صدارتی نظام سے پہلے ’’اخلاقی نظام‘‘ کی ضرورت
موجودہ سسٹم سے ہی اگر ہم فائدہ نہیں لے سکتے تو پھر نئے نظام میں کیسے تبدیلی لے آئیں گے؟
LONDON:
ہمارے ملک کی ایک عام روایت ہے ''دھیان بٹانا'' یا یہ کہہ لیں کہ یہ ایک عام مشغلہ بھی ہے۔ مطلب جب آپ کسی سنجیدہ مسئلے پر پھنسے ہوں تو آپ کے ماتحت عملہ یا افسران یا نچلا عملہ اُس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپ کا دھیان بٹانے کی کوشش کرے گا۔
آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں تو بسا اوقات ایک آدھ آفیسر آپ کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑ دے گا کہ ساری میٹنگ کشت زعفران بن جائے گی اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی حال آج کل حکومت کا ہے کہ جب بھی حکمران کسی مسئلے پر پھنستے ہیں تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے آج کل ہمارے ہاں ''صدارتی نظام'' کی بحث جاری ہے۔ اس بارے میں بحث کورونا وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا میں بھی دھڑا دھڑ اظہارِ خیال ہو رہا ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل نے تو باقاعدہ ریفرنڈم کرا ڈالا،صدارتی نظام کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے حق میں اپنی رائے ظاہرکرنے پر اکسایا، اور یقین دلایا کہ اگر بہت بھاری تعداد میں لوگ میدان میں نکل آئے تو پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھے گا،اور وہ سنجیدگی سے اس بارے میں غور کرنے لگیں گے۔ الغرض ہر ٹی وی چینل پر بحث جاری ہے۔
نامی گرامی اینکر صدارتی اور پارلیمانی نظام کی کشتی کرانے میں مصروف ہیں۔اپوزیشن اور حکومت دونوں کے زعما ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں،اس شوشے کی ایجاد ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔اور تو اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دھواں دھار تقریریں ہو رہی ہیں۔لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس نظام کو کیسے لانا ہے؟ قانون کیسے تبدیل کرنا ہے؟ کس نے کرنا ہے؟ یا اس کا کون کون اسٹیک ہولڈر ہے۔
خیر آگے چلنے سے پہلے صدارتی نظام پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اس وقت بہت سے ملکوں میں صدارتی نظام رائج ہے جسے کے مطابق صدر کو براہ راست عوام منتخب کرتے ہیں، جس کے بعد وہ تمام صوبوں یا ریاستوں میں سے اپنے لوگ منتخب کرتا ہے اور یوں وہ پورے ملک پر ایک خاص مدت کے لیے حکمرانی کرتا ہے۔ اس قسم کا نظام امریکا، افغانستان، ارجنٹائن، میکسیکو، میانمار، برازیل، چلی، کولمبیا، انڈونیشیا، کینیا، کولمبیا اور سوڈان وغیرہ میں رائج ہے۔
جب کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں وزیراعظم ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ، جب کہ صدارتی نظام کی باتیں یہاں اُس وقت زور پکڑتی ہیں جب الیکشن قریب آرہے ہوتے ہیں اور حکومت وقت کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی ہو۔ اس کے علاوہ خلافت نظام اور اسلامی نظام کی باتیں بھی عام ہونے لگتی ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کا دھیان بٹانا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو ہم کچھ کر نہیں پائے اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی نظام خراب ہے۔
کیونکہ جن کو لایا گیا ہوتا ہے ان کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خراب ہیں اس لیے ملبہ نظام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ویسے بھی پاکستان میں صدارتی نظام کی باتیں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوا کرتی ہیں، یعنی مکمل صدارتی نظام کا تجربہ ایوب خان نے ہی 1962 سے 1969 تک کیا تھا۔ باقی ادوار مارشل لا کے تھے جو کہ بذاتِ خود سینٹرلائزڈ یا سب کچھ مرکز کے تحت لانے والے ہوتے ہیں۔
