طوق علی مست کا بلوچستان

یہ سر زمین آج سے نہیں 65 برس سے ظلم، جبر اور ناانصافی کا شکار ہے


Zahida Hina September 11, 2012
[email protected]

اٹھارہویں صدی کے طوق علی مست، بلوچستان کے محبوب شاعر مست توکلی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے اشعار سے حسن فطرت کی خوشبو آتی ہے اور عشقِ بے قرار کی تپش اٹھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دھرتی سے قول و قرار اور حق کے لیے جاں نثاری کا لپکا نظر آتا ہے۔ ان کی ایک نظم 'لیموں کا پیڑ'' ہے۔ وہ کہتے ہیں:

میرا محبوب کوہِ جاں دراں پر اُگے ہوئے لیموں کا ایک پیڑ ہے/ جو دشوار گزار گھاٹیوں اور چٹانوں کے سائے میں بڑھا ہے/ وہ ابرِ بہار کے خدوخال لیے ہوئے ہے/ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح لہراتا ہے۔

وہ اس جوہردار تیغ کی طرح ہے جس کے مالک اسے بڑے حوصلے سے اٹھاتے ہیں تا کہ وہ یزیدوں سے نبرد آزما ہوں

وہ شاعر جو محبوب کو اور اس کی نزاکت کو ہوا سے جھومتے ہوئے لیموں کے پیڑ سے تشبیہ دے اور جس کا سراپا بیان کرتے ہوئے اسے وہ تیغ ِ آب دار یاد آئے جو اپنے وقت کے یزید سے نبرد ہونے کے لیے بلند کی جاتی ہے۔ ایسے شاعر کو جنم دینے والی سر زمین دشمنوں کے لیے کیسی سنگلاخ ہو گی، اس کا اندازہ لگانا کچھ نا ممکن تو نہیں۔

اس سر زمین نے اٹھارہویں صدی سے آج تک کیسے عالی دماغ دانشور، ادیب اور شاعر اور صحافی پیدا نہیں کیے۔ یہ سر زمین آج سے نہیں 65 برس سے ظلم، جبر اور ناانصافی کا شکار ہے۔ اب سے چند برس پہلے تک وہاں ہونے والے واقعات کے بارے میں گفتگو سرگوشیوں میں کی جاتی تھی لیکن اب سلی ہوئی زبانوں کے ٹانکے کھل گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یک جہتی کا اظہار کرنے والوں کا قبیلہ تعداد میں بڑھتا جا رہا ہے۔

ان دنوں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ 1970 اور 71 میں ہماری سول سوسائٹی اگر اتنی ہی مستحکم ہوتی اور لوگوں تک سابق مشرقی پاکستان سے آنے والی خبروں کی رسائی ہو رہی ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ مغربی پاکستان میں بیٹھے ہوئے آمران مطلق بنگالی دانشوروں، ادیبوں، شاعروں کے ساتھ وہ کچھ کر گزرتے جو انھوں نے کیا۔

یہ درست ہے کہ اس وقت بلوچستان جس عذاب سے دوچار ہے اور اس پر جس طور ظلم و ستم ہو رہا ہے، جس طرح نوجوان لاپتہ ہو رہے ہیں اور پھران کی مسخ شدہ لاشیں دور دراز علاقوں سے مل رہی ہیں، اس میں کوئی خاص کمی نہیں آئی لیکن ملک کے تمام صوبوں کی بیشتر سیاسی جماعتیں، حقوق انسانی کی تنظیمیں، بہ طور خاص پاکستان کی سپریم کورٹ جس بلند آواز سے بلوچوں کے خلاف ہونے والے ظلم کو آشکار کر رہی ہے، اس پر احتجاج کر رہی ہے اور مختلف سرکاری حکام اور عسکری افسران کے خلاف احکامات جاری کر رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 70 اور 71سے 2012میں زمانہ منقلب ہو چکا ہے۔ ملک کی تمام جمہوری قوتیں اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے یک زبان ہو کر مظلوم اور معتوب بلوچوں کے ساتھ ہیں۔

اردو اور فارسی کے نام دار بلوچی شاعر میر گل خان نصیر نے بلوچوں کے حوالے سے ایک نظم میں کہا تھا:

میری آنکھیں دیکھتی ہیں ظالموں کے جور واستبداد کو...کان سنتے ہیں غریبوِں، بے کسوں کے نالہ و فریاد کو/ دیکھتا ہوں میں کہ کھلیانوں سے اٹھتا ہے دھواں... جل رہی ہیںکھیتیاں ... میرے ہونٹوں پہ کیوں نہ آئیں نغمہ ہائے انقلاب... ڈاکوئوں کو دے نہیں سکتا میں شیروں کا خطاب۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹ سرگرم ہیں اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ ان کی سازش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی کوششوں میںمصروف ہیں۔

ہوسکتا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں لیکن اگر ایسا ہے تو ان لوگوں کی سازشوں کی تفصیل سامنے کیوں نہیں لائی جاتی اور دنیا کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ لوگ کس ملک کے بھیجے ہوئے ایجنٹ ہیں اور اس ملک سے باقاعدہ احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا۔ اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے سازشوں کے نظریے کا سہارا کب تک لیا جاتا رہے گا؟

