نسلی تفریق کا سماجی و سیاسی کردار… پہلا حصہ
وہ ڈیفرنس جو گورے رنگ کی شناخت کی ضمانت تھا اسی کے تحت افریقہ کے لوگوں کا استحصال دہائیوں تک جاری رہا
مختلف ''دوسرے'' کا خوف اور جبر انسان کی سماجی و سیاسی زندگی کی ساختیں متعین کرنے میں ہمیشہ سے کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ''دوسرے'' سے اختلاف و فرق کو بنیاد بناتے ہوئے ''پہلے'' طاقتور گروہ نے کبھی اپنے خوف کو چھپانے کے لیے تو کبھی اپنے احساسِ برتری کی تسکین کی خاطر ''دوسرے'' کو کمتر سمجھتے ہوئے اس کی غلط اور منفی شناخت نچلے درجے پر مستحکم کی ہے۔ دنیا بھر کے سماج و ثقافت اور سیاست میں پسے ہوئے ''دوسرے'' کے ڈیفرنس کو بنیاد بناتے ہوئے اس کی ثانوی حیثیت دیکھی جا سکتی ہے جو ''پہلے'' طاقتور گروہ نے جا بجا مستحکم کی ہے۔ کبھی مذہبی آئیڈیالوجی کی بخشی ہوئی فوقیتی ترتیب کے تحت تو کبھی رنگ و نسل کی بنیاد پر، کبھی فرقہ واریت کی بنیاد پر تو کبھی جینڈر ڈیفرنس کی بنیاد پر، پہلے طاقتور اور دوسرے پسے ہوئے مجبور و مظلوم طبقات شناخت کیے جا سکتے ہیں۔ ان دو طبقات کے مابین اختلاف کی جتنی بھی ساختیں موجود رہی ہیں ان کو پہلے نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے دوسرے کے خلاف ہمیشہ منفی طرز سے استعمال کیا ہے، مثلاََ عورت اور مرد کے مابین موجود بائیولاجیکل افتراق کو مرد نے ہمیشہ سے خوبصورت مثبت، مختلف، مگر مساوی سطح پر شناخت کر کے مستحکم کرنے کی بجائے کمزور، کم حیثیت و کمتر درجے کی مخلوق کے طور پر استحکام بخشا ہے۔
اسی طرح مختلف مذاہب کے تحت طاقت ور طبقات، کمزور طبقات کی شناخت مختلف مسلک و فرقے کو بنیاد بناتے ہوئے، مساوی سطح پر کرنے کی بجائے ایک کمزور اور زیر دست طبقے کے طور پر مستحکم کرتے آئے ہیں۔ ایسی شناختو ں کے استحکام میں بنیادی کردار کسی فرقے یا مسلک کی آئیڈیالوجی کا تو ہوتا ہے مگر فیصلہ کن نہیں کردار طاقت ہی کا رہا ہے۔ اسی طرح اس فرق کو ہم رنگ و نسل کی بنیاد پر قائم ہونے والی شناختوں میں دیکھ سکتے ہیں، کہ کس طرح رنگ و نسل کو بنیاد بناتے ہوئے 'پہلے' نے پسے ہوئے 'دوسرے' کو طاقت کے ذریعے خود سے الگ سماج میں کم درجہ پر رکھا اور معاشی و سماجی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے لیے اس 'ڈیفرنس' کو جواز بنایا جو دونوں گروہوں کے درمیان وقت اور رنگ و نسل پر مبنی تھا۔ جیسے گورے اور کالے رنگ کی بنیاد پر، انسانی تاریخ کے ہر دور میں فوقیتی ترتیب کے تحت ایک طبقہ ظلم کا شکار ہوتا آیا ہے مثال کے طور پر سائوتھ افریقن اپارٹی ہائیڈ دور دیکھا جا سکتا ہے جس میں افریقہ کے لوگوں کو رنگ و نسل کے ڈیفرنس کی بنیاد پر گوروں نے ان کو غلام کی حیثیت دیے رکھی۔ گورے اور کالے رنگ کے مابین موجود 'ڈیفرنس' جو ایک دوسرے کو شناخت عطا بھی کرتا تھا اور شناخت کو بدلتا بھی تھا اس کو گوروں نے افریقہ کے لوگوں پر اپنا جبر قائم رکھنے کے لیے ناجائز استعمال کیا۔
وہ ڈیفرنس جو گورے رنگ کی شناخت کی ضمانت تھا اسی کے تحت افریقہ کے لوگوں کا استحصال دہائیوں تک جاری رہا، یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس دور میں صرف کالے لوگوں کا ہی استحصال نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی گورے بھی اپنے ہی طبقے میں موجود استحصالی طبقے کے ظلم کا شکار تھے، ہم رنگ اور ہم نسلوں کے ساتھ اس کمتر سلوک کی وجہ وہ تفریق تھی جو ان کی سماجی حیثیتوں میں موجود تھی۔ اس ظلم کو اس وقت میں مختلف پالیسیوں اور حکومت کی قانونی ساختوں کے ذریعے جائز بنایا جاتا تھا جسے بالآخر افریقہ کے لوگوں نے اپنے ہی جیسے پسے ہوئے دوسرے مگر گورے لوگوں سے مل کر مجموعی جدوجہد کے ذریعے ختم کیا اور ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں طاقت ور 'پہلا' رنگ و نسل اور طبقات کی بنیاد پر کسی بھی انسان کی حق تلفی کرنے میں آسانی سے کامیاب نہ ہو سکا، مگر اس کے باوجود ڈیفرنس کے زیرِ اثر آج بھی 'پہلے' اور 'دوسرے' کی شناخت یورپ کے مختلف معاشروں میں کی جا سکتی ہے۔
یہ فرق اور اس کے اثرات ان معاشروں میں مکمل طور پر پسے ہوئے طبقات کی جدو جہد کے نتیجے میں ابھی تک مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے، مگر کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔ نسل پرستی کے علاوہ علاقائیت ثقافتی و سماجی حیثیتیں بھی ایک اور فرق کی نمائندگی کرتی ہیں، خصوصاََ جدید شہروں میں مختلف ہاوسنگ کمیونٹیز اور gated colonies کی ساخت میں ڈیفرنس کے زیر ِ اثر استحصالی طبقات کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک کی ایک لمبی تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح شہروں کے اندر نظم و نسق کے نام پر اقلیتوں کو مختلف آئیڈیالوجی کے استعمال سے طاقت ور اکثریت خود سے فاصلے پر رکھتی رہی ہے۔ اس کام کو کسی بھی سماج کے برسرِ اقتدار طبقات نے ہمیشہ قانونی طور پر جائز بنانے کے لیے شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے تحت انجام دیا ہے، نئی نئی ہاوسنگ اسکیمیں اور کالونیوں کی مرکزی سماجی حقیقت دراصل تفریق پر مبنی ہوتی ہے جسے تحفظ اور لائف اسٹائل کا نام دیا جا تا ہے۔
(جاری ہے)
اسی طرح مختلف مذاہب کے تحت طاقت ور طبقات، کمزور طبقات کی شناخت مختلف مسلک و فرقے کو بنیاد بناتے ہوئے، مساوی سطح پر کرنے کی بجائے ایک کمزور اور زیر دست طبقے کے طور پر مستحکم کرتے آئے ہیں۔ ایسی شناختو ں کے استحکام میں بنیادی کردار کسی فرقے یا مسلک کی آئیڈیالوجی کا تو ہوتا ہے مگر فیصلہ کن نہیں کردار طاقت ہی کا رہا ہے۔ اسی طرح اس فرق کو ہم رنگ و نسل کی بنیاد پر قائم ہونے والی شناختوں میں دیکھ سکتے ہیں، کہ کس طرح رنگ و نسل کو بنیاد بناتے ہوئے 'پہلے' نے پسے ہوئے 'دوسرے' کو طاقت کے ذریعے خود سے الگ سماج میں کم درجہ پر رکھا اور معاشی و سماجی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے لیے اس 'ڈیفرنس' کو جواز بنایا جو دونوں گروہوں کے درمیان وقت اور رنگ و نسل پر مبنی تھا۔ جیسے گورے اور کالے رنگ کی بنیاد پر، انسانی تاریخ کے ہر دور میں فوقیتی ترتیب کے تحت ایک طبقہ ظلم کا شکار ہوتا آیا ہے مثال کے طور پر سائوتھ افریقن اپارٹی ہائیڈ دور دیکھا جا سکتا ہے جس میں افریقہ کے لوگوں کو رنگ و نسل کے ڈیفرنس کی بنیاد پر گوروں نے ان کو غلام کی حیثیت دیے رکھی۔ گورے اور کالے رنگ کے مابین موجود 'ڈیفرنس' جو ایک دوسرے کو شناخت عطا بھی کرتا تھا اور شناخت کو بدلتا بھی تھا اس کو گوروں نے افریقہ کے لوگوں پر اپنا جبر قائم رکھنے کے لیے ناجائز استعمال کیا۔
وہ ڈیفرنس جو گورے رنگ کی شناخت کی ضمانت تھا اسی کے تحت افریقہ کے لوگوں کا استحصال دہائیوں تک جاری رہا، یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس دور میں صرف کالے لوگوں کا ہی استحصال نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی گورے بھی اپنے ہی طبقے میں موجود استحصالی طبقے کے ظلم کا شکار تھے، ہم رنگ اور ہم نسلوں کے ساتھ اس کمتر سلوک کی وجہ وہ تفریق تھی جو ان کی سماجی حیثیتوں میں موجود تھی۔ اس ظلم کو اس وقت میں مختلف پالیسیوں اور حکومت کی قانونی ساختوں کے ذریعے جائز بنایا جاتا تھا جسے بالآخر افریقہ کے لوگوں نے اپنے ہی جیسے پسے ہوئے دوسرے مگر گورے لوگوں سے مل کر مجموعی جدوجہد کے ذریعے ختم کیا اور ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں طاقت ور 'پہلا' رنگ و نسل اور طبقات کی بنیاد پر کسی بھی انسان کی حق تلفی کرنے میں آسانی سے کامیاب نہ ہو سکا، مگر اس کے باوجود ڈیفرنس کے زیرِ اثر آج بھی 'پہلے' اور 'دوسرے' کی شناخت یورپ کے مختلف معاشروں میں کی جا سکتی ہے۔
یہ فرق اور اس کے اثرات ان معاشروں میں مکمل طور پر پسے ہوئے طبقات کی جدو جہد کے نتیجے میں ابھی تک مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے، مگر کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔ نسل پرستی کے علاوہ علاقائیت ثقافتی و سماجی حیثیتیں بھی ایک اور فرق کی نمائندگی کرتی ہیں، خصوصاََ جدید شہروں میں مختلف ہاوسنگ کمیونٹیز اور gated colonies کی ساخت میں ڈیفرنس کے زیر ِ اثر استحصالی طبقات کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک کی ایک لمبی تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح شہروں کے اندر نظم و نسق کے نام پر اقلیتوں کو مختلف آئیڈیالوجی کے استعمال سے طاقت ور اکثریت خود سے فاصلے پر رکھتی رہی ہے۔ اس کام کو کسی بھی سماج کے برسرِ اقتدار طبقات نے ہمیشہ قانونی طور پر جائز بنانے کے لیے شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے تحت انجام دیا ہے، نئی نئی ہاوسنگ اسکیمیں اور کالونیوں کی مرکزی سماجی حقیقت دراصل تفریق پر مبنی ہوتی ہے جسے تحفظ اور لائف اسٹائل کا نام دیا جا تا ہے۔
(جاری ہے)