اخلاص کی ضرورت…
سیاسی جماعتیں اورعوام قانون کی عملدرآمدی چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی قانون کا غلط استعمال بھی نہ ہو
افواج پاکستان نے ملک کی سالمیت و بقا کے لیے ناقابل فراموش تاریخ رقم کی ہے، لیکن فیالوقت بیرونی دشمن سے زیادہ مملکت کو اندرونی دشمن کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا، قبائل، فاٹا اور بلوچستان میں مسلح افواج کے اہلکار و افسران اپنی جانوں کی قیمتی قربانیاں دے رہے ہیں اور مملکت کی عزت و ناموس پر تن من دھن سے قربان ہو رہے ہیں۔ بیرونی دشمن کی چالبازیوں اور عالمی طاقتوں کی سازشوں کے آگے سینہ سپر ہو کر سرزمین پاک کے ایک ایک چپے کا دفاع کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد سے متعلق قانون کا موجود نہ ہونا، خود عدالت کے لیے مشکل امر تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں، تحفظ پاکستان بل بنایا گیا اور گزشتہ دنوں اس میں چند ترامیم کر کے 2014ء کے اس تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر نافذ العمل کر دیا گیا۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت کراچی آپریشن میں گرفتار ہونے والے متعدد ملزمان کو رینجرز نے 90 روز کے لیے تفتیشی مراکز منتقل کیا ہے جب کہ ترمیمی آرڈیننس کے بعد خفیہ اداروں و عسکری فوج کے تفتیشی یونٹس بھی کسی بھی فرد کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس آرڈیننس پر غور و غوض کے بعد باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے کس قدر جلد فیصلہ کرتی ہے کہ آیا یہ آرڈیننس، کسی شہری حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ ایف آئی آر کے بعد پولیس پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اسے متعلقہ عدالت میں پیش کرے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو تفتیش کے لیے 14 روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح عدالت پر یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ مقدمے کی نوعیت کے پیش نظر پولیس کو 14 یا کم از کم 7 دن کا ریمانڈ دے۔ یہ عدالت کی صوابدید پر بھی ہے کہ وہ اگر محسوس کرے تو ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے اور پولیس پر لازم ہو جاتا ہے کہ 14 دن کے اندر، ملزم کے خلاف چالان اور ثبوت پیش کرے۔ ملزم کو 14 دن کے لیے جوڈیشنل ریمانڈ پر عدالت جیل بھیج دیتی ہے۔
یہاں عدالت پر لازم ہوجاتا ہے کہ 3 ماہ کے اندر چالان کے مطابق مقدمہ چلائے اور گواہان و شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے، 3 ماہ (نوے دن) کی میعاد میں اگر چالان یا چارج فراہم نہیں ہوتا تو ملزم کو قانونی حق ملتا ہے کہ اسے عدالت ضمانت پر رہا کر دے۔ یہ ملزم کا قانونی حق ہے کہ چارج فریم نہ ہونے کی صورت میں90 دن بعد (قتل کے مقدمے کے علاوہ) ضمانت حاصل کر کے اپنے مقدمے کا دفاع کرے گا لیکن یہاں ماتحت عدالتیں صوابدیدی اختیارات استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مطلوبہ فرد کو گھروں سے اٹھاکر تفتیش کے نام پر نامعلوم جگہوں پر لے جاتے ہیں اور انھیں اپنی مرضی کے بعد پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں بھی مقدمات، پابندی سے نہیں چلتے اور لاکھوں ایسے مقدمات ہیں کہ ان کا برسوں تک چارج فریم ہی نہیں ہوا، اور ہزاروں ایسے مقدمات ہیں کہ پولیس نے ابھی تک برسوں گزر جانے کے بعد بھی چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے۔ جس کا فائدہ عمومی طور پر ملزم کو پہنچتا ہے اور وہ 249 کی کارروائی کر کے خود کو مقدمے سے بری کروا لیتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قوانین کے نئے نفاذ سے زیادہ عمل درآمد کی ضرورت پر زور نہیں دیا جاتا، اور لاقانونیت کے ان عناصر کے خلاف مضبوط شواہد پیش نہیں کیے جاتے۔ مثال کے طور پر سندھ آرمز بل کو 21 فروری 2013ء میں سندھ اسمبلی نے منظور کیا اور گورنر سندھ نے 27 فروری 2013ء کو دستخط کیے۔ سندھ گورنمنٹ گزٹ میں نوٹیفکیشن مورخہ یکم مارچ 2013ء کو جاری ہو کر نافذالعمل ہوا۔ غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی مہم حکومت نے جاری کی لیکن شدید ناکامی کا سامنا ہوا اور یہ قانون محض مذاق بن کر رہ گیا۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کے سر پر غیر قانونی اسلحہ تھوپ دیا گیا اور آٹے میں نمک کے برابر ان ملزمان کو بھی فائدہ ضمانت ہوا، جو بے گناہوں کے لیے عدالتوں نے اختیار کیا۔ گو کہ اسلامک ری پبلک آف پاکستان کے آرٹیکل 12 کی رو سے کئی حق تلفیاں ہوئیں اور بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
یقینی طور پر دیکھنے کی یہ بھی ضرورت ہے کہ کیا جرائم کے خلاف پہلے سے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں؟ کیا قانون کے مطابق مختلف اداروں کے اہلکار عمل درآمد کرتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر قوانین میں کوئی سقم موجود ہے تو اس کا یکساں طور پر سب ملزمان پر نفاذ ہونا چاہیے یا پھر موجودہ نظام میں ہی کوئی خرابی ہے تو پھر ایسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا بنیادی مقصد، حساس و خفیہ اداروں کو لاپتہ افراد کے حوالے سے کارروائیوں کو تحفظ دینا ہے۔ اس سے جبری گم شدگیوں اور لاپتہ افراد کے معاملے کو قانونی اختیار ملنے کی ایک کارروائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، معمولی جرائم سے لے کر دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے جرائم کے سدباب سے زیادہ ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ گرفتار کیے جانے والے افراد کو محض شک شبے میں حراست میں لے کر بھیانک تفتیش کرنے سے زیادہ یقینی اس امر کو بنایا جائے کہ بے گناہ افراد کو کسی بھی نوعیت کے جرم میں اٹھایا نہ جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جرم کی شدت کے حساب سے قوانین کو مزید سخت بنائے جانا مثبت اقدام ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا جرم واقعی گناہ گار پر ثابت ہو رہا ہے؟ اگر عدم شواہد کی بنا پر یا کمزور تفتیش کی بنا پر کوئی ملزم رہا ہو جاتا ہے تو اس میں کسی قانون یا عدالت کا قصور نہیں ہوتا بلکہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کی عدم توجہ و دل چسپی سمیت جدید آلات و ذرائع کے اسباب کو استعمال و بروئے کار نہ لانا شامل ہے۔
سیاسی جماعتیں اور باشعور عوام قانون کی عملدرآمدی چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی قانون کا غلط استعمال بھی نہ ہو، خاص کر بے گناہوں پر۔ دہشت گردی کا تعلق کسی بھی نوعیت سے ہو، وطن دشمنی کسی بھی طرف سے ہو، قوانین کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ صرف قانون بنا کر اسے پاس کر دینا اور سخت قوانین کی آڑ میں کسی مخصوص فرد یا جماعت یا گروہ کو نشانہ بنانا قطعی مناسب نہ ہو گا۔بنیادی حقوق کی خلاف ورزی و سلب ہو جانے کے کسی بھی عمل میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عدالتوں اور تفتیش کا نظام شفاف اور غیر جانبدارانہ ہو، ماہر اور مخلص وطن پرست عملہ ہو جس کا مقصد کسی جماعت، گروہ یا فرد کے خلاف یکطرفہ یا سیاسی مقاصد کے لیے حصول نہ ہو بلکہ پہلے سے موجود قوانین کو کماحقہ عوامی مفاد اور پاکستان کی بقا و تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس آرڈیننس پر غور و غوض کے بعد باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے کس قدر جلد فیصلہ کرتی ہے کہ آیا یہ آرڈیننس، کسی شہری حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ ایف آئی آر کے بعد پولیس پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اسے متعلقہ عدالت میں پیش کرے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو تفتیش کے لیے 14 روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح عدالت پر یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ مقدمے کی نوعیت کے پیش نظر پولیس کو 14 یا کم از کم 7 دن کا ریمانڈ دے۔ یہ عدالت کی صوابدید پر بھی ہے کہ وہ اگر محسوس کرے تو ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے اور پولیس پر لازم ہو جاتا ہے کہ 14 دن کے اندر، ملزم کے خلاف چالان اور ثبوت پیش کرے۔ ملزم کو 14 دن کے لیے جوڈیشنل ریمانڈ پر عدالت جیل بھیج دیتی ہے۔
