے۔ جہاں پولیس والے سڑکوں پہ حادثوں کا شکار ہونے والے زخمیوں اور مرنے والوں کی لاشوں پہ اپنے اپنے تھانوں کی حدود پہ لڑتے ہوں۔ خواہ اس دوران حادثے کا شکار زخمی زیادہ خون بہہ جانے کی بنا پر یوں ہی دم توڑ دے۔ لیکن پولیس اہلکار ٹس سے مس نہ ہوں اور وہاں سے راہ فرار اختیار کرلیں۔ لیکن یہی پولیس والے ایک آٹے کی بوری کی ملکیت کے دعویدار ہوں تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ ملک ہر سطح پر درندوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ لیکن جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔

پچھلے ہفتے یقینا اندرون سندھ کے ایک شہر سے متعلق یہ خبر سب نے پڑھی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ آٹے کی ایک بوری جو گاڑی سے سڑک کے درمیان گرگئی تھی، اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے دو تھانوں کے پولیس اہلکار آپس میں لڑ پڑے، دونوں تھانے والے اس آٹے کی بوری کو اپنی حدود میں ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔۔۔۔!!۔۔۔۔کاش انسانی جان کی بھی کوئی اہمیت ہوتی۔۔۔۔!!۔۔۔۔لیکن کیوں ہوتی۔۔۔۔؟۔۔۔۔یہ کوئی یورپ، امریکا، کینیڈا یا جاپان یا چین ہے۔ جہاں روشن دان میں پھنسی ہوئی بلی، جھاڑیوں میں اٹکی بطخ یا خشکی پہ نڈھال کچھوا بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا، کہ یہ بھی جاندار ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں۔۔۔۔ مجموعی طور پر جب ہر صاحب ثروت اور صاحب اقتدار کا مطمع نظر دولت کمانا ہو تو شریفانہ اور مہذبانہ بھتہ وصولی سے آپ کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔


شریفانہ طریقے سے بھتہ وصول کرنے والوں میں سرفہرست وہ ہیں جنھیں عرف عام میں مسیحا کہا جاتا ہے، یعنی طب کے پیشے سے وابستہ ڈاکٹر حضرات، صرف دو فیصد کو چھوڑ کر اٹھانوے فیصد ڈاکٹر حضرات، اپنے اپنے ذاتی کلینک اور اسپتالوں میں موٹی موٹی فیسوں کے نام پر جو رقم وصول کر رہے ہیں، کیا وہ بھتے کے زمرے میں نہیں آتے۔۔۔؟ کہیں بھی اور کسی بھی اسپتال میں چلے جایے، ناک، آنکھ، کان، آرتھوپیڈک، فزیو تھراپسٹ سے لے کر لیبارٹری کے بلا جواز ٹیسٹ، ایکسرے اور الٹر ساؤنڈ کی بھاری فیسوں کی ادائیگی کے بغیر اندر قدم نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔کیا یہ بھتہ وصولی کا جدید اور شریفانہ انداز نہیں ہے۔ دولت کمانے کے اور بھی طریقے ہیں، لیکن پاکستان میں تیزی سے دولت مند بننے کے لیے جہاں دو نمبر کے کاروبار اور جعلی دواؤں کی فروخت، معاون ثابت ہوتی ہے، وہیں اب مسیحاؤں کی جادوگری زیادہ معتبر ٹھہرتی ہے، کیونکہ اس بھتے کی وصولی میں عزت بہت ہے، کیونکہ M.B.B.S کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے ''قوم کی خدمت'' کے سلوگن کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ان مسیحاؤں کو اپنی مہنگی مہنگی دوائیں اور انجکشن مریضوں کے نسخوں میں لکھنے کے عوض پرکشش مراعات کا جو پیکیج دیتی ہیں۔ ان کا حال احوال آپ کسی بھی ایسے میڈیکل ریپ سے باآسانی معلوم کرسکتے ہیں، جسے کم ازکم اس شعبے میں دو تین سال ضرور ہوچکے ہوں۔

لوگوں کو ڈرا دھمکا کر، اغوا کرکے بھتہ وصول کرنا تو سب کو نظر آتا ہے۔ لیکن پرائیویٹ اسکول ہر سال فیسوں میں من مانا اضافہ کرنے کے علاوہ، آئے دن، کوئی نہ کوئی دن منانے کے لیے، پکنک اور فنکشن کے نام پر جو اضافی موٹی رقم زبردستی والدین سے وصول کی جاتی ہے اسے آپ کیا نام دیں گے، کیا اسے بھتہ نہیں کہنا چاہیے، کہ فلاں دکان سے یونیفارم خریدو، فلاں سے کاپیاں اور کتابیں۔۔۔۔بے ضمیر اور بے حس اسکول مالکان کو بھی بھتہ مافیا کے طور پر مجرم ٹھہرانا چاہیے۔ اور صرف اسکول ہی کیوں کالجز اور یونیورسٹیاں بھی اسی مافیا کے ساتھی ہیں جو تعلیم کو فروخت کرکے بیرون ملک اپنی جائیدادیں اور بینک بیلنس بنا رہے ہیں۔

اگر گردن زدنی نہ ٹھہرایا جائے تو یہ پوچھنے کا حق تو سبھی کو ہے کہ فن و ثقافت کے نام پر جومیلے جا رہے ہیں، جن کا ٹکٹ ہزاروں میں ہے کیا اسے کسی بھی تہذیب کا ورثہ کہا جائے یا اسے بھی اس صف میں شامل کرلیا جائے جہاں ادب آرٹ اور ثقافت کے نام پر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ گویا اب تہذیبی ورثوں کی نمائش محض مخصوص اداروں اور سیاسی لوگوں کے بینک بیلنس میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے۔ کیسا کاروباری ذہن پایا ہے، بعض لوگوں نے کہ کس طرح دس روپے کے سو اور ہزار کے لاکھ بنائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا کاروباری ذہن رکھنے والے نہ وزارت خزانہ کو میسر ہیں نہ ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو کیونکہ بھتہ وصولی کے ماہر اپنے اپنے دور اقتدار میں صرف اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔۔۔۔پس اپنا سر پیٹیے اور منہ لپیٹ کر سو جایے کہ آپ کے ہر طرف بھتہ مافیا کا جال بچھا ہے۔ جو مختلف ناموں کے برانڈ کے ساتھ آپ کی جیب سے پیسہ نکلوانے کے ماہر ہیں یہ بات کبھی نہ بھولیے گا، کہ کوؤں، بھتہ مافیا، مجرموں، چوروں اور ڈاکوؤں میں ان دیکھا اتحاد ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی جیسا سیاست دانوں اور سرمایہ داروں میں۔۔۔!
Load Next Story