یادداشت کی باطنی طاقت
تمام مہذب قوموں کو دہشت گردی کو غیر قانونی کر دینا چاہیے بلا تشریح و جواز اس کو مٹانے کے لیے جنگ کی جانے چاہیے...
دوسرے جنگ عظیم کے قیدی نمبر A7713 ایلی ویزیل جو اب ہاسٹن یونیورسٹی امریکا میں انسانیت کے پروفیسر ہیں نے نوبل امن انعام لیتے ہوئے اپنے خطبے میں کہا ایک قصے میں لکھا ہے کہ نیک نامی کے مالک ریبائی بعل شم تو نے جس کو ہشیت کے نام سے بھی پکارا جا تا تھا ایک اشد ضروری مگر خطر ناک مہم شروع کی تھی۔ مسیحؑ کی آمد میں عجلت کے لیے یہودی عوام کے لیے تمام انسانیت کے لیے جو بڑی مشکل میں گرفتار تھی اور جن کو بہت ساری برائیاں گھیرے ہوئے تھیں ان کو فوراً بچایا جانا تھا۔ تاریخ میں دخل اندازی کے لیے ہشیت کو سزا دی گئی تھی۔ ایک دور افتادہ جزیرے پر اپنے ایک مخلص ملازم کے ساتھ جلا وطنی کی۔ مایوسی کے عالم میں ملازم نے اپنے آقا سے درخواست کی کہ وہ اپنی پر اسرار طاقت سے دونوں کو گھر واپس پہنچا دے۔
'' ناممکن'' ہشیت نے جواب دیا ''میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہے۔'' تو آپ کوئی دعا کیجیے مغفرت کی دعا کیجیے یا کو ئی معجزہ کیجیے۔ ''ناممکن''۔ ہشیت نے جواب دیا۔'' میں سب کچھ بھول گیا ہوں'' اور پھر دونوں ساتھ مل کر رونے لگے پھر اچانک آقا اپنے ملازم سے مخاطب ہوا ذرا مجھے دعا یاد کرائو کوئی بھی دعا دیکھیے اگر میں نہ کر سکا۔ ملازم نے جواب دیا میں خود بھی سب کچھ بھول چکا ہوں سب کچھ بالکل سب کچھ ؟ جی ہاں سوائے سوائے کیا؟ سوائے حروف کے۔ ہشیت یہ سنتے ہی خو شی سے چلایا تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟ تم حروف کی تلاوت شروع کر و اور میں تمہارے ساتھ ساتھ دہراتا جائوں گا اور پھر دونوں جلا وطنوں نے تلاوت شروع کی پہلے سر گو شی میں پھرذرا اونچی آواز میں الف، بے، جیم، دال اور یہ تلاوت باربار ہوتی رہی ہر بار زیادہ قوت سے زیادہ گرم جو شی سے، حتیٰ کہ ہشیت میں اس کی طاقتیں عو د کر آئیں اور اس کی یادداشت واپس آ گئی ۔
مجھے یہ کہانی بہت پسند ہے یہ انسان کی دوستی کی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے جو اپنی قلب ماہیت کی صلاحیت رکھتی ہے مجھے یہ اس لیے بھی پسند ہے کہ یہ یادداشت کی باطنی طاقت کو بھی واضح کرتی ہے یادداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہو جاتا ہے قید کی اس کو ٹھر ی کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کر تا ہے یادداشت نے ہشیت کو بچا لیا تھا اور وہ صرف یادداشت ہی ہے جو انسانیت کو بچائے گی میرے نزدیک امید بغیر یادداشت کے ویسی ہے جیسے یادداشت بغیر کسی امید کے۔ جس طرح آدمی خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ امید کے بغیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی کے مسترد کرنے کی بنیاد پر بنے گا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مو زوں نہیں ماضی کا مقابلہ مستقبل نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتا ہے، مستقبل کا مقابل ماضی نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتی ہے۔
بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کر سکتے ہیں کیا انسان کے لیے یہ فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچائے یا اسے شر مند ہ کرے وہ اس کو دبائے۔ کسی جسم کی طرح یادداشت بھی اپنے زخموں کو بچاتی ہے بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوئوں کو اپنی قبروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے مگر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کر سکے مگر ان کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں سب کچھ بھول جانا کبھی ہماری خواہش نہیں رہی ہے یاد رکھنا ایک شریفانہ اور ضروری طرز عمل ہے یادداشت کے تقاضے اور یادداشت کو تازہ کرنے کا عمل روز اول سے ہم تک پہنچا ہے اس جیسا اور کوئی حکم خداوندی نہیں جو انجیل میں باربار آیا ہو۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم عطا ہونے والی اچھائیوں اور دکھ دینے والی برائیوں دونوں کو یاد رکھیں۔ اس کے با وجود فراموش کر دینا حتی کہ بھول جانے کی خواہش کرنا بھی انسانیت ہے قدیم لوگ اس کو عطائے ربانی سمجھتے تھے دراصل اگر یادداشت نجات میں مدد دیتی ہے تو فرامو ش کر دینے کا عمل ہم کو زند ہ رہنے کی اجازت دیتا ہے ہم کس طرح اپنا روز مرہ گزار سکتے ہیں اگر ہمہ وقت اپنے اطراف خطرات اور بدروحوں کے بارے میں فکر کرتے رہیں۔