ایوب خان کا 58 سے 62 تک مارشل لا، پھر یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لا، ان ساروں میں کمان ایک شخص میں مجتمع ہوتی ہے جو کہ صدارتی نظام میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ طاقت کی مرکزیت ہے۔
سب سے زیادہ سوچنے کی چیز یہ ہے کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو موقع ہی کب دیا، یعنی کیا ہم نے اس نظام کو پوری طرح Implementکیا؟ آج بھی اسمبلیوں میں چلے جائیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کورم پورا نہ ہونے کا ہے۔
اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نظام کے بدلنے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس نظام سے ہم ایمان دار ہو جائیں گے؟ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک ہوجائے گا؟ کیا ہماری عدالتوں میں موجود 30لاکھ سے زیادہ زیر التواء کیسز کا فیصلہ ہو جائے گا؟ کیا ہماری معاشی حالت ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس سے ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس نظام سے ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا؟ یا پھر کیا ہم ایک مہذب قوم گنے جائیں گے؟
اور پھر دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام متعارف کروائے گئے ہیں ان میں لوگوں کی معاشی حالت بدلنے کا دعویٰ سب سے پہلے کیا گیا۔ جہاں عام آدمی کا لائف اسٹائل بہتر ہوا ہے اس نظام کو ہی کامیابی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ چین کا نظام حکومت دنیا سے مختلف ہے لیکن اس نے پچھلے چالیس سال میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے۔
دبئی میں بادشاہت کا نظام ہے اور اسی نظام کے تحت متحدہ عرب امارات کے صحرا امریکا اور یورپ سے زیادہ جدید شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہے جو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایران کا طرز ِحکومت باقی دنیا سے مختلف ہے۔ گو کہ وہاں معاشی انقلاب نہیں آ سکا لیکن دنیا بھر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود سوئی سے لے کر جہاز تک ایران میں تیار کیے جاتے ہیں۔
یعنی قصور ہمارے نظام کا نہیں بلکہ ڈلیور کرنے والوں کا ہے۔ موجودہ سسٹم سے ہی اگر ہم فائدہ نہیں لے سکتے تو پھر نئے نظام میں کیسے تبدیلی لے آئیں گے؟ یا تو یہ ہو نا چاہیے کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ موجودہ پارلیمانی نظام سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ مگر ہمیں یہ سسٹم وہ فائدے نہیں دے رہا جس کی ہمیں ضرورت ہے تو ہم پھر بھی ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔ ل
یکن اگر ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہیں تو جتنے مرضی سسٹم آجائیں، وہ سب وقت کو دھکا لگانے اور نظریہ ضرورت کے تحت ہی آئیں گے!اور پھرجب ہم بحیثیت قوم ہی کرپٹ ہیں تو کوئی بھی نظام آجائے تو یہاں چلنے والا نہیں ہے، یہاں تو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 22تک تمام افراد ہی کرپٹ ہیں تو نظام کس نے نافذ کرنا ہے۔
یہاں تو سب سے پرکشش نوکری سی ایس پی آفیسر کی ہے۔ اور جوبندہ سی ایس پی آفیسر بھرتی ہوتا ہے، تو اُس کی محض 70ہزار تنخواہ ہوتی ہے لیکن اُس کو 7کروڑ روپے کے اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ تو وہ کرپشن نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ جب ہم نے رشوت کے ذریعے پیسہ کمانا ہے تو پھر ہماری بحیثیت قوم تربیت کی ضرورت ہے ناکہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کی۔
لہٰذا ہمیں سب سے پہلے اس پر مذاکرے کروانے چاہئیں، سیمینارز کروانے چاہئیں، ٹی وی پروگرام کروانے چاہئیں بلکہ پی ایچ ڈی اور ایم فل طلبہ سے اس پر ریسرچ کروانی چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم کیسے بدل سکتے ہیں؟ لہٰذاسرکار سے گزارش ہے کہ وقت گزاری کے بجائے عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو سکے اور آپ کو اعدادوشمارآگے پیچھے کرنے اور صدارتی نظام جیسے ایشوز لانچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
