سیاسی مکالمے کی ضرورت

وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے سوال جواب کے پروگرام میں کھل کراپنا اور حکومت کا مافی الضمیر بیان کیا


Editorial January 25, 2022
وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے سوال جواب کے پروگرام میں کھل کراپنا اور حکومت کا مافی الضمیر بیان کیا۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک لوٹنے والوں سے مفاہمت اور سمجھوتہ غداری ہوگی، اتوار کو ''آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ'' میں براہ راست عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے خلاف ہی تو سیاست میں آیا تھا ورنہ مجھے کیا ضرورت تھی ان لوگوں کی گالیاں سننے کی، انھوں نے اپوزیشن لیڈر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

انھوں نے کہا کہ میں خبر دار کرتا ہوں کہ میں اقتدار سے نکل گیا تو زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا، انھوں نے کہا میں نے حال ہی میں ایک آرٹیکل لکھا تو اس پرکہا گیا کہ دین کے پیچھے چھپ رہا ہوں ، میرے سیاست میں آنے کا مقصد یہی تھا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانی ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ دودھ کی نہریں بہا دوں گا ، ملک کو ایشیائی ٹائیگر بناؤں گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے سوال جواب کے پروگرام میں کھل کراپنا اور حکومت کا مافی الضمیر بیان کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وزیراعظم پاکستان عوام کی معاشی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کی حکومت اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام بھی کررہی ہے۔

تاہم ملکی آئین و قانون اور طے شدہ قواعد وضوابط کی وجہ سے حکومت کئی جگہ پھنس جاتی ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی وہ کام نہیں کرسکتی جس کے کرنے سے عوام کے حالات زندگی میں لازمی بہتری آسکتی ہے۔

آئین کی مسلمہ پابندیوں اور قانونی پیرا میٹر میں حکومت پارلیمنٹ اورعوام کو جوابدہ ہے، بہرحال انھوں نے آئینی اعتبار سے فرد اور ریاست کے معاملات میں جمہوری اقدار، ملکی سلامتی، خارجہ پالیسی، ملکی معیشت اور سفارتی تعلقات کے حوالوں سے اپنی پالیسیوں سے عوام اور ووٹرز کو آگاہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے، انھوں نے جمہوری معاملات، حکومتی حکمت عملی، بعض پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں اگر عوام کو جو وضاحتیں درکار تھیں تو انھیں اچھے طریقے سے بیان کردیا ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام اور رائے دہندگان سے سوال اور جواب کا یہ سلسلہ اچھا ہے اور جاری رہنا چاہیے ۔

عوام الناس کو وزیر اعظم کی تقریر سے فہم و فراست کے ساتھ ملکی معاملات کی دل نشین انداز میں آگہی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ملکی سسٹم اور سیاسی امکانات کے حوالے سے وزیراعظم کی باتیں معنی خیز تھیں،جن کی وجہ سے ملکی سیاست میں ایک غیر ضروری التباس اور ابہام نے جنم لیا، اور عوام کو مخمصہ میں ڈال دیا۔

ان کا یہ کہہ دینا کہ اگر وہ حکومت سے باہر ہوگئے تو بہت خطرناک ہوں گے اور ان کے مخالفین کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی،حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بیان سے دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے کی افواہوں میں تیزی آ گئی ہے اور سازشی تھیوریوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔

ادھر ملک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ ملک میں مکالمہ کا در بند ہوگیا ہے اور حکومت اور اپوزیشن میں صورتحال جمہوری افہام ، صلح صفائی اور مکالمہ کا امکان نہیں رہا، سیاست میں تلخی کا پیدا ہونا ملکی مفاد میں نہیں ، سیاستدانوں اور عوام کو جمہوری شائستگی، سنجیدگی اور رواداری سے حالات کو معمول پر لانے کی پیش رفت پر زور دینا چاہیے۔

سیاسی مبصرین نے وزیر اعظم کے اپنے ووٹرز سے گفتگو کو سیاسی رخ پر آتشیں بنانے پر معنی خیز قرار دیا اور کہا ہے کہ جہاں تک سابقہ حکومت کے لوگوں پر کرپشن مقدمات کا تعلق ہے تو اسے عدالتی سطح پر مروجہ قانونی طریقہ سے طے کیا جانا چاہیے۔ ایسے قانونی مسائل عدالت عدلیہ، پھر عدالت عظمی کے فیصلوں کی روشنی میں ہوتے ہیں اور یہی آئینی اور قانونی طریقہ کار ہے، سیاسی حوالوں سے میڈیا پر جارحانہ اظہار خیال سیاست کو صحت مند جمہوری اقدار سے آراستہ نہیں کرسکتا۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو سیاسی بحران کو بند گلی میں لے کر نہیں جانا چاہیے، مقدمات کے فیصلوں کے لیے آئین و قانون کے فورمز موجود ہیں، سیاسی قائدین کو اپنے سیاسی معاملات حل کرنے کے لیے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر سنگین قسم کے الزامات عائد کرکے عوام کو اشتعال دلانا، مخالف کی کردار کشی کرنا، عوام کو ملکی معاملات کے حوالے سے گمراہ کرنا، جمہوری سیاست نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

قومی سیاستدان اکثر ایسے بیانات اس وقت دیتے ہیں جب ان کے پاس عوام کی فلاح کا کوئی خیال یا ایجنڈا نہیں ہوتا اور وہ خود کو مقبول بنانے اور سیاسی کامیابی کے لیے سینگین سے سنگین الزامات عائد کرنے سے بھی چوکتے ہیں۔

حزب اقتدار پانچ سال پورے کرنے کی بات کرتی ہے تو تصادم اور سیاسی جھگڑے کی کون سی بات ہے، ملک کو سیاسی طور پر الیکشن کی چوائس دینے کے لیے درست جمہوری فیصلے کیے جائیں، یہی صائب طریقہ کار ہے، کسی تنازع اور بیان بازی کے بغیر ملک کو درست جمہوری راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جمہوری راستے کے انتخاب میں کسی کو بھی کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پراپیگنڈہ اور جعلی خبریں پھیلا کر ملک میں تباہی کی باتیں کرنے والے مافیاز ہیں، ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ ان کی بیرون ملک جائیدادوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، انھوں نے پہلے اپنے بچے باہر بھگا دیے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تین بار کے وزیراعظم کے بیٹے باہر بھاگے ہوں، بدعنوان لوگوں کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں، میرے اوپر اپوزیشن نے الزام لگایا تو میں نے آٹھ ماہ میں ایک ایک چیز کا جواب دیا لیکن انھیں معاشرے میں ایسے پروٹوکول دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ بڑے ڈیموکریٹ ہیں۔

مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپوزیشن لیڈر سے نہیں ملتا، میں اس کو اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ قوم کا مجرم سمجھتا ہوں، یہ ایوان میں کھڑے ہو کر ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے تقریریں کرتا ہے، اس نے 8 ارب روپے کے گھپلوں کا نیب کو جواب دینا ہے، عدلیہ سے کہتا ہوں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پران کے کیس کی سماعت کرے، یہ اپنے چپڑاسیوں کے نام پر کروڑوں روپے اکاؤنٹ میں بھجوانے کا جواب نہیں دے سکا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ملک پر مارشل لا سے زیادہ ظلم ان دو خاندانوں کو این آر او دے کر کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد، نیب آزاد ہے۔

ہم وائٹ کالر کرائم کی مہارت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ نیب کو مطلوب لوگ بڑے بڑے وکیل کر لیتے ہیں جو تاریخوں پر تاریخیں لیتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں سرکاری وکیل اتنے ماہر نہیں ہوتے۔ ہم سب نے ان کے خلاف مل کر لڑنا ہے، اس ملک میں سیاست دان ہی نہیں بلکہ مافیاز بیٹھے ہیں جو مل کر ذخیرہ اندوزی کر کے قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، ان پر بنائی گئی ریگولیٹری اتھارٹیاں ان کو اس وجہ سے کنٹرول نہیں کر پا رہیں کہ یہ مافیا عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتا ہے، اس وقت 800 حکم امتناعی ہیں، اڑھائی سو ارب روپے یہاں پھنسے ہیں۔

کورونا جیسا بحران 100 سال میں بھی نہیں آیا، اس سے ساری دنیا میں غربت بڑھی ہے، بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر، سرکلر ڈیٹ 480 ارب روپے سے تجاوز کر چکا تھا، ڈالر افغانستان اسمگل ہونے کی وجہ سے روپے پر دباؤ تھا، پھر کورونا کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی وبا آگئی۔ وزیر اعظم نے کہا مہنگائی سے ہمارا تنخواہ دار طبقہ زیادہ متاثر ہوا ہے، انھوں نے کہا کہ تعلیم کو ماضی میں اتنی ترجیح نہیں دی گئی۔

تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہم 60 لاکھ مستحق نوجوانوں کو میرٹ پر اسکالر شپس دینے جا رہے ہیں، اس پر 47 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، ہم نے ملک میں تین مختلف نصاب ختم کر کے پہلی بار مشاورت کے ساتھ پانچویں تک یکساں نصاب لایا ہے، انھوں نے کہا تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف اپنی موجودہ مدت پوری کرے گی بلکہ آیندہ پانچ سال بھی حکومت کرے گی۔

امید کی جانی چاہیے کہ وزیر اعظم کی میڈیا پر گفتگو کو ملک میں مکالمہ کی صحت مند فضا کے تناظر میں پذیری ملے گی، اسے بے معنی بحث کا موضوع نہیں بنانا چاہیے، ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، عوام کو چیلنجز درپیش ہیں، پہلے ان مسائل کو حل کیا جائے، پھر ایسے معاملات کو زیربحث لایا جائے، تاکہ ملک میں جمہوریت کو آگے جانے کا موقع مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں