موئن جو دڑو اور سندھ فیسٹول کچھ تجاویز…آخری حصہ

بلاول بھٹو زرداری کو سب سے پہلے تو سندھ کے اندر خاص طور پر اندرون سندھ میں ڈاکو راج پر کنٹرول کروانا ہو گا...

موئن جو دڑو پر آنے والے لوگوں کے لیے بیٹھنے کا کوئی خاص انتظام ہے اور نہ ہی عام آدمیوں کے لیے کوئی کھانے پینے کا ہوٹل موجود ہے۔ پانی پینے کے واٹر کولرز جو خراب پڑے تھے ابھی تک مرمت نہیں کیے ہیں۔ آر سی ڈی (Regional Corporate Development) کا میموریل جو پاکستان، ایران اور ترکی کی دوستی کے سلسلے میں موئن جو دڑو میں لگایا گیا تھا وہ شاید اب مرمت کے بعد دوبارہ لگایا گیا ہے۔ اتنی بڑی بین الاقوامی جگہ پر انٹرنیٹ کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ لاڑکانہ سے موئن جو دڑو کے لیے ڈائریکٹ کوئی بس یا ویگن نہیں ہے۔ میوزیم میں سے جو نوادرات چوری ہو گئے تھے ان کی واپسی کا کچھ نہیں ہوا ہے۔ وہاں سے جو Stamps ملی تھیں ان کی زبان کو اب تک صحیح طریقے سے Decipher نہیں کیا گیا ہے۔ باقی حصے کی کھدائی نہیں ہو سکی ہے۔ اسٹوپا کی حالت خستہ ہے اور اس کو Cap کر کے اس کی اصلیت اور خوبصورتی کو مسخ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جان مارشل کی گاڑی اور اس کے گھر کے فرنیچر کی کوئی مرمت نہیں ہو سکی ہے اور اگر اس کو اصلی حالت میں نہیں لا سکتے ہیں تو کم از کم اس کو مزید خراب ہونے سے بچایا جائے۔ جو ٹیوب ویلز ہٹائے گئے تھے ان کے کھڈے اور گڑھوں کو بند نہیں کیا گیا ہے جس میں کبھی بھی کوئی انسانی جان کا نقصان ہو سکتا ہے۔ وہاں پر کام کرنے والے ملازم دل سے کام شاید اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے رہنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لیے ان کے لیے رہائشی اسکیم بنائی جائے، فرسٹ ایڈ سہولتیں نہیں ہیں اور Basic Health Units موئن جو دڑو سے دور ہے اور اگر آنے والوں میں سے کسی کو صحت کا شدید مسئلہ ہو جائے تو اسے لاڑکانہ لے جانا پڑے گا۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے ایک Play Land ہونا چاہیے اور lavatories ابھی تک شروع نہیں ہو سکیں جو انسان کی اہم ضرورت ہے، الیکٹرک کولرز کی مرمت نہیں ہوئی اور اگر ہو بھی تو وہاں کا پانی میٹھا نہیں ہے اس لیے لوگ کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں جو ایک اضافی وزن ہے۔ یہاں پر ایک مکمل لائبریری ہونی چاہیے جہاں پر Audio and Video کی سہولت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ PCO کا ہونا ضروری ہے حالانکہ اب موبائل فون کا زمانہ ہے۔ اب جب یہاں پر آرکیالوجی کے اسٹوڈنٹس گھومنے آئیں تو اس لائبریری میں کمپیوٹر اور ویب سائٹ کے ساتھ کتابیں ہونی چاہئیں جس سے ریسرچ کرنے والے اپنے مقصد کی کچھ چیزیں حاصل کر سکیں۔ ایک Comments کا رجسٹر رکھا جائے تا کہ گھومنے والے اپنے تاثرات لکھیں جو حکومت کو ہر ہفتے ارسال کیے جائیں۔

مزید یہ کہ یہاں پر نہ تو آگ بجھانے والے آلات ہیں، نہ کوئی فائر بریگیڈ ہے، نہ ہی خطرے کے الارم کا نظام ہے۔ ایمرجنسی کے موقعے پر قابو پانے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر آنے والوں کو چیک کرنے کے لیے Detector ہونا چاہیے اور آنے جانے والے پر نظر رکھی جائے تا کہ اس سائٹ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ ایک ٹاسک فورس بنائی جائے اگر ہم چاہتے ہیں کہ دیکھنے والوں سے اس نازک سائٹ کی حفاظت ہو سکے تو پھر الیکٹرک چیئر کا نظام بنایا جائے موئن جو دڑو کے باہر Bill Board لگائے جائیں جس میں سائٹ کی خوبصورتی کے لیے تشہیر کے سلوگنز لکھے ہوئے ہوں۔

یہ بات بڑی خوشی کی ہے کہ پی پی پی کے Patron-in-Chief بلاول بھٹو زرداری کو موئن جو دڑو کو بچانے کا خیال آیا اور اس نے سندھ فیسٹیول کے ذریعے ساری دنیا کو 5 ہزار سال قبل مسیح کے ورثے کو جو پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہے روشناس کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ دنیا سے اس کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے امداد بھی حاصل کر سکیں۔ سندھ اور پاکستان کے اندر اس کے علاوہ اور بہت ساری آرکیالوجیکل سائٹس ہیں جو بھی توجہ کی طالب ہیں۔ اس فیسٹیول کے افتتاح کے لیے موئن جو دڑو کی سائٹ کو منتخب کیا تا کہ وہ زیادہ مرکز نگاہ بنیں۔ بہرحال اس پر بہت سارے اعتراضات بھی ہوتے رہے ہیں۔