ہمارے ملک کی ایک عام روایت ہے ''دھیان بٹانا'' یا یہ کہہ لیں کہ یہ ایک عام مشغلہ بھی ہے۔ مطلب جب آپ کسی سنجیدہ مسئلے پر پھنسے ہوں تو آپ کے ماتحت عملہ یا افسران یا نچلا عملہ اُس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپ کا دھیان بٹانے کی کوشش کرے گا۔
آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں تو بسا اوقات ایک آدھ آفیسر آپ کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑ دے گا کہ ساری میٹنگ کشت زعفران بن جائے گی اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی حال آج کل حکومت کا ہے کہ جب بھی حکمران کسی مسئلے پر پھنستے ہیں تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے آج کل ہمارے ہاں ''صدارتی نظام'' کی بحث جاری ہے۔ اس بارے میں بحث کورونا وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا میں بھی دھڑا دھڑ اظہارِ خیال ہو رہا ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل نے تو باقاعدہ ریفرنڈم کرا ڈالا،صدارتی نظام کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے حق میں اپنی رائے ظاہرکرنے پر اکسایا، اور یقین دلایا کہ اگر بہت بھاری تعداد میں لوگ میدان میں نکل آئے تو پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھے گا،اور وہ سنجیدگی سے اس بارے میں غور کرنے لگیں گے۔ الغرض ہر ٹی وی چینل پر بحث جاری ہے۔
نامی گرامی اینکر صدارتی اور پارلیمانی نظام کی کشتی کرانے میں مصروف ہیں۔اپوزیشن اور حکومت دونوں کے زعما ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں،اس شوشے کی ایجاد ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔اور تو اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دھواں دھار تقریریں ہو رہی ہیں۔لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس نظام کو کیسے لانا ہے؟ قانون کیسے تبدیل کرنا ہے؟ کس نے کرنا ہے؟ یا اس کا کون کون اسٹیک ہولڈر ہے۔
خیر آگے چلنے سے پہلے صدارتی نظام پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اس وقت بہت سے ملکوں میں صدارتی نظام رائج ہے جسے کے مطابق صدر کو براہ راست عوام منتخب کرتے ہیں، جس کے بعد وہ تمام صوبوں یا ریاستوں میں سے اپنے لوگ منتخب کرتا ہے اور یوں وہ پورے ملک پر ایک خاص مدت کے لیے حکمرانی کرتا ہے۔ اس قسم کا نظام امریکا، افغانستان، ارجنٹائن، میکسیکو، میانمار، برازیل، چلی، کولمبیا، انڈونیشیا، کینیا، کولمبیا اور سوڈان وغیرہ میں رائج ہے۔
جب کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں وزیراعظم ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ، جب کہ صدارتی نظام کی باتیں یہاں اُس وقت زور پکڑتی ہیں جب الیکشن قریب آرہے ہوتے ہیں اور حکومت وقت کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی ہو۔ اس کے علاوہ خلافت نظام اور اسلامی نظام کی باتیں بھی عام ہونے لگتی ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کا دھیان بٹانا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو ہم کچھ کر نہیں پائے اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی نظام خراب ہے۔
کیونکہ جن کو لایا گیا ہوتا ہے ان کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خراب ہیں اس لیے ملبہ نظام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ویسے بھی پاکستان میں صدارتی نظام کی باتیں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوا کرتی ہیں، یعنی مکمل صدارتی نظام کا تجربہ ایوب خان نے ہی 1962 سے 1969 تک کیا تھا۔ باقی ادوار مارشل لا کے تھے جو کہ بذاتِ خود سینٹرلائزڈ یا سب کچھ مرکز کے تحت لانے والے ہوتے ہیں۔
ایوب خان کا 58 سے 62 تک مارشل لا، پھر یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لا، ان ساروں میں کمان ایک شخص میں مجتمع ہوتی ہے جو کہ صدارتی نظام میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ طاقت کی مرکزیت ہے۔