یہاں عدالت پر لازم ہوجاتا ہے کہ 3 ماہ کے اندر چالان کے مطابق مقدمہ چلائے اور گواہان و شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے، 3 ماہ (نوے دن) کی میعاد میں اگر چالان یا چارج فراہم نہیں ہوتا تو ملزم کو قانونی حق ملتا ہے کہ اسے عدالت ضمانت پر رہا کر دے۔ یہ ملزم کا قانونی حق ہے کہ چارج فریم نہ ہونے کی صورت میں90 دن بعد (قتل کے مقدمے کے علاوہ) ضمانت حاصل کر کے اپنے مقدمے کا دفاع کرے گا لیکن یہاں ماتحت عدالتیں صوابدیدی اختیارات استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مطلوبہ فرد کو گھروں سے اٹھاکر تفتیش کے نام پر نامعلوم جگہوں پر لے جاتے ہیں اور انھیں اپنی مرضی کے بعد پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں بھی مقدمات، پابندی سے نہیں چلتے اور لاکھوں ایسے مقدمات ہیں کہ ان کا برسوں تک چارج فریم ہی نہیں ہوا، اور ہزاروں ایسے مقدمات ہیں کہ پولیس نے ابھی تک برسوں گزر جانے کے بعد بھی چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے۔ جس کا فائدہ عمومی طور پر ملزم کو پہنچتا ہے اور وہ 249 کی کارروائی کر کے خود کو مقدمے سے بری کروا لیتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قوانین کے نئے نفاذ سے زیادہ عمل درآمد کی ضرورت پر زور نہیں دیا جاتا، اور لاقانونیت کے ان عناصر کے خلاف مضبوط شواہد پیش نہیں کیے جاتے۔ مثال کے طور پر سندھ آرمز بل کو 21 فروری 2013ء میں سندھ اسمبلی نے منظور کیا اور گورنر سندھ نے 27 فروری 2013ء کو دستخط کیے۔ سندھ گورنمنٹ گزٹ میں نوٹیفکیشن مورخہ یکم مارچ 2013ء کو جاری ہو کر نافذالعمل ہوا۔ غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی مہم حکومت نے جاری کی لیکن شدید ناکامی کا سامنا ہوا اور یہ قانون محض مذاق بن کر رہ گیا۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کے سر پر غیر قانونی اسلحہ تھوپ دیا گیا اور آٹے میں نمک کے برابر ان ملزمان کو بھی فائدہ ضمانت ہوا، جو بے گناہوں کے لیے عدالتوں نے اختیار کیا۔ گو کہ اسلامک ری پبلک آف پاکستان کے آرٹیکل 12 کی رو سے کئی حق تلفیاں ہوئیں اور بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
یقینی طور پر دیکھنے کی یہ بھی ضرورت ہے کہ کیا جرائم کے خلاف پہلے سے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں؟ کیا قانون کے مطابق مختلف اداروں کے اہلکار عمل درآمد کرتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر قوانین میں کوئی سقم موجود ہے تو اس کا یکساں طور پر سب ملزمان پر نفاذ ہونا چاہیے یا پھر موجودہ نظام میں ہی کوئی خرابی ہے تو پھر ایسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا بنیادی مقصد، حساس و خفیہ اداروں کو لاپتہ افراد کے حوالے سے کارروائیوں کو تحفظ دینا ہے۔ اس سے جبری گم شدگیوں اور لاپتہ افراد کے معاملے کو قانونی اختیار ملنے کی ایک کارروائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، معمولی جرائم سے لے کر دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے جرائم کے سدباب سے زیادہ ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ گرفتار کیے جانے والے افراد کو محض شک شبے میں حراست میں لے کر بھیانک تفتیش کرنے سے زیادہ یقینی اس امر کو بنایا جائے کہ بے گناہ افراد کو کسی بھی نوعیت کے جرم میں اٹھایا نہ جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جرم کی شدت کے حساب سے قوانین کو مزید سخت بنائے جانا مثبت اقدام ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا جرم واقعی گناہ گار پر ثابت ہو رہا ہے؟ اگر عدم شواہد کی بنا پر یا کمزور تفتیش کی بنا پر کوئی ملزم رہا ہو جاتا ہے تو اس میں کسی قانون یا عدالت کا قصور نہیں ہوتا بلکہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کی عدم توجہ و دل چسپی سمیت جدید آلات و ذرائع کے اسباب کو استعمال و بروئے کار نہ لانا شامل ہے۔
سیاسی جماعتیں اور باشعور عوام قانون کی عملدرآمدی چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی قانون کا غلط استعمال بھی نہ ہو، خاص کر بے گناہوں پر۔ دہشت گردی کا تعلق کسی بھی نوعیت سے ہو، وطن دشمنی کسی بھی طرف سے ہو، قوانین کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ صرف قانون بنا کر اسے پاس کر دینا اور سخت قوانین کی آڑ میں کسی مخصوص فرد یا جماعت یا گروہ کو نشانہ بنانا قطعی مناسب نہ ہو گا۔بنیادی حقوق کی خلاف ورزی و سلب ہو جانے کے کسی بھی عمل میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عدالتوں اور تفتیش کا نظام شفاف اور غیر جانبدارانہ ہو، ماہر اور مخلص وطن پرست عملہ ہو جس کا مقصد کسی جماعت، گروہ یا فرد کے خلاف یکطرفہ یا سیاسی مقاصد کے لیے حصول نہ ہو بلکہ پہلے سے موجود قوانین کو کماحقہ عوامی مفاد اور پاکستان کی بقا و تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