تالمود ہمیں بتاتی ہے کہ فراموش کر دینے کی صلاحیت کے بغیر آدمی سیکھنے سے معذور ہو جاتا ہے بھلا دینے کی صلاحیت کے بغیر آدمی ایک مستقل اور مفلوج موت کے خو ف میں مبتلا ہو جاتا ہے خدا اور صرف خدا ہی سب کچھ یاد رکھ سکتا ہے، اگر 1945 میں کوئی ہم سے کہتا کہ ہمارے عرصہ حیات میں تقریبا ًہر براعظم پر مذہب کی بنیاد پر جنگ ہو گی ایک بار پھر ہزاروں بچے بھوک سے مر جائیں گے تو ہم کبھی یقین نہیں کرتے یا پھر نسلی تعصب اور شدت پسندی ایک بار پھر سر اٹھائے گی تو ہمیں اس پر بھی یقین نہ آتا۔ نہ ہی ہمیں اس بات پر یقین آتا ہے کہ ایسی حکومتیں بھی ہوں گی جو لیخ و النسیا جیسے انسان کو اس لیے آزادی سے سفر نہیں کرنے دیں گی کہ وہ اختلاف کرنے کی ہمت کرتا ہے اور وہ اکیلا نہیں ہے دائیں اور بائیں بازو کی حکومتیں اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں تشدد اور ایذا رسانی کا نشانہ بنانے میں اختلاف کرنیوالوں کو ادیبوں کو سائنس دانوں کو اور دانش وروں کو۔ یادداشت کی اس شکست کی تشریح بھلا کیسے کی جائے نسلی امتیاز کی ناجائز دست اندازی جو بلا تخفیف اب بھی جاری ہے نسلی تعصب بھیانک ہے مگر جب یہ قانونی ہونے اور صحیح ہونے کا بہانہ تلاش کرے۔
تمام مہذب قوموں کو دہشت گردی کو غیر قانونی کر دینا چاہیے بلا تشریح و جواز اس کو مٹانے کے لیے جنگ کی جانے چاہیے کوئی بھی جواز نہیں اس کا اور معصوم اور بے سہارا بچوں کے قتل عام کا کوئی بھی سبب قابل قبول نہیں ہو سکتا اور ایک بار پھر ہم یادداشت کی طرف واپس آتے ہیں ہمیں اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہو گا جب ہم نا انصافی کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں میں نے ہشیت کے قصے سے شروعات کی تھی اور ہشیت کی طرح بنی نوع انسان کو پہلے سے بھی زیادہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور مخلوق کے لیے امن خدا کا تحفہ نہیں ایک دوسرے کے لیے ہمارا اپنا تحفہ ہے۔ ہر پاکستانی کے اندر ایک خالی قبر موجو د ہے اس نے اب تک اپنے مردے کو دفن نہیں کیا ہے اور وہ کر بھی کیسے سکتا ہے۔ اس کی خواہشوں اور اس کی امیدوں کو جس طرح لاش میں تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ اسے کیسے بھلا سکتا ہے آخر اسے کس ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی ہے اس کا جرم کیا ہے اس کا قصور کیا ہے وہ کیوں تڑپ تڑپ کر، بلک بلک کر، سسک سسک کر زندہ ہے غربت، افلاس، بیماریاں، جہالت، دہشت گردی، بھوک، بد امنی کیوں اس کا نصیب اور مقدر بنی ہوئی ہیں۔ وہ کیوں مسجدوں، اما م بارگاہوں، گرجا گھروں، مندروں میں خدا کو سکون سے یاد کرتے ہوئے ڈرتا رہتا ہے۔
وہ کیوں ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے وہ کیوں ہر وقت اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے لر زتا رہتا ہے، کیوں اس کا خو شحالی، ترقی اور امن و سکون کی طرف سفر ختم نہیں ہو پاتا، کیوں اسے دھتکارا جاتا ہے، کیوں اسے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے ، کیوں اس کی ہر شام، شام غریباں ہوتی ہے، کیوں اس کی شرافت، ذہانت، قابلیت اس کے لیے گالی بن کر رہ گئی ہے ۔وہ اپنے ساتھ روا رکھے ظلم اور زیادتی کو کیوں فراموش کرے یہ اس کی یادداشت ہی ہے جو اسے ہر پل یہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا ہے اس کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدترین سلوک روا رکھا گیاہے۔ لیکن یہ یادداشت ہی ہے جو اسے اس بات کا حو صلہ اور امید دلاتی ہے کہ آنے والا کل اسی کا ہو گا۔ آنیوالے کل میں اس کے ساتھ کوئی ظلم و ستم اور تعصب نہ روا رکھا جائے گا۔ وہ بھی دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح خو شحال، آزاد، خود مختار اور بااختیار ہو گا، وہ بھی چین سے جی سکے گا اور چین سے سو سکے گا۔
'' ناممکن'' ہشیت نے جواب دیا ''میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہے۔'' تو آپ کوئی دعا کیجیے مغفرت کی دعا کیجیے یا کو ئی معجزہ کیجیے۔ ''ناممکن''۔ ہشیت نے جواب دیا۔'' میں سب کچھ بھول گیا ہوں'' اور پھر دونوں ساتھ مل کر رونے لگے پھر اچانک آقا اپنے ملازم سے مخاطب ہوا ذرا مجھے دعا یاد کرائو کوئی بھی دعا دیکھیے اگر میں نہ کر سکا۔ ملازم نے جواب دیا میں خود بھی سب کچھ بھول چکا ہوں سب کچھ بالکل سب کچھ ؟ جی ہاں سوائے سوائے کیا؟ سوائے حروف کے۔ ہشیت یہ سنتے ہی خو شی سے چلایا تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟ تم حروف کی تلاوت شروع کر و اور میں تمہارے ساتھ ساتھ دہراتا جائوں گا اور پھر دونوں جلا وطنوں نے تلاوت شروع کی پہلے سر گو شی میں پھرذرا اونچی آواز میں الف، بے، جیم، دال اور یہ تلاوت باربار ہوتی رہی ہر بار زیادہ قوت سے زیادہ گرم جو شی سے، حتیٰ کہ ہشیت میں اس کی طاقتیں عو د کر آئیں اور اس کی یادداشت واپس آ گئی ۔
مجھے یہ کہانی بہت پسند ہے یہ انسان کی دوستی کی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے جو اپنی قلب ماہیت کی صلاحیت رکھتی ہے مجھے یہ اس لیے بھی پسند ہے کہ یہ یادداشت کی باطنی طاقت کو بھی واضح کرتی ہے یادداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہو جاتا ہے قید کی اس کو ٹھر ی کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کر تا ہے یادداشت نے ہشیت کو بچا لیا تھا اور وہ صرف یادداشت ہی ہے جو انسانیت کو بچائے گی میرے نزدیک امید بغیر یادداشت کے ویسی ہے جیسے یادداشت بغیر کسی امید کے۔ جس طرح آدمی خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ امید کے بغیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی کے مسترد کرنے کی بنیاد پر بنے گا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مو زوں نہیں ماضی کا مقابلہ مستقبل نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتا ہے، مستقبل کا مقابل ماضی نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتی ہے۔
بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کر سکتے ہیں کیا انسان کے لیے یہ فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچائے یا اسے شر مند ہ کرے وہ اس کو دبائے۔ کسی جسم کی طرح یادداشت بھی اپنے زخموں کو بچاتی ہے بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوئوں کو اپنی قبروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے مگر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کر سکے مگر ان کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں سب کچھ بھول جانا کبھی ہماری خواہش نہیں رہی ہے یاد رکھنا ایک شریفانہ اور ضروری طرز عمل ہے یادداشت کے تقاضے اور یادداشت کو تازہ کرنے کا عمل روز اول سے ہم تک پہنچا ہے اس جیسا اور کوئی حکم خداوندی نہیں جو انجیل میں باربار آیا ہو۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم عطا ہونے والی اچھائیوں اور دکھ دینے والی برائیوں دونوں کو یاد رکھیں۔ اس کے با وجود فراموش کر دینا حتی کہ بھول جانے کی خواہش کرنا بھی انسانیت ہے قدیم لوگ اس کو عطائے ربانی سمجھتے تھے دراصل اگر یادداشت نجات میں مدد دیتی ہے تو فرامو ش کر دینے کا عمل ہم کو زند ہ رہنے کی اجازت دیتا ہے ہم کس طرح اپنا روز مرہ گزار سکتے ہیں اگر ہمہ وقت اپنے اطراف خطرات اور بدروحوں کے بارے میں فکر کرتے رہیں۔