سب سے زیادہ سوچنے کی چیز یہ ہے کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو موقع ہی کب دیا، یعنی کیا ہم نے اس نظام کو پوری طرح Implementکیا؟ آج بھی اسمبلیوں میں چلے جائیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کورم پورا نہ ہونے کا ہے۔
اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نظام کے بدلنے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس نظام سے ہم ایمان دار ہو جائیں گے؟ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک ہوجائے گا؟ کیا ہماری عدالتوں میں موجود 30لاکھ سے زیادہ زیر التواء کیسز کا فیصلہ ہو جائے گا؟ کیا ہماری معاشی حالت ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس سے ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس نظام سے ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا؟ یا پھر کیا ہم ایک مہذب قوم گنے جائیں گے؟
اور پھر دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام متعارف کروائے گئے ہیں ان میں لوگوں کی معاشی حالت بدلنے کا دعویٰ سب سے پہلے کیا گیا۔ جہاں عام آدمی کا لائف اسٹائل بہتر ہوا ہے اس نظام کو ہی کامیابی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ چین کا نظام حکومت دنیا سے مختلف ہے لیکن اس نے پچھلے چالیس سال میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے۔
دبئی میں بادشاہت کا نظام ہے اور اسی نظام کے تحت متحدہ عرب امارات کے صحرا امریکا اور یورپ سے زیادہ جدید شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہے جو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایران کا طرز ِحکومت باقی دنیا سے مختلف ہے۔ گو کہ وہاں معاشی انقلاب نہیں آ سکا لیکن دنیا بھر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود سوئی سے لے کر جہاز تک ایران میں تیار کیے جاتے ہیں۔
یعنی قصور ہمارے نظام کا نہیں بلکہ ڈلیور کرنے والوں کا ہے۔ موجودہ سسٹم سے ہی اگر ہم فائدہ نہیں لے سکتے تو پھر نئے نظام میں کیسے تبدیلی لے آئیں گے؟ یا تو یہ ہو نا چاہیے کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ موجودہ پارلیمانی نظام سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ مگر ہمیں یہ سسٹم وہ فائدے نہیں دے رہا جس کی ہمیں ضرورت ہے تو ہم پھر بھی ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔ ل
یکن اگر ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہیں تو جتنے مرضی سسٹم آجائیں، وہ سب وقت کو دھکا لگانے اور نظریہ ضرورت کے تحت ہی آئیں گے!اور پھرجب ہم بحیثیت قوم ہی کرپٹ ہیں تو کوئی بھی نظام آجائے تو یہاں چلنے والا نہیں ہے، یہاں تو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 22تک تمام افراد ہی کرپٹ ہیں تو نظام کس نے نافذ کرنا ہے۔
یہاں تو سب سے پرکشش نوکری سی ایس پی آفیسر کی ہے۔ اور جوبندہ سی ایس پی آفیسر بھرتی ہوتا ہے، تو اُس کی محض 70ہزار تنخواہ ہوتی ہے لیکن اُس کو 7کروڑ روپے کے اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ تو وہ کرپشن نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ جب ہم نے رشوت کے ذریعے پیسہ کمانا ہے تو پھر ہماری بحیثیت قوم تربیت کی ضرورت ہے ناکہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کی۔
لہٰذا ہمیں سب سے پہلے اس پر مذاکرے کروانے چاہئیں، سیمینارز کروانے چاہئیں، ٹی وی پروگرام کروانے چاہئیں بلکہ پی ایچ ڈی اور ایم فل طلبہ سے اس پر ریسرچ کروانی چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم کیسے بدل سکتے ہیں؟ لہٰذاسرکار سے گزارش ہے کہ وقت گزاری کے بجائے عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو سکے اور آپ کو اعدادوشمارآگے پیچھے کرنے اور صدارتی نظام جیسے ایشوز لانچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