اب بات یہ ہے کہ وہاں پر صرف 5 سو وہ وی آئی پی لوگ تھے جن کی شاید ایک اہمیت ہو مگر اس سے زیادہ ان ماہرین کی اہمیت تھی جو اس سائٹ کو بچانا چاہتے ہیں۔ اب اس پروگرام پر بڑی رقم خرچ کی گئی جس میں خاص طور پر سنگرز اور دوسرے فنکاروں کو بلا کر مہمانوں Entertain کیا گیا ۔ اب آپ پیچھے ماضی میں چلے جائیں تو بھٹو نے ماہرین کی کانفرنس بلائی جس میں پوری دنیا کے آرکیالوجی کے Experts نے شرکت کی اور نتیجے میں ایک فیصلہ ہو گیا اور یونیسکو نے امداد بھی دی اور کام بھی شروع ہو گیا۔ سندھ فیسٹیول میں سندھ کے کلچر کو دنیا میں متعارف کرنا اچھی بات ہے مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ وہاں کے رہنے والوں کو یہ چیزیں جب اچھی لگیں گی جب وہ خوشحال ہوں گے، امن ہو گا، ترقی ہو گی، ذہنی آزادی ہو گی۔

بلاول بھٹو زرداری کو سب سے پہلے تو سندھ کے اندر خاص طور پر اندرون سندھ میں ڈاکو راج پر کنٹرول کروانا ہو گا جس کے لیے سندھ میں اس کی پارٹی کی حکومت ہے۔ ضلع خیر پور میرس، شکار پور، لاڑکانہ، قمبر، شہداد کوٹ اور جیکب آباد میں کتنے گھروں کے افراد ڈاکوؤں کے پاس مغوی ہیں جن کے گھر میں ماتم اور مایوسی کا سماں ہے پولیس بے بس ہے اس لیے کہ وہ ان پتھارے داروں کو کچھ نہیں کہہ سکتے جن کو سیاسی طاقت کا نشہ ہے اور اگر کوئی ایماندار اور دلیر پولیس افسر ایکشن دکھاتا ہے تو اسے تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غریبوں کے بچے بی۔ اے اور ایم۔ اے کی ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر سیاسی لیڈروں کے بنگلوں اور دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور نوکری صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو پیسے دیتے ہیں یا پھر وہ جو ان سیاسی طاقتوں کے کارندے ہیں۔ سندھ میں لوگ صحت اور تعلیم کے پیچھے دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں مگر انھیں حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اگر بلاول چاہتے ہیں کہ خوشحالی ہو تو وہ جا کر قبائلی جھگڑے ختم کروائیں جس کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں، بچے اور عورتیں بندوق کے سائے میں پل رہے ہیں۔

اسکول بند ہو جاتے ہیں، زمین کاشت نہیں کی جاتی، راستے میں ایک دوسرے کو مارنے کے لیے ملک الموت بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔سندھ کی زمین سیم اور تھور سے تباہ ہو رہی ہے، مچھیرے صدیوں سے جن بستیوں میں رہتے تھے انھیں چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔ دریائے سندھ میں ریت اڑ رہی ہے، لوگ میٹھے پانی کو ترستے ہیں اگر آپ کو لوگوں کی زندگی سے محبت ہے تو انڈسٹریز سے نکلنے والے زہریلے پانی کو رکوا دیں جو دریائے سندھ اور دوسرے میٹھے پانی کی جھیلوں میں پڑ رہا ہے جہاں کا پانی کراچی اور حیدر آباد والے پیتے ہیں اور کئی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ سندھ کے قدرتی وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں جو ہیں ان میں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ گورکھ ہل اسٹیشن، رنی کوٹ، کینجھر، منچھر اور ہالیجہ جھیلوں کا کیا حشر ہے۔ کوٹ ڈیجی، عمر کوٹ اور بہت سارے ورثے ہیں اس کے لیے حکومت سندھ کیا کر رہی ہے حالانکہ پیسے بھی ہیں مگر وہ لوگ نہیں ہیں جنھیں اپنے کلچر سے پیار ہو۔ اپنی دھرتی سے محبت ہو۔ آپ بھٹو کی طرح کھلی کچہری نہیں لگا سکتے جس میں ہر عام آدمی آ کر اپنا دکھ اور مجبوری بیان کرتا تھا جسے وہاں پر ہی حل کیا جاتا تھا کیونکہ پورے پاکستان سے افسر موجود ہوتے تھے۔

اس لیے بھٹو کو عوامی لیڈر کہتے تھے۔ اب سیکیورٹی پرابلمز ہیں آپ صرف چند لوگوں کے درمیان رہ سکتے ہیں اور وہ جو کہیں گے وہی آپ کے لیے سب کچھ ہو گا۔اگر آپ کو موئن جو دڑو کے ساتھ پاکستان اور سندھ کے ورثے کو بچانا ہے تو ان بین الاقوامی اداروں سے خود بات کریں، خود ملیں اور خود ریسرچ کریں اور ملک میں ماہرین کے ساتھ ملیں ان سے تجویزیں لیں باقی اپنی پارٹی کے لوگوں کو اس میں نہ لائیں۔ پرنٹ میڈیا میں مضامین کو گراس روٹ لیول پر پڑھیں اور الیکٹرانک میڈیا کی کوریج کو اصلی perspective میں واچ کریں۔ اس کے علاوہ یہ ذہن میں رکھیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں وہ لوگ نہیں جو عوام سے جھوٹے وعدے کر کے گم ہو جاتے ہیں اور پھر لوٹ کر ادھر کا رخ نہیں کرتے جس کا اثر پارٹی اور اس کے سربراہ پر پڑتا ہے۔ سیاسی لیڈرز کو گھوم کر عوام کے پاس ہی آنا ہے۔
Load Next Story