تالمود ہمیں بتاتی ہے کہ فراموش کر دینے کی صلاحیت کے بغیر آدمی سیکھنے سے معذور ہو جاتا ہے بھلا دینے کی صلاحیت کے بغیر آدمی ایک مستقل اور مفلوج موت کے خو ف میں مبتلا ہو جاتا ہے خدا اور صرف خدا ہی سب کچھ یاد رکھ سکتا ہے، اگر 1945 میں کوئی ہم سے کہتا کہ ہمارے عرصہ حیات میں تقریبا ًہر براعظم پر مذہب کی بنیاد پر جنگ ہو گی ایک بار پھر ہزاروں بچے بھوک سے مر جائیں گے تو ہم کبھی یقین نہیں کرتے یا پھر نسلی تعصب اور شدت پسندی ایک بار پھر سر اٹھائے گی تو ہمیں اس پر بھی یقین نہ آتا۔ نہ ہی ہمیں اس بات پر یقین آتا ہے کہ ایسی حکومتیں بھی ہوں گی جو لیخ و النسیا جیسے انسان کو اس لیے آزادی سے سفر نہیں کرنے دیں گی کہ وہ اختلاف کرنے کی ہمت کرتا ہے اور وہ اکیلا نہیں ہے دائیں اور بائیں بازو کی حکومتیں اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں تشدد اور ایذا رسانی کا نشانہ بنانے میں اختلاف کرنیوالوں کو ادیبوں کو سائنس دانوں کو اور دانش وروں کو۔ یادداشت کی اس شکست کی تشریح بھلا کیسے کی جائے نسلی امتیاز کی ناجائز دست اندازی جو بلا تخفیف اب بھی جاری ہے نسلی تعصب بھیانک ہے مگر جب یہ قانونی ہونے اور صحیح ہونے کا بہانہ تلاش کرے۔
تمام مہذب قوموں کو دہشت گردی کو غیر قانونی کر دینا چاہیے بلا تشریح و جواز اس کو مٹانے کے لیے جنگ کی جانے چاہیے کوئی بھی جواز نہیں اس کا اور معصوم اور بے سہارا بچوں کے قتل عام کا کوئی بھی سبب قابل قبول نہیں ہو سکتا اور ایک بار پھر ہم یادداشت کی طرف واپس آتے ہیں ہمیں اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہو گا جب ہم نا انصافی کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں میں نے ہشیت کے قصے سے شروعات کی تھی اور ہشیت کی طرح بنی نوع انسان کو پہلے سے بھی زیادہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور مخلوق کے لیے امن خدا کا تحفہ نہیں ایک دوسرے کے لیے ہمارا اپنا تحفہ ہے۔ ہر پاکستانی کے اندر ایک خالی قبر موجو د ہے اس نے اب تک اپنے مردے کو دفن نہیں کیا ہے اور وہ کر بھی کیسے سکتا ہے۔ اس کی خواہشوں اور اس کی امیدوں کو جس طرح لاش میں تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ اسے کیسے بھلا سکتا ہے آخر اسے کس ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی ہے اس کا جرم کیا ہے اس کا قصور کیا ہے وہ کیوں تڑپ تڑپ کر، بلک بلک کر، سسک سسک کر زندہ ہے غربت، افلاس، بیماریاں، جہالت، دہشت گردی، بھوک، بد امنی کیوں اس کا نصیب اور مقدر بنی ہوئی ہیں۔ وہ کیوں مسجدوں، اما م بارگاہوں، گرجا گھروں، مندروں میں خدا کو سکون سے یاد کرتے ہوئے ڈرتا رہتا ہے۔
وہ کیوں ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے وہ کیوں ہر وقت اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے لر زتا رہتا ہے، کیوں اس کا خو شحالی، ترقی اور امن و سکون کی طرف سفر ختم نہیں ہو پاتا، کیوں اسے دھتکارا جاتا ہے، کیوں اسے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے ، کیوں اس کی ہر شام، شام غریباں ہوتی ہے، کیوں اس کی شرافت، ذہانت، قابلیت اس کے لیے گالی بن کر رہ گئی ہے ۔وہ اپنے ساتھ روا رکھے ظلم اور زیادتی کو کیوں فراموش کرے یہ اس کی یادداشت ہی ہے جو اسے ہر پل یہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا ہے اس کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدترین سلوک روا رکھا گیاہے۔ لیکن یہ یادداشت ہی ہے جو اسے اس بات کا حو صلہ اور امید دلاتی ہے کہ آنے والا کل اسی کا ہو گا۔ آنیوالے کل میں اس کے ساتھ کوئی ظلم و ستم اور تعصب نہ روا رکھا جائے گا۔ وہ بھی دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح خو شحال، آزاد، خود مختار اور بااختیار ہو گا، وہ بھی چین سے جی سکے گا اور چین سے سو سکے گا۔