یہی کچھ مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا گیا تھا۔ وہ اکثریت میں تھے اور مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے وہ اپنا حق مانگتے تھے جو سر چشمہ اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھی تھی۔ لیکن نہ جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کے نتائج تسلیم کیے گئے تھے اورنہ انھیں اقتدار سونپا گیا تھا جو ان کا حق تھا۔ وہاں باقاعدہ آرمی ایکشن ہوا اور جواباً بنگالیوں نے بھی ہتھیار اٹھائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے۔

اب بعض عناصر یہی کہانی بلوچستان میں دہرا رہے ہیں۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اپنے صحافیوں کا جو ہتھیلی پرجان رکھ کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں اور وہاں کی المناک صورتحال سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس حوالے سے بار بار سیمینار کرائے ہیں، بلوچستان پر ایچ آر سی پی کی ایک نہیں کئی رپورٹیں حال ہی میں شایع ہوئی ہیں جنھیں پڑھیے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لاپتہ بلوچوں کی ایک طویل فہرست ہے، سپریم کورٹ جب ان کی بازیابی کے لیے پیروی کرتی ہے تو گولیوں سے چھلنی ان کی لاشیں سربازار پھینک دی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس کے ان جملوں پر صاحبانِ اقتدار غور نہیں کرتے کہ بلوچستان کے معاملات آئین کے تحت نہیں چلائے جا رہے اور ان کا یہ سوال بھی ان ہی لوگوں سے ہے جو حکومت سے بالا تر ہو کر صوبے کے معاملات کو اپنی مرضی کے تابع رکھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان ہی سے پوچھا کہ مزید کتنے بچے یتیم کریں گے؟ اہل سنت اور اہل تشیع کیوں قتل ہو رہے ہیں؟ اور یہ بھی کہ اگر ایک سیشن جج کے قتل کے بعد بھی حکومت حرکت میں نہیں آتی تو پھر باقی کیا رہ جائے گا؟

مستونگ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے کچھ غلط نہیں کہا کہ اگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں، قانون کی پاسداری نہیںکریں گی تو پھر لوگ کیا کریں گے؟ خدا کے بعد یہ صرف عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم کرتی ہیں، اگر ان ہی کے احکامات پر عمل نہیں کیا جاتا تو پھر کیا ہو گا؟ اسی طرح ایک ہندو بلوچی نے سوال کیا کہ پرندے بھی اپنے گھونسلے چھوڑ کر نہیں جاتے ہم اپنا علاقہ اس لیے چھوڑتے ہیں کہ ہمیں اس پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہم میں سے جو بھی اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جا رہے، انھیں امید ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔

ہزارہ برادری کے لوگ جس طرح بسوں سے اتار کر اور ہوٹلوں سے اٹھا کر ہلاک کیے جا رہے ہیں ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ ان کا عقیدہ مختلف ہے۔ ان کے قتل کی خبریں دینے پر صحافیوں کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ صحافیوں کو یہ سکھایا جاتاہے کہ وہ کسی قسم کی تفریق کے بغیر بلا کم و کاست خبر دیں۔ ایسے میں اپنے ضمیر اور اپنے پیشے کی اخلاقی روایات کے سامنے جواب دہ صحافی کہاں جائیں؟

چند دن پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ''بلوچستان کا مسئلہ، اس کا حل اور پیش رفت'' کے موضوع پر ایک کانفرنس کی جس کا اعلامیہ جاری ہو چکا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز اور خفیہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

حکومت کو اس بات سے خبردار کیا گیا کہ بلوچستان میں آیندہ انتخابات کا صاف و شفاف اور پرامن انداز سے انعقاد مشکل نظر آ رہا ہے۔ اگر ان میں ریاست کے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے مداخلت جاری رہی تو اس سے تشدد بڑھے گا اور مرکز اور صوبے کے درمیان اختلافات میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر وہائٹ پیپر جاری کیا جائے اور اسے بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔

کل پارلیمنٹ میں اس بات پر ایک رکن اسمبلی کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا کہ اقوام متحدہ کا تحقیقاتی کمیشن دس دن کے لیے کیوں آیا ہے اور وہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والوں کے بارے میں تحقیقات کیوں کرے گا۔ ایک رکن اسمبلی نے اس مشن کے آنے کو 'قومی خود مختاری' پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ 'یہ ملک کو توڑنے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگا'۔

ایک رکن اسمبلی نے جن کا تعلق پی ایم ایل (ق) سے ہے اقوام متحدہ کے اس وفد کی آمد کو 'دفترخارجہ کی ناکامی' قرار دیا۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب سپریم کورٹ اس مسئلے پر ایک کمیشن قائم کر چکی ہے اور جب چیف جسٹس لاپتہ افراد کا مقدمہ سن رہے ہیں تو پھر ہمارے ملکی معاملات میں یہ بیرونی مداخلت کیوں ہوئی؟ امید ہے کہ اب تک پی ایم ایل (ق) کے ان رکن اسمبلی کو یہ خبر مل گئی ہو گی کہ یہ وفد اپنی مرضی سے ٹہلتا ہوا پاکستان نہیں آیا ہے بلکہ اسے حکومت پاکستان نے آنے اور تحقیقات کرنے کی دعوت دی تھی اور ان کی جماعت حکومت کا حصہ ہے۔

انھیں سپریم کورٹ کا کمیشن تو یاد رہا لیکن وہ چیف جسٹس کی یہ بات بھول گئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انتظامیہ یقین دہانی کے باوجود اقدامات نہیں کرتی۔ لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے اقوام متحدہ والے آ گئے تو سب کی بدنامی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں